60 کلومیٹر چوڑا شہاب ثاقب، جس کے گرنے سے زمین پر 500 کلومیٹر کا گڑھا بنا، سمندر اُبل پڑا مگر جانداروں کی زندگی بچ گئی۔
سنہ 2014 میں ایک ایسے شہاب ثاقب کی دریافت ہوئی تھی جس کے زمین سے ٹکرانے کے باعث آنے والی ’سونامی‘ (سمندری طوفان) انسانی تاریخ کے سب سے تباہ کن سمندری طوفانوں میں سے ایک تھا۔
اگرچہ اس کی دریافت 2014 میں ہوئی تھی مگر حقیقت میں یہ شہابیہ تین ارب سال پہلے دنیا سے ٹکرایا تھا جب دنیا پر زندگی اپنے انتہائی ابتدائی مراحل میں تھی۔
سائنسدانوں نے تین ارب سال پہلے دنیا سے ٹکرانے والے اس شہابیے کو ’ایس ٹو‘ کا نام دیا تھا اور یہ اُس شہابیے سے 200 گنا بڑا تھا جس کے ٹکرانے سے دنیا سے ڈائنوسارز کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ’ایس ٹو‘ شہابیے کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے سمندروں کا پانی اُبل پڑا تھا۔
بڑے بڑے ہتھوڑے لیے سائنسدانوں کی ٹیم پیدل جنوبی افریقہ کے اُس مقام پر گئی جہاں اس شہابیے کے ٹکڑے ابھی بھی موجود ہیں۔ سائنسدانوں کا مقصد تھا کہ چٹان کے کچھ ٹکڑے توڑ کر ان کا جائزہ لیں اور شہابیے کے گرنے کے اثرات سمجھ سکیں۔
سائنسدانوں کو ایسے شواہد ملے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتنے بڑے شہابیے نے جہاں زمین کو نقصان پہنچایا تھا وہیں اس کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے زمین پر موجود ابتدائی زندگی کو پھلنے پُھولنے کا موقع ملا تھا۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر نادیا ڈرابون اس شہابیے اور اس کے اثرات پر ہونے والی نئی تحقیق کا حصہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب زمین پہلی بار وجود میں آئی تھی اُس وقت خلا میں کئی بڑے پتھر اُڑ رہے تھے جو بعض اوقات زمین سے بھی ٹکرا جاتے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اب پتا چلا ہے کہ ان شہابیوں کے مقابلے میں ہماری زمین پر پھلتی پھولتی زندگی کی قوت برداشت کتنی زیادہ تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت شہابیوں کے ٹکرانے سے زمین پر زندگی کے وجود کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
جو شہاب ثاقب آج سے لگ بھگ 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین پر گرا تھا اور جس کے باعث ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے، اُس کا سائز دنیا کی سب سے بلند چوٹی یعنی ماؤنٹ ایورسٹ جتنا تھا اور یہ 10 کلومیٹر چوڑا تھا۔
تاہم تین ارب سال پہلے گرنے والا ’ایس ٹو‘ شہابیہ 40 سے 60 کلومیٹر چوڑا تھا۔ جس وقت ’ایس ٹو‘ زمین سے ٹکرایا تھا اس وقت زمین اپنے ابتدائی سالوں میں تھی اور یہ بہت الگ دِکھتی تھی۔
اُس وقت زمین پر زیادہ تر پانی تھا اور سمندر میں سے بس کچھ ہی براعظم نمایاں ہوئے تھے۔
زمین پر زندگی کا وجود بہت سادہ تھا جبکہ ابتدائی جاندار بھی ایک خلیے (یک خلوی) پر مشتمل تھے۔
جس جگہ ’ایس ٹو‘ گرا تھا وہ جنوبی افریقہ کی مشرقی باربرٹن گرین بیلٹ میں واقع ہے۔ یہ علاقہ دنیا کی قدیم ترین جگہوں میں سے ایک ہے اور یہاں تین ارب سال پہلے گرنے والے اس شہاب ثاقب کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔
پروفیسر ڈرابون اپنے ساتھیوں سمیت اس علاقے میں تین مرتبہ جا چکی ہیں۔ دور دراز ان پہاڑوں میں جہاں تک وہ گاڑی چلا کر جا سکتی تھیں، وہیں گئیں۔ اس کے بعد کندھوں پر بیگ لٹکائے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پہاڑوں پر ہائیک کرتی ہیں۔
اُن کے ساتھ بندوق بردار محافظ بھی ہوتے ہیں تاکہ انہیں ہاتھی اور گینڈوں جیسے جنگلی جانوروں کے حملے سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ نیشنل پارک کے اِن جنگلات میں شکاری بھی موجود ہوتے ہیں جو سائنسدانوں کی ٹیم کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈرابون اور ان کے ساتھیوں کو اُن پتھروں کی تلاش تھی جو تین ارب سال پہلے ’ایس ٹو‘ سے گرے ہوں گے۔
