جے شنکر کا پاکستان دورہ: کیا یہ بی جے پی کی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے؟

انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر انڈین ائیرفورس کے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ راولپنڈی میں نور خان ایئربیس پر اُن کا استقبال پاکستانی حکام نے کیا ہے۔

جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اسلام آباد میں جاری دو روزہ اجلاس میں شرکت کریں گے تاہم پاکستان آمد سے قبل ہی وہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ اُن کے اِس دورے کے دوران دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر بات چیت نہیں ہو گی۔

ایس سی او اجلاس کا آغاز آج (15 اکتوبر) سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہو چکا ہے۔ دو روزہ یہ اجلاس 16 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو گا۔

گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں یہ کسی بھی انڈین وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے اور توقع تھی کہ شاید اس دورے کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری میں کمی واقع ہو گی۔

لیکن پھر گذشتہ ہفتے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں وہاں انڈیا، پاکستان تعلقات پر بات چیت کرنے نہیں جا رہا۔ میں وہاں ایس سی او کے اچھے رکن کے طور پر جا رہا ہوں۔‘

گذشتہ ہفتے پاکستانی وزیرِ دفاع انڈین وفد اور وزیرِ خارجہ جےشنکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’ہم تو بین الاقوامی فورمز پر آمنا سامنا ہو جائے تو اس چیز سے بھی گریز کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا پڑے۔‘

خیال رہے اس سے قبل 2015 میں اُس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔

سشما سوراج کے اس دورے کے کچھ ہی دنوں بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کے دورے سے واپسی پر افغانستان کے راستے انڈیا آتے ہوئے اچانک لاہور کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی اس وقت کے پاکستانی وزیرا‏عظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی۔

اس کے بعد 2016 میں اس وقت کے انڈین وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سارک کے اجلاس کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

لیکن پٹھان کوٹ میں انڈین فضائی اڈے پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے گئے اور پھر سنہ 2019 میں دونوں ممالک ایک باقاعدہ جنگ کے اس وقت قریب آئے جب کشمیر کے آسمانوں پر انڈیا اور پاکستان کے جنگی جہازوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپ ہوئی۔

ہم اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بہتر تعلقات اور مذاکرات میں حائل ہیں اور نئی دہلی میں بی جے پی نے پاکستان سے متعلق کسی بھی قسم کی بات چیت نہ کرنے کا سخت مؤقف کیوں اپنا رکھا ہے؟

پاکستان اور انڈیا برسوں سے ایک دوسرے پر دہشتگردی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بھی انڈیا کی جانب سے پاکستان میں اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں دراندازی اور دہشتگردی کو ہوا دینے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت نہ صرف بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کرتا ہے بلکہ حالیہ دنوں میں اس کے خفیہ ادارے پاکستان میں 'سابق کشمیری عسکریت پسند' شخصیات کے قتل میں بھی ملوث رہے ہیں۔ دونوں ممالک اس الزام کی بارہا تردید کر چکے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے جب اگست 2019 میں بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے کشمیر کی خودمختار ریاست کی حیثیت کو ختم کردیا۔ پاکستان نے اس کے بعد مؤقف اپنایا کہ بھارت سے مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کر دیا جاتا۔

انڈیا پاکستان سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتا؟

انڈیا پاکستان سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتا؟

جنوبی ایشیا کے خطے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے ملک میں پاکستان مخالف ماحول سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور یہ کہ بین الاقوامی برادری میں بھارت اب اتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ شاید اسے پاکستان سے مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔

اسلام آباد میں انڈیا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے Uses in Urdu کو بتایا کہ فروری 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ 'کم سے کم بات چیت کی پالیسی' اپنائی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر خرم عباس کے مطابق قیدیوں کے تبادلے، سندھ طاس معاہدے یا لائن آف کنٹرول سے جڑے معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اب بھی بات چیت جاری ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے تعلقات کے حوالے سے 'بے لچک رویہ' اپنایا ہوا ہے اور 'نامنظور کردہ شرائط' رکھ دی ہیں۔

ان کے مطابق 'بھارت کہتا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشتگری کو ختم کیا جائے، اس کے بعد ہم دو طرفہ تعلقات پر بات کرنے کو تیار ہیں۔'

'دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے بحال نہیں کر دیتا، تب تک ہم ان کے ساتھ تجارتی یا سفارتی تعلقات بھی آگے نہیں بڑھائیں گے۔'

نیو یارک میں واقع سکڈمور کالج سے وابستہ پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر یلینا بائبرمین کا خیال اس بارے میں مزید مختلف ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 'شریف خاندان بھارت کے ساتھ مضبوط کاروباری اور وسیع قومی معاملات پر تعلقات چاہے گا۔ موجودہ پاکستانی حکومت یہی چاہے گی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں۔ لیکن بھارت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کام تھوڑا مشکل ہے۔'

یلینا بائبرمین کے مطابق بی جے پی کی حکومت تواتر سے پاکستان کو یہ بتاتی آ رہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک 'پاکستان سرحد پار سے دہشتگردی بند نہیں کر دیتا۔'

’اس کے علاوہ بی جے پی اپنے ملک میں پاکستان مخالف ماحول سے فائدہ اٹھاتی ہے کیونکہ وہاں اس برس انتخابات بھی تھے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر مریم نواز کا بیان

