ایوب حکومت کے دوران بہت سے عدالتی فیصلے ایسے ہیں جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ججوں نے مارشل لاء یا حکومت کے دباؤ پر کیے
مصنف کا تعارف
مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
یہ بھی پڑھیں: پہلا ٹی 20: بنگلا دیش کو بھارت کی جانب سے زبردست شکست
قسط: 57
یہ بھی پڑھیں: سی ٹی ڈی کی موسیٰ خیل،بلوچستان میں کارروائی، 3 دہشتگرد ہلاک، دو گرفتار
آئین ساز اسمبلی کا تحلیل
پاکستان میں بہت سے لوگوں نے آئین ساز اسمبلی کے تحلیل کئے جانے کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ مولوی تمیز الدین جو کہ اس اسمبلی کے سپیکر تھے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے احکامات کو کالعدم قرار دے دیا۔ حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی برآمدات میں 13.45 فیصد اضافہ ریکارڈ
فیصلہ اور اثرات
جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں عدالت نے گورنر جنرل کے احکامات کو درست قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے فیصلہ میں گورنر جنرل کے احکامات اور اختیارات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین ساز اسمبلی گورنر جنرل کا ایک ماتحت ادارہ تھا جسے ختم کر دیا گیا۔ گورنر جنرل نے نئی آئین ساز اسمبلی تشکیل دے دی، جس نے 1956ء میں آئین سازی مکمل کر کے ملک کو 1956ء کا آئین دے دیا۔ جسٹس منیر کا یہ فیصلہ ایک متنازعہ فیصلہ قرار پایا اور عوام میں اس تاثر کی بنیاد بن گیا کہ جوڈیشری کا رویہ حکومت یا طاقتور بااختیار لوگوں کے حق میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں اے این کے گلوبل پروفیشنل لیڈرز ٹوسٹ ماسٹرز کلب کا افتتاح
اختلافی نوٹ
اس مقدمہ میں فیڈرل کورٹ کے ایک جج جسٹس کارنیلس نے اختلافی نوٹ تحریر کیا، جس میں انہوں نے جسٹس منیر کے فیصلہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کو غلط اقدام قرار دیا اور کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں جو دلائل دیئے گئے ہیں وہ غلط ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نادیہ کھر نے اپنی گرفتاری کا معاملہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے سامنے اٹھادیا
مارشل لاء کا نفاذ
9 اکتوبر 1958ء کو صدر پاکستان جنرل سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کرتے ہوئے آئین کو منسوخ اور اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اس موقع پر جسٹس منیر اور اُن کی عدالت میں جونہی اس مارشل لاء کے خلاف مقدمہ آیا تو محسوس ہوا کہ وہ تو اس کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ مسٹر جسٹس منیر نے مارشل لاء کے تمام اقدامات کو جائز قرار دے دیا اور اپنے فیصلہ میں معروف قانون دان ہانس کیلسن کی ایک سیاسی تھیوری..نظریہ ضرورت کے مطابق درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ کامیاب بغاوت انقلاب کہلاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عظمٰی بخاری سے سینیئر فنکاروں کی ملاقات، تھیٹر ڈراموں کو مہذب اور ثقافتی بنانے کیلیے 7 رکنی ایڈوائزری کمیٹی قائم
ایوب خان کی کابینہ میں حیثیت
انہوں نے اپنے فیصلہ میں مارشل لاء کے نفاذ کو آئینی اور قانونی جواز مہیا کر دیا۔ یقینا عوام کو یاد ہو گا کہ بعد میں ایوب خان کے اقتدار کے چوتھے سال میں جسٹس منیر کو ایوب کابینہ میں وزیر قانون مقرر کیا گیا تھا مگر وہ جلد ہی وزارت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد جسٹس کارنیلس بھی ایوب حکومت میں وفاقی وزیر قانون رہے مگر وہ بھی جلد ہی مستعفی ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کے سیاست سے تعلق پر وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری کا “تبصرہ”
عدالتی فیصلے اور دباؤ
ایوب حکومت کے دوران بہت سے عدالتی فیصلے بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلے ججوں نے مارشل لاء ضوابط یا پھر حکومت کے دباؤ پر کیے۔ ان میں اہم ترین فیصلے وہ ہیں جو جسٹس اے آر چنگیز نے ایبڈو ٹربیونل میں کیے۔
یہ بھی پڑھیں: استور سے راولپنڈی جانے والی باراتیوں کی کوسٹر دریا میں گر گئی ،ایک میت نکال لی گئی، 22کی تلاش جاری
انصاف کا تقاضا
ان میں محض برائے نام الزامات پرعملاً جن کی حیثیت کچھ بھی نہ تھی بڑے اہم سیاست دانوں کو ایبڈو کر کے سات سال کے لئے سیاست سے نااہل قرار دے دیا گیا اور اُن کی وضاحت اور صفائی کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ ایبڈو ٹربیونل کے فیصلوں کا ریکارڈ کہیں پر ضرور موجود ہو گا۔ اسے ضرور شائع ہونا چاہئے۔ ایوب خان اور سکندر مرزا نے تو آئین کو بھی منسوخ کر دیا تھا مگر جو لوگ اپنے نام کے ساتھ جسٹس لکھتے ہیں اُنہیں تو فیصلے کرتے ہوئے اپنے نام اور وقار کا کوئی خیال رکھنا چاہئے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