بڑے بڑے ہتھوڑوں کے ساتھ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے سینکڑوں کلوگرام کے پتھر جمع کیے اور تحقیق کے لیے انھیں اپنی لیب واپس لے آئے۔
پروفیسر ڈرابون نے بتایا کہ ان پتھروں میں سے سب سے قیمتی پتھر وہ اپنے سوٹ کیس میں رکھ کر ساتھ لے جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب مجھے سکیورٹی والے روکتے ہیں تو میں ایک لمبی تمہید باندھتی ہوں۔ میں بتاتی ہوں کہ سائنس کتنی دلچسپ ہے۔ میری باتیں سُن کر وہ بیزار ہو جاتے ہیں اور مجھے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔‘
اُن کی ٹیم نے اس ماحول کا پھر سے تصور کیا ہے جب اربوں سال پہلے ’ایس ٹو‘ زمین پر گِرا تھا۔ اُس شہاب ثاقب کے گرنے سے 500 کلومیٹر پر محیط گڑھا بن گیا تھا۔
شہاب ثاقب کے گرنے سے زمین اتنی تیزی اور زور سے پھٹی کہ اس کے ٹکڑے آسمان تک پہنچ گئے۔ زمین کے ذرات سے گرد کا اتنا وسیع بادل بنا کہ اس نے پوری دنیا کو ڈھانپ لیا۔
پروفیسر ڈرابون نے کہا کہ ’تصور کریں کہ ایک بارش والا بادل ہو، لیکن اس میں سے پانی کی بوندیں گرنے کے بجائے آسمان سے پگھلے ہوئے پتھروں کی برسات ہو رہی ہو۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس شہاب ثاقب کے گرنے سے ایک سونامی آئی ہوگی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوگا۔ اس کی وجہ سے سمندر کی تہہ بھی پھٹ گئی ہوگی اور ساحلوں پر سیلاب آ گئے ہوں گے۔
پروفیسر ڈرابون کا کہنا ہے کہ 'ایس ٹو' کے گرنے سے آنے والی سونامی 2004 میں بحرہند میں آنے والی شدید سونامی سے کہیں زیادہ تباہ کن تھی۔ اُس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس شہاب ثاقب کے گرنے سے بہت بڑے پیمانے پر توانائی پیدا ہوئی ہو گی جس سے سمندر اُبل گئے ہوں گے، ہوا کا درجہ حرارت بھی 100 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو گیا ہو گا۔
دھول اور ذرات کی وجہ سے آسمان کالا ہو گیا ہو گا۔ وہ جاندار جو زندہ رہنے کے لیے دھوپ پر انحصار کرتے ہوں گے وہ سب مر گئے ہوں گے کیونکہ سورج کی کرنوں کو آسمان چیر کر زمین تک پہنچنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی ہو گی۔
پروفیسر ڈرابون اور ان کی ٹیم کی تحقیق میں ایک اور حیران کُن بات سامنے آئی۔
تحقیق میں سامنے آیا کہ 'ایس ٹو' کے گرنے سے جو تباہی ہوئی اس کے نتیجے میں فاسفورس اور آئرن جیسے غذائی اجزا پیدا ہوئے جن پر اُس وقت کے سادہ یا یک خلوی جانداروں نے اپنی غذا کے لیے انحصار کیا۔
پروفیسر ڈرابون نے بتایا کہ 'سادہ جانداروں کے پاس ناصرف مضبوط قوت برداشت تھی بلکہ ایسے حادثوں سے تیزی سے باہر آنے کی بھی طاقت تھی۔'
'یہ ایسا ہے کہ جیسے جب آپ صبح دانت برش کرتے ہیں تو 99.9 فیصد جراثیم مر جاتے ہیں۔ لیکن یہ جراثیم شام تک واپس آ جاتے ہیں۔ ہے نا؟'
نئی تحقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان شہابیوں کے اثرات ایسے تھے جیسے ایک وسیع پیمانے پر زمین پر کھاد ڈال دی گئی ہو جس سے جانداروں کو فاسفورس جیسے ضروری اجزا مل گئے ہوں۔
جس سونامی نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اس کے پانی میں سمندری تہہ کا آئرن بھی موجود ہو گا۔ اس آئرن کی وجہ سے ابتدائی مراحل کے جانداروں کو توانائی ملی ہو گی۔
پروفیسر ڈرابون نے بتایا کہ سائنسدانوں کے درمیان یہ تصور بڑھ رہا ہے کہ زمین کے ابتدائی سالوں میں ان شہابیوں کے ٹکرانے کی وجہ سے جو تباہی ہوئی تھی اس سے جانداروں کو پھلنے پُھولنے کا موقع ملا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ تباہی کے باعث ایسے حالات بن گئے تھے جن کی وجہ سے زندگی کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔'
یہ تحقیق سائنسی جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوئی ہے۔