شعلے سے برفی تک: بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کے الزامات کا سبب کیا ہے؟
’یہ دو ایسے اشخاص ہیں جنھیں ساری دنیا سلام کرتی ہے لیکن انھوں نے اپنی ساری زندگی نقل (کاپی) کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سلیم جاوید کاپی رائٹرز ہیں، وہ اصلی تخلیق کار نہیں۔‘
یہ الفاظ مصنف امت آرین کے ہیں جو انھوں نے بالی وڈ کے دو مشہور سکرپٹ رائٹرز سلیم خان اور جاوید اختر کے بارے میں حال ہی میں کہے ہیں۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے انڈین سنیما کو ’زنجیر‘، ’دیوار‘، ’شعلے‘، ’ترشول‘، ’ڈان‘، ’کرانتی‘، ’شکتی‘ اور ’مسٹر انڈیا‘ سمیت درجنوں سپر ہٹ فلمیں دی ہیں۔
جبکہ یہ الزام عائد کرنے والے امت آرین نے ’ایف آئی آر‘، ’اے بی سی ڈی‘، ’یہ اُن دنوں کی بات ہے‘، ’لاپتاگنج‘ اور ’ڈو ناٹ ڈسٹرب‘ جیسی فلمیں لکھی ہیں۔
امت آرین نے مزید دعویٰ کیا کہ اُن کی لکھی فلم ’شعلے‘ راج کھوسلہ کی فلم ’میرا گاؤں میرا دیش‘ کا چربہ ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی فلم ’شعلے‘ پر الزامات لگ چکے ہیں کہ یہ سرجیو لیون کی فلم ’ونس اپان اے ٹائم ان دی ویسٹ‘ کی نقل ہے۔
بالی وڈ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد سنہ 1975 میں ریلیز ہونے والی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ میں جۓ یعنی امیتابھ بچن اور موسیٰ (لیلا مشرا) کے درمیان ہونے والی گفتگو کو معروف اُردو فکشن رائٹر ابن صفی کے ناول ’خوفناک عمارت‘ سے نقل کیا گیا مکالمہ قرار دیتے رہے ہیں۔
جبکہ اس فلم کے گیت ’محبوبہ محبوبہ‘ کو کسی نے عربی گانے کی نقل کہا ہے تو کسی نے اسے انگریزی فلم ’سے یو لوو می‘ کی نقل قرار دیا ہے۔
Uses in Urdu نے حالیہ الزامات پر جاوید اختر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تادم تحریر اُن کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
البتہ انھوں نے ماضی قریب میں نسرین منی کے ساتھ بات چیت پر مبنی کتاب ’ٹاکنگ لائف‘ میں اس نوعیت کے الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا تھا تاہم انھوں نے سرجیو لیون سے متاثر ہونے کی بات تسلیم کی ہے۔ اور ایک انڈین میڈیا ہاؤس سے بات کرتے ہوئے جاوید اختر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ ابنِ صفی کی تحریروں کو شوق سے پڑھا کرتے تھے۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ چند حلقوں کی جانب سے اُن کی فلم ’زنجیر‘ کو فلم ’ڈرٹی ہیری‘ کی نقل کہا گیا جو کہ ’بکواس‘ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’زنجیر‘ سلیم خان کے ذہن کی پیداوار تھی جس پر ’ہم دونوں نے ایک ساتھ کام کیا۔‘
اُن کے مطابق ڈرٹی ہیری پر ایک فلم ’خون خون‘ ضرور بنی لیکن وہ کسی اور کا کام تھا۔ انھوں نے اس طرح کے تمام الزامات کو ’ربش‘ کہہ کر مسترد کر دیا اور کہا کہ اُن کی لکھی کوئی بھی فلم کسی دوسری فلم کی نقل یا کاپی نہیں ہے۔
بہرحال انڈین سنیما بطور خاص بالی وڈ یا ہندی سنیما میں نقل یا سرقے کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ بہت سے مشہور فلموں کے سکرپٹس سے لے کر سینز، مکالموں، میوزک اور گیت سب ہی الزامات کی زد میں رہے۔
جب Uses in Urdu نے پونے میں قائم ڈی وائی پاٹل انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سکول آف میڈیا اینڈ جرنلزم کے ڈائریکٹر پروفیسر اروند داس سے سوال کیا کہ بالی وڈ میں پلیجیئرزم یا سرقہ کس حد تک سرایت کر چکا ہے تو اُن کا جواب تھا: ’بقول غالب، آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی، اب کسی بات پر نہیں آتی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈین فلم انڈسٹری میں یہ بے شرمی کی حد تک سرایت کر چکا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے اور ایسے مواد کو انسپائرڈ کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ مغرب میں دیکھیں تو سرقے کی وجہ سے لوگوں کی صدارت اور نوکریاں چلی گئیں ہیں اور انھیں شرمندہ ہونا پڑا ہے۔ آپ فرید زکریا کی مثال لے سکتے ہیں جنھیں نیوز ویک کی ادارت سے دستبردار ہونا پڑا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’فلم شعلے میں جو سکہ اُچھالنے کا مشہور منظر ہے وہ بھی ’گارڈن آف ایول‘ کی کاپی تھی۔‘
