دور تک مار کرنے والے میزائل اور اتحادی کی جاسوسی: کیا ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے حوالے سے امریکی دستاویزات جان بوجھ کر لیک کی گئیں؟
امریکی تحقیقاتی ادارے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران پر حملے کے اسرائیلی منصوبے سے متعلق انتہائی حساس امریکی خفیہ دستاویزات آن لائن کیسے افشا ہو گئیں۔
یہ دستاویزات پچھلے جمعے کو ایک ٹیلیگرام چینل پر سامنے آئی تھیں اور ان میں امریکہ کی طرف سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اس جائزے کے لیے سیٹلائیٹ کی مدد سےGenerated تصاویر اور دیگر انٹیلیجنس کا سہارا لیا گیا تھا۔ پیر کو وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جون کربی کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے افشامے پر صدر جو بائیڈن ’گہری تشویش‘ کا شکار ہیں۔
جون کربی کے مطابق امریکی حکام اس بات کا تعین ابھی تک نہیں کر سکے ہیں کہ یہ دستاویزات جان بوجھ کر افشا کی گئیں ہیں یا انہیں حاصل کرنے کے لیے ہیکنگ کا سہارا لیا گیا ہے۔
یکم اکتوبر کو ایران کی جانب سے میزائل حملوں کے بعد تقریباً تین ہفتوں سے اسرائیل ایران پر جوابی حملہ کرنے کی بات کر رہا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ یکم اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والا حملہ 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کا جواب تھا۔
کیا ٹیلیگرام پر لیک کیے گئے دستاویزات اصلی ہیں؟
عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں استعمال کی گئی سرخیاں مستند نظر آتی ہیں اور اسی طرح کے الفاظ کا استعمال ماضی میں سامنے آنے والی دیگر خفیہ دستاویزات میں بھی کیا گیا ہے۔
ان پر ’ٹاپ سیکرٹ‘ کے ساتھ ساتھ ’ایف جی آئی‘ یعنی ’فارن گورنمنٹ انٹیلیجنس‘ بھی تحریر ہے۔
بظاہر یہ دستاویزات ’فائیو آئیز‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ ملکی انٹیلیجنس اتحاد کے ساتھ شیئر کی جانی تھیں۔
ان دستاویزات میں ’ٹی کے‘ یعنی ’ٹیلنٹ کی ہول‘ جیسے کوڈ ورڈ بھی استعمال کیے گئے ہیں جس کا مطلب سیٹلائیٹ بیسڈ سگنلز انٹیلیجنس اور امیجری انٹیلیجنس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے غلطیاں کیں، نئے پروگرام پر کامیاب عملدرآمد کیلئے مضبوط پالیسیاں ناگزیر ہیں: نمائندہ آئی ایم ایف
یہ دستاویزات ہمیں کیا بتاتے ہیں؟
یہ دستاویزات یہ بتاتی ہیں کہ اسرائیل ایران میں کہاں کہاں اہداف کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس جائزہ رپورٹ کا تجزیہ 14 اور 15 اکتوبر کو امریکی خاص انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
اس جائزہ رپورٹ میں دو ایئر لانچڈ بیلسٹک میزائلوں 'گولڈن ہوریزون' اور 'راکس' کا بار بار ذکر آیا ہے۔
'راکس' ایک طولانی فاصلے (دور تک مار کرنے والا) میزائل سسٹم ہے جو اسرائیلی کمپنی رافئل نے تیار کیا ہے اور اس کے ذریعے زمین کے اوپر اور زیر زمین اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
'گولڈن ہوریزون' اسرائیل کا بلیو سپیرو میزائل سسٹم ہے جس کی رینج تقریباً دو ہزار کلومیٹر ہے۔
اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ رواں برس یکم اپریل کی طرز پر ایران پر ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے لیکن یہ حملہ پچھلے حملے کے مقابلے میں وسیع تر ہو گا۔
ان طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال کر کے اسرائیل اپنے جنگی جہازوں کو اردن جیسے ممالک کی فضائی حدود کا استعمال کرنے سے بچانا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ ایران پہلے کہہ چکا ہے کہ ممکنہ اسرائیلی حملے میں جن ممالک کی فضائی حدود یا اڈے استعمال ہوں گے، انھیں ایران کا ہدف سمجھا جائے گا۔
ان لیک ہونے والے دستاویزات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران کو مزید حملوں سے باز رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کے جوہری آپشن کی تیاری نہیں کر رہا۔
اسرائیل کی درخواست پر امریکی حکومتوں نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس کے قریب ترین اتحادی یعنی اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ ایسے میں ان دستاویزات میں جوہری ہتھیار کا ذکر آنے سے امریکہ کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جائیداد کی تقسیم کا معاملہ، عدالت نے چوہدری برادران کو طلب کرلیا
یہ دستاویزات ہمیں کیا نہیں بتاتے؟
ان دستاویزات میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اسرائیل کب اور کون سے ایرانی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی مخالفت کی ہے۔
تو اس کے بعد پاسدارانِ انقلاب کے عسکری اڈے، اس سے جڑی شخصیات اور بسیج فورس بچتے ہیں جو ایران کے اندر اور باہر اپنے ملک کے خلاف مزاحمت کو ختم کرنے کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
جہاں تک ایران پر اسرائیلی حملے کا تعلق ہے تو بہت سی شخصیات کا ماننا ہے کہ انھیں توقع تھی کہ اسرائیل اب تک یہ کر گزرے گا۔ لیکن رواں برس اپریل میں ایران نے بھی اسرائیل پر جوابی حملے کے لیے 12 دن انتظار کیا تھا۔
خیال رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایک ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنایا تھا جس میں پاسدارانِ انقلاب کے سات اراکین بھی ہلاک ہوئے تھے۔
ایران پر اسرائیلی حملے میں تاخیر کی ایک وجہ امریکی خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ اُن کے ملک میں صدارتی انتخاب سے پہلے خطے میں مزید تناؤ بڑھے۔
کیا یہ دستاویزات کسی مقصد کے تحت لیک کی گئیں؟
ممکنہ طور پر یہ دستاویزات کسی ایسے شخص نے افشاں کی ہیں جو ایران پر حملے کے اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔
ایران سائبر وار فیئر کے شعبے میں بھی وسیع صلاحیتیں رکھتا ہے، اسی سبب یہ تحقیقات بھِی جا رہی ہیں کہ کہیں دستاویزات کی یہ لیک ہیکنگ کا نتیجہ تو نہیں ہے۔
اگر یہ دستاویزات اصلی ہیں تو اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریب ترین دفاعی اتحادی ہونے کے باوجود بھی امریکہ اسرائیل کی جاسوسی کرتا ہے۔
ان دستاویزات کے جائزے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ ایران کے خلاف کوئی لانگ رینج حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ان کی جانب سے کسی بھی متوقع ایرانی حملے کو روکنے کے لیے بھی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
مختصراً یہ سمجھ لیجیے کہ جب اسرائیل اپنے منصوبے پر عمل کرے گا تب ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں پھر شدید تناؤ کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