لاہور کتاب میلے میں 35 کتابیں، 1200 شاورمے اور 800 بریانی کی فروخت کے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟

پاکستان کے سوشل میڈیا پر گذشتہ چند روز سے لاہور کتاب میلے کے حوالے سے ایک تصویر اور پاکستانی ٹی وی کے اداکار خالد انعم سے منسوب ایک بیان بہت زیادہ وائرل ہے۔

اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ لاہور میں منعقد ہونے والا عالمی کتاب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہو گیا ہے اور شرکا نے کتابوں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدیں، صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ 1200 شوارمے اور 800 بریانی خریدی گئیں۔

اس وائرل تصویر اور بیان کو نہ صرف سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے شیئر کیا بلکہ کچھ سیاستدانوں نے بھی اس پر تبصرے کیے۔

مگر ان تبصروں اور خبروں میں کیا کہا گیا، اس طرف بڑھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ مذکورہ دعوے کی حقیقت کیا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ بک فیسٹیول رواں برس فروری میں منعقد ہوا تھا تو اب آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس میں فروخت ہونے والی کتابوں پر بحث کیوں ہو رہی ہے؟

اس دعوے کی حقیقت کیا؟

اس دعوے کی حقیقت کیا؟

اس تصویر اور بیان کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے ان ہی سے رابطہ کیا جن کے نام سے یہ بیان منسوب کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔

لاہور کتاب میلے سے متعلق تصویر اور بیان پر Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ٹی وی اداکار خالد انعم کا کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار میں کوئی حقیقت نہیں۔

انھوں نے اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو روز قبل ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ایک پوسٹ دیکھی اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے بغیر تصدیق کیے ازراہ مذاق یہ فقرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر کیے تھے جن کو تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ہی بنا تصدیق کے وائرل کر دیا گیا۔

انھوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ میں نے یہ جملے لکھنے کے ایک گھنٹے بعد ہی اپنا سٹیٹس ڈیلیٹ کر دیا تھا لیکن سب نے بنا تصدیق کیے اسے وائرل کر دیا۔

انھوں نے اس حوالے سے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات کو شیئر کرنے پر معذرت کی۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری بیان اور Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ کتنے افسوس کی بات ہے اور میں بھی بنا تصدیق کے ایسی معلومات شیئر کرنے پر معذرت چاہتا ہوں، اگرچہ میں نے اسے ایک لطیفہ سمجھتے ہوئے شئیر کیا لیکن اس سے ملک کے عوام اور شہروں کی بدنامی ہوئی۔'

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ نے اعتراف کیا: وہ خودساختہ روپوش تھے، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی

’لاہور کتاب میلے میں ہجوم کی تصدیق شہباز شریف کر سکتے ہیں‘

’لاہور کتاب میلے میں ہجوم کی تصدیق شہباز شریف کر سکتے ہیں‘

اگرچہ خالد انعم نے اس بیان کی وضاحت کر دی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بات پھیل چکی ہے اور بھارت کے ایک معتبر اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کے ویب پورٹل نے اس بیان کو بغیرتصدیق شائع کر دیا ہے۔

یہاں تک کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اپنے تبصروں میں کہا کہ ’پیٹ اور دماغ کے مقابلے میں دماغ کے جیتنے کے چانس کم ہوتے ہیں۔ ہماری دماغ کو زیادہ استعمال کرنے کی عادت بھی کم ہے۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں

Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ خصوصی کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: Uses in Urdu دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

مواد دستیاب نہیں ہے

Twitter مزید دیکھنے کے لیےUses in Urdu. Uses in Urdu بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

لاہور بک فیسٹیول کے منتظمین نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کے ردعمل میں سوشل میڈیا پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’قابل احترام وزیر محترم، ہم پاکستان میں سب سے پرانا بک فیئر ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہمارے کتاب میلے میں کتنا ہجوم ہوتا ہے۔

’کتاب پڑھنے کا کلچر خطرے میں ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ آپ کو فروری 2025 میں خود اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔‘

تاہم، اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس بیان کو بنا تصدیق کے بار بار شیئر کیا گیا اور صارفین نے اس پر کھل کر تبصرے بھی کیے۔

ڈاکٹر ضیا الدین نامی صارف نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ’میلے کے شرکا نے علم پر ذائقے کو ترجیح دی۔‘

نادیہ علی نامی صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کتابیں نہ لینے کی ایک بڑی وجہ ان کی مہنگائی ہے۔ انڈین کتابوں کی پرنٹنگ سستے کاغذ پر ہوتی ہے، اس لیے وہ کم دام کی ہوتی ہیں اور سب خرید سکتے ہیں۔ یہاں پر مہنگا کور اور کاغذ کی وجہ سے کتابیں مہنگی ہوتی ہیں اور کوئی بھی نہیں خرید سکتا۔ اگر اس جانب توجہ دی جائے تو آدھے لوگ کتابیں خریدنا شروع کر دیں گے۔‘

کتابوں کی فروخت میں کمی کی وجہ کیا؟

کیا پاکستان میں کتاب پڑھنے یا کتاب دوستی کے رحجان میں واقعی کمی آئی ہے؟ کیا اس کی وجہ ٹیکنالوجی، کتابوں کی بڑھتی قیمت یا عوامی سطح پر فکری سوچ اور علم کے حصول میں کمی ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے معروف لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ظفر میراج نے کہا کہ ’یہ کہنا درست نہیں کہ کتاب پڑھنے کے رحجان یا کتاب دوستی میں کمی ہوئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بدلتے وقت کے ساتھ معاشرے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’میں خود بھی اب لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر کے لکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے کاغذ اور قلم کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی لوگ کتابیں پڑھتے ہیں لیکن اب ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ ای بکس، پی ڈی ایف اور آڈیو بکس کا زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

’میں خود بھی سفر کے دوران آڈیو بکس سنتا ہوں، البتہ میرے بچے آج بھی کتابیں ہی پڑھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید کتاب کی اشاعت کی لاگت نے اسے کچھ قیمتی کر دیا مگر آج بھی جو لطف ایک کتاب کو ہاتھ میں تھامے یا گود میں لے کر مطالعہ کرنے کا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے دنیا بھر میں آج بھی لاکھوں پبلشرز کتابوں کی اشاعت کر رہے ہیں۔‘

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...