سلطنت فارس کی 2500 سالہ تاریخ اور ایران کی آخری ملکہ کی سالگرہ کے موقع پر یحییٰ خان کی بے چینی
14 اکتوبر 1971 کو منائی جانے والی شاہِ ایران محمد رضا پہلوی کی اہلیہ فرح پہلوی کی سالگرہ سلطنتِ فارس کے قیام کے 2500 سالہ جشن کی آخری بڑی تقریب تھی۔
شاہ نے اپنی اہلیہ کی سالگرہ کی اس تقریب کا اہتمام سلطنت فارس کے پہلے بادشاہ سائرس اول کے مقبرے کے قریب ’پرسیپولیس‘ کے مقام پر کر رکھا تھا۔
ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہنے والی تقریب کے اختتام پر دیگر شاہی مہمانوں کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے صدرِ پاکستان یحییٰ خان بھی واپسی کے لیے اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب محمد رضا پہلوی کو اقتدار میں آئے 18 سال ہو چکے تھے اور وہ ایران کو جدید بنانے کے اقدامات کر رہے تھے۔ لیکن تاریخ دان جوش ویسٹ کے مطابق اُس دور میں بھی ’شہری آزادیاں نہیں تھیں۔‘
جوش ویسٹ کے مطابق '1971 تک ایران میں سیاسی قیدیوں اور پھانسیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہو چکی تھی۔ آدھی سے زیادہ آبادی غریب تھی۔ شہروں میں بنیادی انفراسٹرکچر اور دیہی علاقوں میں پانی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات تک کا فقدان تھا۔ لیکن شاہ خود کو ’نیا سائرس‘ ظاہر کرنا چاہتے تھے۔
اس جشن کا مقصد ایرانی تاریخ، طرز اور ثقافت کی نمائش تھا لیکن ایرانی کاریگروں کی بجائے شاہ نے ’عالمی معیار کے‘ کاریگروں کی خدمات لینے پر اصرار کیا۔
فرح پہلوی نے اپنی یادداشتوں میں اس پر اپنی ناگواری کا اظہار بھی کیا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ ’یہ میرے ایرانی ذوقِ سلیم کے خلاف تھا کہ غیر ملکی سپلائرز سے معاہدہ کیے گئے جبکہ ہم بعض جگہوں پر ایرانیوں کی خدمات لے سکتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یورپی مہارت کا استعمال ہی ضروری ہے۔‘
’پیرس کی کمپنیوں نے 18 ملین ڈالر کمائے‘
جوش ویسٹ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’تین روزہ جشن کے لیے شاہ نے صحرا کے بیچ میں ایک نخلستان تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ 15 ہزار درخت اور 15 ہزار پھولوں کے پودے یورپ بھر سے درآمد کیے گئے۔ ایران کا باقی حصہ شدید خشک سالی کا شکار تھا لیکن اس جگہ ڈھیروں گیلن پانی استعمال ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ ورسائی کے باغبان کو گلابوں کا ایک خوشبودار باغ بنانے کا کام سونپا گیا۔‘
’مہمانوں کو ڈنک یا کاٹنے سے بچانے کے لیے 30 کلومیٹر کے علاقے میں موجود ہزاروں بچھوؤں اور سانپوں کو یا تو پکڑا گیا یا جہاز سے زہریلی دوا چھڑک کر ختم کر دیا گیا۔ اُن کی جگہ یورپ سے 20 ہزار ہسپانوی چڑیوں سمیت 50 ہزار گانے والے پرندے درآمد کیے گئے۔ لیکن اُن میں سے بہت سے ایرانی صحرا کے شدید درجہ حرارت میں مر گئے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’خوراک کی اشیا اور سامان کو ایرانی صحرا کے وسط تک پہنچانے کے لیے شیراز میں ایک پورا ہوائی اڈا اور پھر اسے پرسیپولیس سے ملانے والی 100 کلومیٹر سڑک بنائی گئی جس پر ہر چند میٹر کے فاصلے پر چیک پوائنٹس تھے۔ سڑک کے ساتھ وزارت زراعت نے دیودار کے درخت لگائے اور تیل کمپنی نے مشعلیں جلائیں۔‘
مہمانوں میں 18 ممالک کے صدور، آٹھ بادشاہ اور ایک شہنشاہ شامل تھے۔ مرسڈیز بینز کی 250 بلٹ پروف لیموزین کے بیڑے میں انھیں پرسیپولیس لے جایا گیا۔
