کالا سانپ اور کالی عدالت۔۔。
تحریر
سید صداقت علی شاہ
یہ بھی پڑھیں: امریکی پولیس کی لیبارٹری سے فرار ہونے والے 43 ‘شرارتی’ بندروں کی تلاش
یاد ماضی
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
کیا مصرعہ ہے، مفہوم مکمل، دوسرا جملہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کی بہترین ٹیم کا اعلان، کوئی پاکستانی شامل نہیں
واقعہ کی شروعات
یہ 9مارچ 2007ء کی بات ہے۔ طاقتور ترین صدر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو اپنے پاس طلب کیا اور معطل کر دیا۔ افتخار محمد چودھری پر فرائض سے غفلت برتنے، اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے، عہدے کے وقار کے منافی اقدامات اور میرٹ پر فیصلے نہ کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ وزیراعظم کی سفارش پر صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا اور ان کی جگہ سپریم کورٹ کے انتہائی سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ جی، جی وہی سابق چیئرمین نیب اور سرتاپا محبت نچھاور کرنے والی شخصیت۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات
وکلاء کی تحریک
وردی والے صدر نے اپنی طاقت دکھائی اور اس کے بعد افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کیلئے وکلاء سڑکوں پر نکل آئے اور ایک جاندار تحریک چلائی گئی۔ افتخار محمد چودھری نے دوران معطلی نہ صرف اپنا کیس لڑا بلکہ ملک بھر کے دورے کیے اور بار سے خطاب کرنا شروع کر دیا۔ 20 جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے صدر جنرل پرویز مشرف کا بھجوایا گیا صدارتی ریفرنس معطل کر کے افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کر دیا۔ ملک بھر میں جشن منایا گیا۔ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف سراہا بلکہ صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ تب ایک نعرہ بہت مقبول ہوا۔
چیف تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار
یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کی ایرانی نائب وزیر دفاع سے ملاقات، مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کا عزم
ایمرجنسی پلس
افتخار محمد چودھری بحال تو ہو گئے مگر لڑائی بڑھ گئی۔ 3 نومبر 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ”ایمرجنسی پلس“ نافذ کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت ان کے ہم خیال ججز کو برطرف کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے پی سی او کے تحت نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا۔ وکلاء کو ایک اور تحریک چلانے کا موقع مل گیا۔ ملک میں 8 جنوری 2008ء کے الیکشن شیڈول تھے۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں شہید ہو گئیں۔ 18 فروری 2008ء کو ملک میں انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت سے حکومت بنائی۔ آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے۔ پرویز مشرف پہلے ہی استعفا دے کر روانہ ہو چکے تھے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت پر عدلیہ کو بحال کرنے کا دباؤ دن بدن بڑھنے لگا۔ وکلاء تحریک پیچھے رہ گئی اور اس کی قیادت میاں محمد نواز شریف نے سنبھال لی۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نے جب دیکھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے تو انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کال دے دی۔ 15 مارچ 2009ء کو نواز شریف لاہور سے نکلے اور سولہ مارچ کی صبح ان کا قافلہ جب گوجرانوالہ کے قریب پہنچا تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افتخار محمد چودھری سمیت دیگر معزول ججز کی بحالی کا اعلان کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں اس وقت جنگی ماحول ہے، محمود خان اچکزئی
حالیہ حالات
اب 2024ء میں آ جائیں۔ 20 اور 21 اکتوبر کی درمیانی رات 26ویں آئینی ترمیم سے کچھ دیر قبل تابڑ توڑ تقاریر چل رہی تھیں۔ ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے“ سے شہرت پانے والے خواجہ آصف مخالفین پر گرج برس رہے تھے۔ فرما رہے تھے ”طاقت 17 لوگوں سے لے کر پارلیمنٹ کو دینا ووٹ کو عزت دینا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی عزت بحال کی، وہ عزت سے گھر جا رہے ہیں، عدلیہ کا ایک گروپ اجارہ داری چاہتا ہے، جب فوج میں آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے 5 بندوں کا پینل آتا ہے تو عدلیہ میں کیوں نہیں آ سکتا۔” جیسے ہی خواجہ آصف نشست پر بیٹھے تو سپیکر ایاز صادق نے مائیک جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کے حوالے کیا۔ مولانا صاحب تقریر شروع ہی کرنے لگے تھے کہ مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اٹھ کھڑے ہوئے۔ سپیکر صاحب نے فوراً سے پہلے مائیک اپنے قائد کے حوالے کیا۔
یہ بھی پڑھیں: معروف بھارتی پروڈیسر ایکتا کپور کے خلاف شرمناک الزام کے تحت مقدمہ درج
نواز شریف کی شاعری
میاں نواز شریف بولے ”میں خواجہ آصف کو سن رہا تھا، مجھے ایک شعر یاد آگیا، میں چاہتا تھا کہ خواجہ صاحب، اپنی تقریر کے آخر میں وہ شعر پڑھیں، میں ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ خواجہ صاحب نے اپنی تقریر ختم کر دی، اب وہ شعر میں پڑھتا ہوں“۔
نازو انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
یہ بھی پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی
تنقید اور ردعمل
میاں نواز شریف نے یہ شعر پڑھا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نواز شریف پر تنقید کے نشتر برسا دیئے۔ بولے، ”آئینی ترمیم پورے عدالتی نظام پر حملہ ہے، یہ پاکستانی آئین اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، اتنی تنقید مودی پر نہیں کی گئی جتنی عدلیہ پر کی گئی، نواز شریف میمو گیٹ میں کالا کوٹ اور کالی ٹائی پہن کر عدالت میں کیا کرنے گئے تھے۔”
جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے تقریر کا آغاز کیا۔ کہنے لگے ”26ویں آئینی ترمیم کا پہلا مسودہ جب ہمارے پاس آیا تو یہ ایک کالا ناگ تھا۔ ہم نے اتفاق رائے سے نیا مسودہ تیار کیا اور اس میں سے کالے ناگ کے دانت توڑ کر زہر نکال دیا ہے۔”
مولانا فضل الرحمان سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جب فلور سنبھالا تو کہا ”ملک میں کالا سانپ افتخار چودھری والی عدلیہ ہے، جسٹس افتخار چودھری نے پوری اٹھارویں ترمیم کو اٹھا کر پھینکنے کی دھمکی دی، اس لیے بلیک میلنگ میں آ کر انیسویں ترمیم کرنی پڑی۔”
اختتام
پس منظر، پیش منظر سب آپ کے سامنے ہے۔ باقی بقول شاعر
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں