26ویں آئینی ترمیم کی منظوری، کس نے کیا کھویا کیا پایا؟
آئینی ترمیم کی منظوری کا پس منظر
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینیٹ اور قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری سے پارلیمانی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا ہے۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق لوگوں کے ذہن میں اس ترمیم کی منظوری کے بارے میں ایک سوال ابھرا ہے کہ اس سارے عمل میں کس نے کیا کھویا کیا پایا؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے بلال احمد نے ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیت لیا
پارلیمنٹ کی حیثیت کا بحال ہونا
اس کی منظوری سے پارلیمنٹ نے اپنا وہ اختیار اور وقار دوبارہ حاصل کر لیا ہے جو اس نے ماضی کے ایک چیف جسٹس کے دباؤ کے تحت 19ویں ترمیم کے تحت کھو دیا تھا۔ یہ میثاق جمہوریت کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ پارلیمنٹ کی بطور ادارہ کامیابی ہے۔ ججز کی تقرری میں اب پارلیمنٹ کا اختیار پوسٹ آفس کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی اجتماعی بصیرت کا مظہر ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں فضائی آلودگی کم نہ ہوئی، آلودہ ترین شہروں میں آج بھی دوسرا نمبر
بلاول بھٹو کی شuttle Diplomacy
فضل الرحمان کو قائل کرنے میں بلاول کی کامیاب شٹل ڈپلومیسی نے جے یو آئی کی اہمیت کو سٹریٹیجک بنا دیا۔ شہباز شریف نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کیا اور کئی تبدیلیوں کو تسلیم کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس رستم کیانی کا یہ فقرہ اس وقت بہت مشہور ہوا کہ صدر ایوب خان ملک میں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح ہیں جس طرف سے بھی جاؤ یہ نظر آتا ہے
پارلیمنٹ کی بالادستی
پی ٹی آئی کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت اور تحفظات کے ازالے کے باوجود ترمیم کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے، اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر ملک میں عمومی اتفاق پایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سکول وین حادثے میں 2 بچے جاں بحق ، وزیر اعلیٰ کا اظہار افسوس
نئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل
19ویں ترمیم کے نتیجے میں ججز کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار محض پوسٹ آفس کا رہ گیا تھا، جسے اب متوازن بنایا گیا ہے۔ اب 12 رکنی جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کرے گا، جس کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کھاد، بیج اور بجلی کی قیمتوں میں ابھی تک کمی نہیں آئی، لیگی رہنما سائرہ افضل تارڑ کھل کر بول پڑیں
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نمائندگی
کمیشن میں دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینیٹ شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نامزد وکیل بھی اس کے ممبر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ کے معروف مذہبی رہنما فتح اللہ گولن امریکہ میں انتقال کر گئے
چیف جسٹس کی تقرری کے معیارات
چیف جسٹس کی تقرری اب سینئر موسٹ جج کے بجائے تین سینئر ترین ججز میں سے کی جائے گی۔ اس کی سفارش بارہ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نمائندگی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ججوں کے ہاؤس رینٹ اور جوڈیشل الاؤنس میں اضافہ کردیا گیا
ماضی کے تجربات سے سبق
چیف جسٹس کی تقرری کو تین سال کی مدت تک محدود کرنے اور عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کا فیصلہ ماضی کے ناخوشگوار تجربات کی روشنی میں ایک صائب فیصلہ ہے۔ اس ترمیم کے بعد پارلیمنٹ کا کھویا ہوا وقار بحال ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پٹرول مہنگا کردیا
سیاست میں مو لا نا فضل الرحمان کا کردار
26ویں آئینی ترمیم کی کامیابی کا سہرا خاص طور پر چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے، جنہوں نے جے یو آئی کے امیر مو لا نا فضل الرحمان کو قائل کیا۔
پی ٹی آئی کے تحفظات کا ازالہ
پانچ ممبران سینیٹ اور آٹھ ممبران قومی اسمبلی کی قلیل تعداد کے باوجود ان کی سٹریٹجک اہمیت اسلئے بن گئی کہ ان کے تعاون کے بغیر دو تہائی اکثریت کا حصول ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرافٹ میں کئی تبدیلیاں کرائیں۔