ایرانی فضائیہ کے 100 طیاروں کو 18 ٹن سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا کی نقل و حمل میں چھ ماہ لگے۔
فلپائن کے صحافی اور مصنف مائلز اے گارسیا اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ تقریبات کی لاجسٹکس پیرس کے لگژری ریٹیلرز (خوردہ فروشوں) کے ذمے تھیں۔ ’پچاس سے زیادہ خیمے میسن جینسن نے ڈیزائن اور لینوِن نے تعمیر کیے۔‘
جوش ویسٹ کے مطابق ’پیرس کے باہر ایک ہوائی پٹی پر یہ خیمے بنانے میں سینکڑوں فرانسیسی ڈیزائنرز اور بلڈرز کو ایک سال کا عرصہ لگا۔ ہر ایک مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ تھا اور اس میں دو بیڈروم، دو باتھ روم، ایک لاؤنج، ایک کچن اور پورا عملہ تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ یہ خیمے پرسیپولس میں ایک مرکزی چشمے سے نکلنے والے پانچ راستوں (جو پانچ براعظموں کی نمائندگی کرتے ہیں) پر ترتیب دیے گئے تھے۔ ایک ’ٹینٹ آف آنر‘ میں شاہ اور شاہ بانو (فرح پہلوی) کو اپنے مہمانوں کا استقبال کرنا تھا۔
ضیافت کا خیمہ سب سے بڑا تھا اور ایک مکمل 18 ہول والا گولف کورس بھی موجود تھا۔ ایک خیمے میں 16 ہیئر سیلون اور چار بیوٹی پارلر تھے (جن میں پیرس کے کاریتا اور الیگزاندرے سٹائلسٹ شامل تھے) جبکہ دوسرے میں ایک بار، کیبرے سویٹ، اور یہاں تک کہ جوئے کا خفیہ کمرہ بھی تھا۔
’کھانا میکسم نے فراہم کیا۔ یہ ریستوران دو ہفتوں کے لیے بند رہا کیونکہ انھوں نے اپنے 165 شیف ایران بھیج دیے تھے۔ تمام تولیے اور کپڑے ڈی پورٹھالٹ کے تھے۔۔۔ یوں پیرس کی مختلف فرموں نے تقریباً 18 ملین ڈالر کمائے۔‘
یہ بھی پڑھیں: تبت کی حیرت انگیز کہانی: ایک شاہزادی کے عشق میں تین دوستوں کا سفر
یحیی خان کی ’بے چینی‘، شاہی مہمانوں نے منھ پھیر لیا
اِن تقریبات کا آغاز 12 اکتوبر کو سائرس اول کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ اُن ہی کے مقبرے پر ہوا۔ فرح پہلوی اور ولی عہد شہزادہ رضا کے ہمراہ، شاہ نے اپنے عظیم پیش رو کو گواہ بنا کر پُرجوش تقریر کی۔ انھوں نے سائرس کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آرام کرو، کیونکہ ہم جاگ رہے ہیں اور ہم ہمیشہ جاگتے رہیں گے۔‘
اس دوپہر اور اگلے دو دنوں تک شاہ کے مہمان آتے رہے۔
14 اکتوبر کی شام فرح پہلوی کی سالگرہ مناتے ہوئے، شاہ ایران نے بڑے خیمے میں جدید تاریخ کے سب سے شاندار عشائیے کی میزبانی کی۔ سانپ کی شکل میں میز 70 میٹر لمبی تھی اور اُس کے بچھے دسترخوان پر 150 خواتین کو کڑھائی کرنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگا تھا۔
ضیافت کے بعد، مہمان پرسیپولس کے کھنڈرات جانے کے لیے کھڑے تھے جہاں روشنی اور ساؤنڈ کا شاندار شو منعقد ہونا تھا۔
مختار مسعود اپنی کتاب ’لوح ایام‘ میں اس موقع پر موجود بحریہ کے ایک افسر کی زبانی بتاتے ہیں کہ شب بھر کی بلانوشی (شراب پینے) کے بعد ضیافت ختم ہوئی۔
’صدر پاکستان (یحییٰ خان ) دروازے پر مہمانوں کے ہجوم میں جیب میں ہاتھ ڈالے اپنی موٹر کار کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ جب انھیں اندازہ ہوا کہ موٹروں کی قطار بہت طویل اور رفتار بہت سُست ہے اور انھیں دیر تک انتظار کرنا ہو گا تو وہ پریشان ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔‘
مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ’اِدھر روشنی اُدھر بھی روشنی۔ اِدھر کیمرے کی آنکھ، اُدھر مہمانوں کی نظریں۔ شامیانے کے مرکزی دروازے کے ساتھ گھاس کا ذرا سا قطعہ ہے جس میں پام کے چھوٹے چھوٹے پودے لگے ہوئے ہیں اور ہر ایک کے پیچھے حفاظتی عملے کا رکن چھپا ہوا۔‘
’یحییٰ خان کو داد دینی چاہیے۔ اُن کا مثانہ لاکھ کمزور سہی مگر اُن کے اعصاب بڑے مضبوط تھے۔ جونہی بات برداشت کی حد تک پہنچی اور اسے پار کرنا چاہا وہ بڑے وقار اور سکون کے ساتھ ٹہلتے ہوئے گھاس کے قطعے میں داخل ہوئے۔‘
مختار مسعود کے مطابق ’ایک پام کی طرف منھ کر کے پتلون کے بٹن کھولے اور اس کی آبیاری میں مصروف ہو گئے۔ ایسی آبپاشی سے سوائے نہال غم اور کون سا پودا ہے جو سرسبز ہو سکتا ہے۔ ہکا بکا شاہی مہمانوں نے منھ پھیر لیا۔ پاکستانی عملے پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اور یہ پانی ناصاف اور ناپاک تھا۔‘
لیکن ایسا واقعہ صرف ایک نہیں تھا۔
مختار مسعود لکھتے ہیں کہ استقبالیے میں صدر یحییٰ خاں اور مناکو کی شہزادی گریس ایک ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’شہزادی صاحبہ کا لباس اوپر سے کھلا تھا۔ شانہ نظر آتا تھا۔ صدر یحییٰ نے کاندھے پر ہاتھ پھیر کر دیکھنا چاہا کہ ہالی وڈ کی سابق فلم سٹار گریس کیلی کی جلد واقعی اتنی شفاف اور ملائم ہے جتنی نظر آتی ہے یا نشے کی وجہ سے ان کی آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: آج جمعہ کو موسم کیسا رہے گا؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا
یحییٰ خان اور سوویت یونین کے صدر کے درمیان تناؤ
مختار مسعود کے مطابق جب یہاں جشن منایا گیا تھا تو اُن دنوں خزاں کا موسم تھا۔
’اُس سال پاکستان میں خزاں بڑے زوروں پر تھی۔ آدھا چمن (مشرقی پاکستان) جل کر خاک ہو گیا۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرجناب یحییٰ خان کی پیشانی پر بل تک نہیں پڑا۔ وہ تاریخ کی طرف پشت کیے کھڑے بلکہ لیٹے رہے۔‘
مختار مسعود لکھتے ہیں ’ان کے یہاں ہر روز روزِ عید تھا اور ہر شب شبِ برات۔ وہ اس خیمہ بستی میں جو شہرت چھوڑ گئے اسے یاد کر کے وحشت ہوتی ہے۔‘
پھر انڈیا کے صدر وی گِری اس تقریب میں شامل ہوئے جبکہ وزیر اعظم اندرگاندھی عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے سوویت یونین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، بیلجیم اور امریکہ کے دورے کر رہی تھیں۔
مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ’یہاں کئی ایسے سربراہان ریاست و حکومت موجود تھے جو مشرقی پاکستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں صدر پاکستان کو مشورہ دینا چاہتے تھے۔‘
سردار محمد چودھری اپنی کتاب ’دی الٹیمیٹ کرائم‘ میں کہتے ہیں کہ اپنے ایک خط میں سوویت یونین کے صدر پودگارنی نے یحییٰ خان پر مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر زور دیا تھا، لیکن انھوں نے اسے سننے سے انکار کر دیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’پرسیپولس میں یحییٰ نے پودگارنی کے پیٹ میں اپنی چھڑی چبھوتے ہوئے کہا ’صدر صاحب آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے یہ خط لکھنے کی؟‘
بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’فارن پالیسی ان پرسپیکٹیو‘ میں لکھا ہے کہ پرسیپولیس میں پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے جہاں جنرل یحییٰ خان اور سوویت یونین کے صدر پودگارنی کے درمیان گرما گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا۔