اُن کے مطابق یہ بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اب اس پر کسی کی توجہ نہیں۔ اُن کے مطابق شاہ رخ خان کی ’بازی گر‘ یا ’اگنی شاکسی‘ جیسی فلموں پر بھی ’سلیپنگ ود دی اینیمی‘ کی نقل ہونے کے الزامات لگے۔
انھوں نے کہا کہ ’حد تو تب ہو جاتی ہے جب انڈیا کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد فلم ’برفی‘ پر بھی سرقے کے الزامات عائد ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا۔‘
اسی طرح ’بریلی کی برفی‘ فلم بھی ’فرنچ کس‘ پر مبنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے آپ سرچ کریں تو آپ کو فلم اور اُن کی اصل دونوں کے لنکس مل جائیں گے اور آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ انڈین سینیما میں سرقہ یا چوری کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔
دہلی میں قائم سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) میں انڈین لینگویجز پروگرام میں ایسوسی ایٹ پروفیسر روی کانت کا کہنا ہے کہ ’نقل انسانی جبلت ہے اور یہ کسی بھی چیز کی ترقی اور فروغ کے لیے ضروری ہے۔‘
انھوں نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’پاپولر کلچر کے فروغ کے لیے نقل ناگزیر ہے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ جو لوگ سلیم جاوید پر نقل یا چوری کا الزام لگاتے ہیں کیا وہ ان جیسی کوئی چیز پیش کرسکتے ہیں یا ویسی چیز لکھ سکتے ہیں؟
لیکن جب کسی کا تخلیقی کام کوئی دوسرا اپنے نام کر لے تو اسے سرقہ کہتے ہیں اور یہ بھی ایک زمانے سے دنیا بھر موجود ہے۔
سرقے کی تعریف
آکسفورڈ یونیورسٹی نے پلیجیئرزم یعنی سرقہ کی تعریف اس طرح ہے کہ کسی دوسرے کے ذریعے پیش کردہ کام یا خیالات کو اپنے طور پر پیش کرنا سرقہ ہے اگر اسے مکمل طور پر تسلیم کیے بغیر اپنے کام میں شامل کیا گیا ہو خواہ اسے اصل مصنف کی رضامندی کے ساتھ یا اس کے بغیر پیش کیا گیا ہو۔
سرقہ عام طور پر اپنے آپ میں کوئی جرم نہیں ہے لیکن جعل سازی کی طرح، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، اخلاقی حقوق کی خلاف ورزی وغیرہ کی وجہ سے اس قسم کی متعصب دھوکہ دہی کے لیے عدالت میں سزا دی جا سکتی ہے۔ اکیڈمیوں اور صنعتوں میں اسے ایک سنگین اخلاقی جرم مانا جاتا ہے۔
دہلی کی امبیدکر یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور کاپی رائٹس کے ماہر پروفیسر لارنس لیانگ کہتے ہیں کہ ’سنیما کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے جس میں کام منفرد طور پر بھی ہوتا ہے اور مجموعی طور پر بھی، یعنی کسی فلم کی پروڈکشن میں کس نے کیا کام کیا اور کیا اِن پٹ دیا، اسے بہت قطیعت کے ساتھ آپ الگ الگ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ شعبہ بہت ہی مخصوص بھی ہے اور بہت ہی عجیب بھی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے کاپی رائٹ کے قانون کا اس میں زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا ہے اور فلم میں اوریجنلیٹی کی بہت زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں شاید ہی کوئی فلم ہو جو باؤنڈ سکرپٹ کے ساتھ بنتی ہے۔ البتہ شاید پہلی بار عامر خان کی فلم ’لگان‘ ایک باؤنڈ سکرپٹ کے ساتھ بنی تھی ورنہ عام طور پر ایک خیال ہوتا ہے جس پر روزانہ کی بنیاد پر کام کیا جاتا ہے اور شوٹنگ کے دوران بہت سے اختراع کیے جاتے ہیں، ایسے میں جو چیز وجود میں آتی ہے وہ ایک نئی چیز ہی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بعض ایسی فلمیں بنی ہیں جن کے مختلف ورژن سامنے آئے ہیں اور سب کی سب اپنے آپ میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔
مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اکیرا کوروساوا کی 1954 کی فلم ’سیون سمورائے‘ سے متاثر ہو کر انڈیا میں فلم ’سات ہندوستانی‘ بنی جسے خواجہ احمد عباس نے لکھا ہے جبکہ اسی پر ہالی وڈ نے ’دی میگنیفیسنٹ سیون‘ بنائی ہے جبکہ ہالی وڈ فلم ’بیٹل بیانڈ سٹارز‘ نے کہا ہے کہ انھوں نے اپنی سائنس فکشن فلم کی ترغیب ’سیون سمورائے‘ سے لی ہے۔
