نصف شب بیت گئی، مگر مصر کے بازاروں میں ابھی تک ٹھیک ٹھاک رونق میل تھا، رقص گاہوں میں بیلے ڈانس کی مخصوص دھنیں بج رہی تھیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 38
رونق میلہ
نصف شب بیت گئی تھی، مگر مصر کے بازاروں میں ابھی تک ٹھیک ٹھاک رونق میلہ چل رہا تھا۔ مقامی مصری اور غیر ملکی سیاح فٹ پاتھ پر جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر بلند آواز میں بے ہنگم قہقہے لگا رہے تھے۔ خواتین بھی تھوڑی تھوڑی بعد اپنی مخصوص چیخیں مار کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھیں۔ تقریباً ہر بڑے ہوٹل میں بنی ہوئی رقص گاہوں میں بیلے ڈانس کی مخصوص دھنیں بج رہی تھیں اور ان پر سنہرے بالوں اور خوبصورت آنکھوں والی صحت مند رقاصائیں اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی تھیں۔ جن ہوٹلوں میں یہ رقص گاہ سطحی منزل پر تھی، وہاں کے ملازم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہال کا دروازہ چند لمحوں کے لیے کھول کر باہر آنے جانے والوں کو اندر کے ماحول کی ایک جھلک دکھا کر ان کی آتش شوق بھڑکا رہے تھے، جہاں یہ سہولت موجود نہیں تھی وہاں ہوٹل کے مرکزی دروازوں پر نیم برہنہ رقاصاؤں کے قد آدم رنگین پوسٹر لگے ہوئے تھے جن پر ان حسیناؤں کا ہلکا پھلکا تعارف بھی تحریر کیا ہوتا تھا اور عمومی خوبصورتی کے علاوہ ان کی کچھ اور خوبیاں بھی گنوائی جاتی تھیں۔
میمفس
اگلی صبح میں تیار ہو کر بیٹھا تھا کہ 9بجے کے قریب عبدو مجھے لینے آ پہنچا۔ وہ آج مجھے کچھ خاص دکھانا چاہ رہا تھا اور پھر شام کو مصر کے قدیم اور مشہور زمانہ بازار خان الخلیلی میں اس نے مجھے چائے پلانے کا پروگرام بھی بنایا ہوا تھا اور وہ اس سارے پروگرام کو لے کر بڑا ہی پُرجوش تھا۔
شہر کے سفر کی شروعات
ٹیکسی آئی اور ہم ایک بار پھر قاہرہ کے مضافات کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران عبدو سے کچھ اور شناسائی ہوئی تو پتہ لگا کہ وہ ایک شریف النفس، محنتی اور ایماندار نوجوان تھا جو باقاعدگی سے پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کرتا تھا۔ اپنے زیادہ تر ہم پیشہ ساتھیوں کے برعکس وہ کوئی بھی ہیرا پھیری اور وعدہ خلافی نہیں کرتا تھا اور جہاں ضرورت ہوتی وہ مجھے مقامی رسم و رواج کے بارے میں مسلسل آگاہ رکھتا تھا۔ اس دوران وہ کچھ ایسا نامناسب تبصرہ بھی کر دیتا تھا جو عموماً لوگ اپنے وطن اور قوم کے بارے میں کم از کم غیر ملکیوں کے سامنے نہیں کیا کرتے تھے۔
قدرتی مناظر
ہم لوگ اب شہر سے کافی باہر نکل آئے تھے اور گاڑی ہرے بھرے کھیتوں اور کھجوروں کے وسیع و عریض باغات میں گزرتی ہوئی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ کبھی کبھی بیچ میں صحرائی علاقہ آ جاتا پھر سرسبز کھیت نظر آنے لگتے جہاں مصری مرد اونٹوں اور گدھوں سے کھیت جوتنے اور خواتین دوسری روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول نظر آتے۔ یہاں پانی کی فراوانی تھی اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرح نہریں اور چھوٹی آبی گزرگاہیں کثرت سے نظر آتی تھیں اور ان میں رواں دواں دریائے نیل کا پانی بڑا ہی بھلا لگتا تھا۔
غیر ملکی سیاحوں کا مشاہدہ
ہمارے آگے آگے غیر ملکی سیاحوں کی ایک بڑی بس جا رہی تھی جس میں سے وہ بار بار کیمرے باہر نکال کر اس خوبصورت ماحول کی منظر کشی کر رہے تھے۔ تینوں اہرام دھرتی پر فخر سے اپنا سینہ اٹھائے کھڑے تھے اور ایک منٹ کے لئے بھی نظروں سے اوجھل نہ ہوئے تھے۔ حالانکہ ان کا فاصلہ وہاں سے کم از کم پندرہ بیس کلو میٹر ہوگا مگر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ ہمارے پہلو میں ہی واقع ہیں اور ہم جب چاہیں گاڑی سے اتر کر وہاں پہنچ جائیں گے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