سعودی شہری اپنے ملک میں روزگار کی خاطر قیام کرنے والے تیسری دنیا کے لوگوں کو بہت تنگ کرتے ہیں اور ذہنی اذیت دے کر مسرت حاصل کرتے ہیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 35
مصری باشندوں کا رویہ
زیادہ تر مصری باشندے عموماً بہت باتونی ہوتے ہیں۔ ان کا عمومی رویہ خوشامدانہ ہوتا ہے۔ اپنے افسروں کے منہ پر ان کی جھوٹی سچی تعریفیں کرکے ان کو چنے کے جھاڑ پر چڑھا دیتے ہیں اور اس طرح ان کے لئے خوشی اور انا کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ترقی کی سیڑھیاں بڑی تیزی سے پھلانگتے ہوئے اوپر چڑھ جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں کام کا معمول
سعودی عرب میں سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے زیادہ تر مصری باشندے دفتر شروع ہونے کے وقت سے کوئی ایک گھنٹہ بعد آتے ہیں۔ اگلا ایک گھنٹہ یہ لوگ چائے پیتے، اخبار پڑھتے اور ملکی اور عالمی سیاست پر تفصیلی بحث اور سیاسی تبصرے کرتے ہیں۔ پھر اگر طبیعت ذرا مائل ہو تو اگلے ایک دو گھنٹے کام بھی کر لیتے ہیں۔
ٹھیک 12 بجے وہ وضو کے بہانے اٹھ جاتے ہیں اور پھر ایک بہت ہی لمبی ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب وہ واپس آتے تو 1 بج چکا ہوتا تھا۔ دوستوں سے تھوڑی بہت الوداعی گفتگو کے بعد وہ گھر واپس کی تیاری شروع کر دیتے اور کوئی آدھا گھنٹہ پہلے ہی دفتر سے نکل جاتے۔ یہی حال شام کی شفٹ کا ہوتا تھا جس میں عموماً 2 نمازیں آ جاتی تھیں۔
انہوں نے انتہائی کامیابی سے زندگی گزارنے کے اپنے یہ گر مقامی سعودیوں کو بھی سکھا دیئے تھے۔ اس لئے کوئی بھی اس کا بُرا نہیں مناتا تھا اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ دیتے تھے، بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہی رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 8 گھنٹے کی شفٹ میں ان کا مکمل تخلیقی کام 3 یا 4 گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا۔
بدلتے وقت کے ساتھ مصر میں البتہ اب اس رویے میں کافی تبدیلی آگئی ہے اور ان کی نئی نسل کے نوجوان لوگ اب کافی یکسوئی اور محنت سے کام کرنے لگے ہیں۔
جسمانی صحت کے رجحانات
زیادہ تر مصری مرد و خواتین لمبے تڑنگے اور بے تحاشہ فربہ ہوتے ہیں۔ ان کی نوجوان لڑکیاں کسی حد تک اپنے آپ کو چاق و چوبند رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تاہم ازدواجی زندگی کے ابتدائی برسوں میں ہی وہ حوصلہ ہار جاتی ہیں اور یہ سب حدیں عبور کرکے اپنے حدود اربعہ کو وسیع عریض کر کے اپنا وزن بے تحاشہ بڑھا لیتی ہیں۔
سعودی عرب میں روزمرہ کا تجربہ
اس وقت بھی یہاں ایسے ہی صحت مند مرد و زن کے ریوڑ پھر رہے تھے۔ میں اپنی دھن میں فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا۔ ایک جگہ دیکھا کہ 2 سعودی باشندے اپنے روایتی لباس میں ملبوس ایک سٹال پر کھڑے جوس پی رہے تھے اور ہر آنے جانے والا راہگیر ان پر آوازے کستا ہوا آگے بڑھ جاتا تھا۔
خواتین بھی ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنی مخصوص چیخیں مارنا نہ بھولتی تھیں۔ یہ ان کی سعودیوں سے ناپسندیدگی کا ایک شریفانہ سا اظہار تھا، کیونکہ سعودی شہری اپنی منافقانہ اور غیر معمولی ظالمانہ فطرت کی بدولت اپنے ملک میں روزگار کی خاطر قیام کرنے والے تیسری دنیا کے لوگوں کو بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں اور انہیں ہر طرح کی ذہنی اذیت دے کر مسرت حاصل کرتے ہیں۔
جب وہ خود ان کے ممالک میں جاتے ہیں تو مقامی لوگوں کے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں اور لوگ لاشعوری طور پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمارے وطن میں بھی ہوتا ہے۔
نتیجہ
جب وہاں بہت جمگھٹا ہوگیا تو جوس والے نے ان کو دوکان کے اندر بلا کر بٹھا لیا اور مناسب وقت پر انہیں وہاں سے بھگا دیا۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے جو ان کے سامنے آتا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