مختار مسعود کے مطابق ’صدر یحییٰ خاں کی حالت بالکل غیر تھی۔۔۔ میزبان نے بات کرنا چاہی تو اسے جھڑک دیا۔ روس کے صدر پودگارنی نے دھمکی دی تو اسے پی گئے۔ یوگوسلاویہ کے صدر اور غیر وابستہ اقوام کے رئیس سے ملاقات کے لیے وقت پر لباس پہن کر تیار نہ ہو سکے۔۔۔‘
ایران میں ’صدی کا سب سے بڑا اجتماع‘ مگر ’بادشاہت کا خاتمہ‘
15 اکتوبر 1971 کو 2500 سال کی فارسی تاریخ پیش کرتی پریڈ ہوئی۔ 16 اکتوبر کو بہت سے مہمان واپس لوٹ گئے، جو باقی رہ گئے انھیں مزید تین دن کی تقریبات کے لیے تہران لے جایا گیا۔
تاریخ دان جوش ویسٹ کے مطابق بین الاقوامی وقار کے لحاظ سے اس پارٹی سے یقینی طور پر وہ سب حاصل ہوا جس کی شاہ کی خواہش تھی۔ دنیا یقیناً متاثر ہوئی۔ ٹائم میگزین نے اسے ’صدی کا سب سے بڑا اجتماع‘ قرار دیا۔
وہ لکھتے ہیں ’لیکن ایرانی عوام جن کی رائے واقعی اہمیت رکھتی تھی، ناراض بلکہ مشتعل تھے۔ ایک مسلمان عالم روح اللہ خمینی، جو اس وقت عراق میں جلاوطن تھے، نے اسے ’شیطان کا تہوار‘ اور شاہ کے بہت سے ’شرمناک تہواروں میں سے سب سے زیادہ تباہ کُن‘ قرار دیا۔‘
تقریبات کی کل لاگت کے مختلف اندازے لگائے گئے۔
وہ لکھتے ہیں ’ٹائم میگزین نے اسے 100 ملین ڈالر (آج 635 ملین ڈالر) لکھا، لی فگارو نے اسے دوگنا کر کے 200 ملین ڈالر (آج 1.2 ارب ڈالر) کر دیا، جب کہ ایرانی پریس نے دلیل دی کہ اس کی لاگت 500 ملین ڈالر (آج 3 ارب ڈالر) سے کم نہیں تھی۔ شاہ نے سرکاری اعداد و شمار صرف 16.8 ملین ڈالر (آج 112 ملین ڈالر) بتائے، اور دلیل دی کہ مہمانوں کے عطیات سے 3200 دیہی سکول بنائے گئے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مالیاتی قیمت کچھ بھی ہو، شاہ کو اس پارٹی کی جو حقیقی قیمت ادا کرنا پڑی وہ ان کا تاج تھا۔‘
جوش ویسٹ لکھتے ہیں ’13 ماہ کی تیاری کے دوران جشن کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں اور طلبہ رہنماؤں کو ’حفاظتی تحویل‘ میں رکھا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں اُن کے خلاف متحد ہو گئیں اور وہ اپنی تمام عوامی ساکھ کھو بیٹھے۔ عوام کی ناراضی اتنی زیادہ تھی کہ 1974 میں شاہ نے پارٹی اور ماضی کی غلطیوں کے لیے معافی مانگی۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ 1970 کی دہائی کے اواخر کے عوامی مظاہروں نے انقلاب کی شکل اختیار کی۔ فروری 1979 میں خمینی کی حامی قوتوں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اسلامی جمہوریہ قائم کیا جس کے سپریم لیڈر خمینی تھے۔ شاہ کی وفات اگلے سال مصر میں جلاوطنی کاٹتے ہوئے ہوئی۔‘
مختار مسعود ایران، پاکستان، ترکی کی علاقائی تعاون کی تنظیم آرسی ڈی کے ایک افسر کے طور پر ایران میں تھے۔ جشن کے کچھ سال بعد پرسیپولس کے دورے کے بعد انھوں نے لکھا: ’نوعیت، مہمان داری اور اخراجات کے اعتبار سے یہ جشن شاہانہ تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں ’ریاست اور حکومت کے سربراہان کی رہائش کے لیے بسائی گئی خیمہ بستی ایک مہنگا اور بے نتیجہ شاہکار تھی، صرف تین دن کے استعمال کے بعد بیکار اور بے مصرف ہو گئی۔‘
’سائرس ایران کا پہلا بادشاہ تھا اور رضا شاہ آخری شہنشاہ۔ جس دن ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، میں اس روز وہاں موجود تھا۔‘