پروفیسر لارنس لیانگ کے مطابق کاپی رائٹ کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب فلموں کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بنائی جاتی تھیں اور انھیں غیر قانونی طور پر فراہم کیا جاتا تھا لیکن آج اس میں بھی چھوٹ ہے کہ کسی فلم کو اگر آپ تھیئٹر میں نہیں دیکھ سکتے تو آپ اسے پیسے دے کر آن لائن دیکھ سکتے ہیں یعنی بہت سے آؤٹ لیٹس موجود ہیں۔
انھوں نے ایک معروف قول کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ ’فلموں کے معاملے میں یہ زیادہ اہم نہیں ہے کہ آپ کوئی خیال کہاں سے اٹھاتے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ اسے کہاں پہنچاتے ہیں۔‘
پروفیسر لیانگ نے کہا کہ سنہ 1936 میں آنے والی فلم ’اٹ ہیپنڈ ون نائٹ‘ کو ہی آپ لے لیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ راج کپور نے اس پر ایک فلم ’چوری چوری‘ بنائی اور پھر مہیش بھٹ نے اس پر ’دل ہے کہ مانتا نہیں‘ بنائی اور آپ دیکھیں تو پائیں گے کہ تینوں فلمیں اپنے آپ میں جدا جدا ہیں۔
سی ایس ڈی ایس کے پروفیسر روی کانت کا بھی کہنا ہے کہ ’انڈیا میں کہانی کہنے کا اپنا مزاج رہا ہے اور اسے آپ انڈیا کی معروف رزمیہ ’مہا بھارت‘ اور ’رامائن‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو رامائن کے بھی اتنے ہی ورژن ملیں گے جتنے مہا بھارت کے ملیں گے اور آپ انھیں چوری، نقل یا سرقہ نہیں کہہ سکتے۔‘
بہرحال پروفیسر لیانگ کا کہنا ہے کہ انوراگ کشیپ، سلیم جاوید جیسے اے لسٹر سکرپٹ رائٹرز کو چھوڑ دیں تو نئے سکرپٹ رائٹرز کا استحصال ہوتا ہے اور انھیں ان کے کام کا معاوضہ نہیں ملتا ہے اور اس پولیٹیکل اکانومی میں جو استحصال ہے وہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فلموں کی کہانی سے زیادہ فلموں کے گیت اور میوزک میں نقل بہت ہی عام ہے اور موسیقار بپی لہری اور انو ملک اس معاملے میں بہت حد تک ’بدنام‘ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت کامن ہے۔ ری مکس میں تو اور بھی زیادہ عام ہے۔‘
پروفیسر لیانگ نے بتایا کہ 'فلم مدھومتی کا گیت 'دل تڑپ تڑپ کے کہہ رہا' ایک پولش فوک سانگ سے لیا گیا ہے اور یہ کلچرل ٹرانسلیشن ہے۔ اب جبکہ انٹرنیٹ کی وجہ سے ساری دنیا کے گیت آپ کے سامنے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ سلیل چودھری سے لے کر آر ڈی برمن تک بہت سارے موسیقاروں پر گیت کے دھن سے لے کر میوزک تک نقل کرنے کے الزامات دیکھے جا سکتے ہیں۔
صحافی مونوجیت لہری نے بالی وڈ میں نقل کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان 'چوری میرا کام' ہے جس میں 'چوری چوری' سے لے کر فلم 'فریب' تک کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں دعوے کیا جاتا ہے کہ 'این ان لافل انٹری' کی نقل ہے۔
اگر فلموں کی سائٹ 'آئی ایم بی ڈی' پر جائیں تو آپ کو درجنوں ہندی فلموں کا ذکر ملے گا جو ہالی وڈ کی فلموں کا ری میک ہیں یا پھر ان سے متاثر ہیں۔
پروفیسر روی کانت کہتے ہیں کہ دراصل نقل اسی چیز کی ہوتی ہے جو کامیاب ہوتی ہے یا پھر اسی پر نقل کا الزام لگایا جاتا ہے جو کامیاب ہوتی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک فلم کا ذکر کیا جس میں فراق گورکھپوری کے شعر کا استعمال کیا گیا تھا تو فراق گورکھپوری نے کسی سے کہا تھا کہ انھیں اس کا معاوضہ ملنا چاہیے جس پر فلم میگزن شمع میں لوگوں نے انھیں کہا کہ اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا شعر مقبول ہے لیکن آپ کے شعر کی وجہ سے فلم ہٹ ہوئی ہے یہ پتا نہیں چلتا، اس لیے معاوضہ طلب کرنا ذرا زیادہ تو نہیں ہو گیا۔
روی کانت کے مطابق نہ جانے کتنے ہی گلوکار محمد رفیع کی نقل کر کے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں، اسی طرح پروفیسر لیانگ نے کمار شانو کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہا کہ 'جب کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ کشور کمار کے ہی گیت کیوں گاتے ہیں تو انھوں نے میوزک کو اپنا مذہب اور کشور کمار کو اپنا خدا کہا تھا۔۔۔'