جے شنکر کی آمد سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟

جے شنکر کی آمد سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں دونوں ممالک کے سیاسی ماحول کا مشاہدہ کرنے والے تجزیہ کار تقسیم نظر آتے ہیں۔

انڈین وزیرِ خارجہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایس سی او کے اجلاس کے دوران اسلام آباد میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات پر بات نہیں کریں گے۔

لیکن پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف مہمان وفود کے سربراہوں سے دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے۔

اس بیان میں خاص طور پر انڈین وزیرِ خارجہ سے ملاقات کا تو ذکر نہیں لیکن ایسے اجلاسوں میں کم از کم دو ممالک کے حکام کے درمیان مصافحہ عام سی بات ہے۔

انڈیا کے اپنے وزیرِ خارجہ کو پاکستان بھیجنے کے فیصلے پر انڈین خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ (را) کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے Uses in Urdu کے سوالات کے جواب میں مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’ایک اچھی شروعات ہے، بال اب آپ (پاکستان) کے کورٹ میں ہے کہ آپ اسے دو طرفہ (تعلقات کی بنیاد) بنائیں۔‘

ماضی میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ میں خدمات سرانجام دینے والی صفیہ غوری احمد نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’وزیرِ خارجہ جے شنکر کا دورہ پاکستان یہ پیغام ہے کہ انڈین حکومت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔‘

’ایس سی او اجلاس کے دوران متوقع طور پر ایسے بہت سے مواقع نکلیں گے جہاں دو ممالک کے درمیان خاموشی سے مذاکرات یا غیر رسمی بات چیت ہو سکے۔‘

صفیہ غوری احمد مزید کہتی ہیں کہ ’دونوں ممالک کو سب سے پہلے اعتماد کو بحال کرنے اور خطے کی سکیورٹی کے معاملات پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے لیے اقتصادی اور تجارتی مواقع پیدا کیے جا سکیں۔‘

اٹلانٹک کونسل سے منسلک ’دا بیٹل فور پاکستان‘ کے مصنف شجاع نواز بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ انڈیا اور پاکستان اگر اپنے اقتصادی اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیں تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دو ہمسایوں کے خراب تعلقات کے سبب ترقی کے بہت سے مواقع ضائع ہو رہے ہیں اور ’اسی لیے خطے میں ایک نئے اقتصادی معاہدے کی ضرورت ہے۔‘

شجاع نواز کے مطابق ’انڈیا کو اپنے مؤقف میں تبدیلی لا کر سارک ممالک کی تنظیم کو مضبوط کرنا ہوگا اور ایران، افغانستان اور دیگر وسطی ایشیا کے ممالک کو شامل کرکے جنوبی ایشیا میں ایک مشترکہ منڈی بنانے میں مدد دینے ہوگی۔‘

’مقصد یہ ہونا چاہیے کہ انڈیا کی نئی بین الاقوامی پوزیشن کو استعمال کیا جائے اور ایران اور افغانستان کو بھی عالمی معیشت کا حصہ بنا کر خطے میں تنازعات ختم کیے جائیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا شمال اور شمال مغربی دنیا سے تجارت اور ’کلین ہائیڈروجن بیسڈ انرجی‘ کے ذریعے بیش بہا فائدے اُٹھا سکتے ہیں۔

’سرحد پار مہم جوئی کا وقت اب ختم ہونا چاہیے۔‘

’زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے‘

’زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے‘

سکڈمود کالج سے وابستہ یلینا بائبرمین کہتی ہیں کہ ’امکان یہی ہے کہ جے شنکر (ایس سی او کے دورے کے دوران) ایسا تبصرے کریں گے کہ جب تک کشمیر میں پاکستان پراکسیز کے ذریعے دراندازی بند نہیں کرے گا اور دہشتگردی بند نہیں ہوگی اس وقت تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اس دورے سے زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے اور ایس سی او کے دوران کسی بھی دوطرفہ ملاقات کا امکان نہیں ہے۔‘

انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس کا ماننا ہے کہ ’جے شنکر کا اپنا اندازِ گفتگو پاکستان کے معاملے پر بہت جارحانہ ہے اور وہ خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اسلام آباد دو طرفہ تعلقات پر بات کرنے نہیں جا رہے۔‘

وہ مزید عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی معیشت مضبوط ہوئی ہے، انڈیا کے تعلقات مغربی ممالک کے ساتھ یا بڑی طاقتوں کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں اور وہ دنیا کے لیے سٹریٹجک اعتبار سے اہم ہیں۔‘

’انڈیا محسوس کرتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اگر تعلقات ٹھیک نہ بھی ہوں تو اس کی بین الاقوامی طور پر یا خطے میں جو حیثیت ہے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

تاہم امریکہ میں واقع یونیورسٹی آف البنی سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری کا پاکستان اور انڈیا دونوں کو مشورہ ہے کہ وہ تعلقات کو بہتر کریں تاکہ دیگر چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔

انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’انڈیا کو چین کے ساتھ متنازع سرحد پر مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان کو ملک کے اندر پریشانیاں درپیش ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات دونوں کی ہی توجہ بڑے چیلنجز سے ہٹانے کا باعث بن رہے ہیں۔‘

’مجھے امید ہے کہ صرف اسی وجہ کے سبب دونوں ممالک معنی خیز سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی راہ نکال لیں گے۔‘

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...