ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے حوالے سے لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویزات میں کیا معلومات فراہم کی گئی ہیں؟
جمعے کو ایک ٹیلی گرام چینل نے ’مڈل ایسٹ سپیکٹیٹر‘ کے ذریعے کچھ مبینہ خفیہ امریکی دستاویزات شائع کی ہیں جن میں امریکہ کی جانب سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا۔ چینل کا دعویٰ ہے کہ یہ دستاویزات امریکی انٹیلیجنس سے وابستہ ایک اہلکار نے انھیں فراہم کی ہیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ خفیہ امریکی دستاویزات کیسے لیک ہوئیں۔
’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے مائیک جانسن نے کہا ہے کہ انھیں اس بارے میں بریفنگ دی گئی ہے جس کی تفصیلات وہ فی الحال شییر نہیں کر سکتے، تاہم انھوں نے تصدیق کی ہے کہ اس ضمن میں تحقیقات جاری ہیں۔
سی این این کے مطابق ایک اور نامعلوم امریکی اہلکار نے اُن سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِن دستاویزات کا لیک ہونا ’انتہائی پریشان کُن‘ ہے۔
اس سے قبل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے تین نامعلوم امریکی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکہ اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق واشنگٹن کے جائزے پر مبنی دو خفیہ دستاویزات کیسے لیک ہوئیں۔
ایک امریکی اہلکار نے اے پی کو بتایا کہ یہ دستاویزات اصلی معلوم ہوتی ہیں۔
ان دستاویزات پر ’ٹاپ سیکرٹ‘ لکھا ہے اور تاریخ 15 اور 16 اکتوبر درج ہے۔ مذکورہ ٹیلی گرام چینل تہران سے چلایا جا رہا ہے اور یہ ’مزاحمت کے محور‘ کی خبروں کو کور کرتا ہے۔ ماضی میں اس چینل نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے حوالے سے میمز بھی شائع کی تھیں۔
سیٹلائٹ امیجز کے ذریعے ایران پر حملہ کرنے کی اسرائیلی تیاریوں کے حوالے سے مرتب کردہ یہ جائزہ دستاویزات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل اب بھی اپنے فوجی ساز و سامان کو ایران پر حملے کے لیے نزدیکی اڈوں پر منتقل کر رہا ہے اور اس نے حال ہی میں ایک بڑی فوجی مشق بھی کی ہے۔
امریکی سپیس انٹیلیجنس ایجنسی اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے تیار کردہ یہ دستاویزات ’فائیو آئیز‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ ملکی انٹیلیجنس اتحاد کے ساتھ شئیر کی جانی تھیں۔
ٹیلی گرام کے بعد امریکی چینل سی این این نے بھی اس حوالے سے رپورٹ شائع کی۔
امریکہ تحقیقات کر رہا ہے کہ یہ دستاویزات کیسے لیک ہوئیں؟ کیا کسی نے جان بوجھ کر انھیں لیک کیا یا یہ دستاویزات ہیکنگ جیسے دیگر طریقوں سے حاصل کی گئیں۔
ایسے معاملات کی تفتیش عام طور پر امریکہ کی فیڈرل پولیس (ایف بی آئی)، وزارت دفاع اور دیگر سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تاہم ایف بی آئی نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پینٹاگون کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ وہ اِن دستاویزات کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے آگاہ ہے تاہم انھوں نے مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے بھی اے پی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے اور Uses in Urdu آزادانہ طور پر بھی ان لیک ہونے والی دستاویزات کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان دستاویزات میں سے ایک اس دستاویز سے ملتی جلتی ہے جو تقریباً سات ماہ قبل امریکی سپیس انٹیلیجنس ایجنسی کے ذریعے لیک ہوئی تھی اور امریکی ایئر نیشنل گارڈ کے ایک اہلکار نے اسے لیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ایران کے حالیہ میزائل حملے کے بعد اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ مناسب وقت پر اور اپنے ’قومی مفادات‘ کی بنیاد پر اس کا جواب دے گا۔
گذشتہ ہفتے واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ نتن یاہو ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات کے بجائے صرف فوجی مراکز کو نشانہ بنائیں گے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے بھی حال ہی میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی تو یہ ’باقاعدہ ہدف بنا کر کی جائے گی اور مہلک‘ ہو گی اور یہ بھی کہ ایران اس کا اندازہ نہیں لگا پائے گا۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایران پر کسی بھی حملے کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تہران اس کا مناسب جواب دے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ترکی کے این ٹی وی چینل کو بتایا کہ اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے میں صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’مگر اب ہم نے اسرائیل میں اپنے تمام اہداف کی نشاندہی کر لی ہے اور ان پر بھی ایسا ہی حملہ کیا جائے گا۔‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائل حملے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کا جواب تھے۔
ایران نے خلیجی عرب ریاستوں کو، جن میں سے بعض کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کو اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جو بھی ملک ایران پر حملہ کرنے میں اسرائیل کی مدد کرے گا اسے کسی بھی ایرانی ردعمل کا ہدف سمجھا جائے گا۔
یاد رہے حماس کے رہنما یحییٰ سنوار ہلاکت کے بعد امریکہ اسرائیل پر زور دے رہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی جانب بڑھے۔
امریکہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ لبنان کے شمال میں فوجی کارروائیوں کو مزید وسعت نہ دے اور وسیع تر علاقائی جنگ کا خطرہ مول نہ لے۔ تاہم اسرائیل کی قیادت نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے میزائل حملے کا جواب ضرور دے گا۔
برلن میں صحافیوں کے اس سوال کہ اسرائیل کب اور کیسے ایران کے میزائل حملوں کا جواب دے گا، امریکی صدر بائیڈن نے کہا ’ہاں‘ مگر انھوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔
Uses in Urdu کے نامہ نگار برائے سکیورٹی امور فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب میں چار ہفتوں سے بھی کم وقت بچا ہے اور ایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پر کسی بھی ایسے حملے کا خیرمقدم نہیں کرے گا جس کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے اور نہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں گھسیٹا جانا چاہے گا۔
یاد رہے ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائل داغے تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے زیادہ تر فضا میں ہی روک کر تباہ کر دیا گیا۔
اس سے قبل رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