امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی دوڑ میں کون آگے ہے؟
امریکہ کا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے امریکی ووٹر رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹ دیں گے۔
ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب 2020 کے صدارتی انتخاب کا ’ری میچ‘ لگ رہے تھے، تاہم جولائی میں صورت حال میں تبدیلی آئی جب صدر جو بائیڈن نے اس دوڑ سے دستبردار ہوتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟
جیسے جیسے ووٹنگ کا دن قریب آ رہا ہے، ہم انتخابی جائزوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وائٹ ہاؤس تک رسائی کی دوڑ میں انتخابی مہم کے اثرات کیا ہیں۔
قومی سطح پر رائے عامہ کے جائزوں میں کسے برتری حاصل ہے؟
صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے روز تک رائے عامہ کے تمام جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آ رہے تھے اور جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کے جائزوں میں بھی کہا گیا کہ کملا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہو گی۔
لیکن کملا ہیرس کی انتخابی مہم کے آغاز کے بعد امریکہ کی صدرات کی دوڑ سخت ہو گئی اور انھوں نے قومی سطح کے رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے حریف پر معمولی برتری بھی حاصل کی، جسے وہ تاحال برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔
نیچے امریکہ بھر میں رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر اکتوبر کے تیسرے ہفتے تک دونوں امیدواروں کی مقبولیت کی شرح دی گئی ہے۔
10 ستمبر کو کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی مباحثے میں سامنے آئے، جسے چھ کروڑ 70 لاکھ افراد نے دیکھا۔
اس ہفتے میں قومی سطح پر لیے گئے رائے عامہ کے جائزوں میں کملا ہیرس کی اپنے حریف پر معمولی برتری سامنے آئی تھی اور ان کی برتری 2.5 فیصد سے بڑھ کر 3.3 فیصد تک پہنچ گئی تھی، تاہم یہ فرق کملا کی مقبولیت میں اضافے سے زیادہ ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی کا نتیجہ تھا۔
نیچے دیے گئے پول ٹریکر چارٹ میں ٹرینڈ لائنز ظاہر کرتی ہیں کہ کملا ہیرس کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد امیدواروں کی مقبولیت کی شرح میں کیسے تبدیلی آئی۔
اگرچہ یہ رائے عامہ کے جائزے اور پولز اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ کون سا صدارتی امیدوار ملک بھر میں کتنا مقبول ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انتخابات کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے کا یہ ایک درست طریقہ ہو۔
اس کی وجہ امریکہ میں الیکٹورل کالج کے نظام کا استعمال ہے جس میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے ووٹ دیے جاتے ہیں۔ ان الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے اور فتح کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں لیکن چونکہ ان میں سے بیشتر ہر مرتبہ ایک ہی جماعت کو ووٹ دیتی رہی ہیں، ایسی چند ہی ریاستیں ہیں جہاں صدارتی امیدواروں کی جانب سے اپ سیٹ کی امید کی جاتی ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ملک کے صدر بننے کے خواہشمند امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں اور انھیں 'بیٹل گراؤنڈ' ریاستیں کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان نے یوٹرن لیا، لطیف کھوسہ
'سوئنگ سٹیٹس' میں کسے برتری حاصل ہے؟
امریکہ میں سات ریاستیں ایسی ہیں جنھیں 'سوئنگ سٹیٹس' کہا جاتا ہے یعنی یہاں صدارتی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور یہاں سے سامنے آنے والے جائزوں اور پولز کے نتائج کافی مسابقانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان سات ریاستوں میں کون آگے ہے اور کسے برتری حاصل ہے۔
قومی جائزوں کے مقابلے میں ریاستی سطح پر کم پولز ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کم ڈیٹا ہوتا ہے کہ کون آگے ہے، کیونکہ ہر پول میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں جسے 'مارجن اف ایرر' کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تعداد زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔
ابھی جو صورتحال ہے اور حالیہ سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سات ریاستوں میں چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقبولیت کا فرق انتہائی حد تک کم ہے (یعنی کوئی واضح طور پر آگے نہیں ہے)۔ اس میں کلیدی اہمیت کی حامل ریاست پنسلوینیا بھی شامل ہے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ انتخابی ووٹ ہیں اور اس ریاست میں کامیابی کے ذریعے فتح کے لیے درکار 270 ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
ایریزونا، جارجیا اور شمالی کیرولائنا میں اگست کے آغاز سے لے کر اب تک کئی بار برتری لینے والا امیدوار بدلا ہے لیکن ٹرمپ کو اب چند ہفتوں سے معمولی برتری حاصل ہے۔ نیوادا میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے لیکن یہاں یہ برتری کملا ہیرس کو حاصل ہے۔
تین دیگر ریاستوں - مشی گن، پنسلوینیا اور وسکونسن میں - ہیرس اگست کے آغاز سے، دو یا تین پوائنٹس کی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں انتخابی جائزوں میں مقابلہ سخت ہو گیا ہے اور اب ٹرمپ کو پنسلوینیا میں معمولی برتری حاصل ہے۔
پنسلوینیا، مشی گن اور وسکونسن یہ سبھی ریاستیں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ رہی ہیں لیکن ٹرمپ نے سنہ 2016 میں انھیں سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا یعنی یہاں سے ریپبلکنز کو فتح ملی تھی۔ بائیڈن نے انھیں 2020 میں دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔
کملا اگر ان تینوں ریاستوں کو اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہتی ہیں تو ان کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ہیرس کے ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بعد سے دوڑ کا رُخ ایک طرح سے بدل گیا ہے اور اس کا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ جس دن جو بائیڈن نے صدارتی دوڑ سے دستبرداری اختیار کی تھی تو وہ اُن سات ریاستوں میں اوسطاً ٹرمپ سے تقریباً پانچ اوسط پوائنٹس سے پیچھے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک تلخ حقیقت کا سامنا: بیوی اور بیٹیوں کے لیے پچھتاوا کرنے والے شخص کی داستان
یہ اوسط کیسے نکالی جاتی ہے؟
ہم نے اوپر گرافکس میں جو اعداد و شمار استعمال کیے ہیں وہ پولنگ تجزیہ ویب سائٹ 538 کے ذریعے تیار کی گئی اوسط پر مبنی ہیں۔ یہ ویب سائٹ امریکی نیوز نیٹ ورک اے بی سی نیوز کا حصہ ہے۔ اس اوسط کو قومی سطح پر ہونے والے انفرادی پولز اور کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں میں ہونے والے جائزوں کی بنیاد پر نکالا جاتا ہے۔ یہ جائزے اور پولز پولنگ کمپنیوں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں۔
معیار کو برقرار رکھنے کے لیے صرف اُن کمپنیوں کے پولز کو دیکھا جاتا ہے جو ایک مخصوص معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ اس معیار میں شفافیت، سیمپل سائز وغیرہ سمیت اس بات کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا پول یا جائزہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے کیا گیا، ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے یا آن لائن۔
کیا ہم اِن پولز پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
اس وقت قومی جائزے اور پولز یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے سے چند پوائنٹس کے فرق پر موجود ہیں اور جب فرق اتنا کم ہو تو فاتح کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
اس سے قبل 2016 اور 2020 کے پولز میں ٹرمپ کی حمایت کو کم سمجھا گیا تھا تاہم جب نتائج سامنے آئے تو ایک انتخاب میں انھیں جیت ہوئی تھی جبکہ دوسرے میں شکست۔ ایسے میں پول کروانے والی کمپنیاں اس مسئلے کو متعدد طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس ضمن میں ایڈجسٹمنٹس کو درست کرنا مشکل ہے اور پول کروانے والی کمپنیاں اِس بابت عالمانہ اندازہ لگاتی ہیں کہ جائزے میں حصہ لینے والے افراد میں سے کون پانچ نومبر کو حقیقتاً ووٹ دینے نکلیں گے۔