برکس سربراہی اجلاس کی میزبانی: کیا پوتن کا مقصد یہ ہے کہ وہ دکھائیں کہ روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں؟
تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ آپ ولادیمیر پوتن ہیں۔
مغرب نے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے آپ پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں جن کا مقصد آپ کے ملک کی معیشت کا رشتہ عالمی منڈیوں سے منقطع کرنا ہے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے آپ کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔
اس پس منظر میں آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ آپ کے خلاف دنیا بھر کا دباؤ ناکام ہو گیا ہے؟ اس کے لیے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے کی کوشش کیسی رہے گی، اور پوتن نے بھی ایسا ہی کیا۔
رواں ہفتے صدر پوتن نے قازان کے خوبصورت شہر میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس سربراہی اجلاس میں 20 سے زائد سربراہان مملکت کا خیر مقدم کریں گے۔
اس اجلاس کے لیے جن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا، ان میں چین کے صدر شی جن پنگ، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور ایرانی صدر مسعود پیزشکیان شامل ہیں۔
کریملن نے اس سربراہی اجلاس کو روس میں خارجہ پالیسی کے ’حوالے سے منعقد ہونے والے اب تک کے سب سے بڑے ایونٹس‘ میں سے ایک قرار دیا۔
کنسلٹنسی کمپنی میکرو ایڈوائزری کے شریک بانی کرس ویفر کا کہنا ہے کہ اس کا ’واضح پیغام یہ ہے کہ روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کریملن کی جانب سے بڑا پیغام ہے کہ روس پابندیوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ سطح کے نیچے شدید دراڑیں ہیں، لیکن جیو پولیٹیکل سطح پر روس کے یہ تمام (ممالک) دوست ہیں اور یہ سب روس کے شراکت دار بننے جا رہے ہیں۔'
تو روس کے دوست کون کون سے ملک ہیں؟
2006 میں برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مخفف ’برک‘ تھا۔ سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔
اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا، تاہم حالیہ برسوں کے دوران اس اتحاد کو وسعت ملی اور ایران، مصر، ایتھوپیا سمیت متحدہ عرب امارات بھی اس کا حصہ بن گئے۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بھی برکس کا حصہ بننے پر غور کر رہا ہے، جبکہ آزربائیجان کی جانب سے شمولیت کے لیے باضابطہ درخواست دی جا چکی ہے۔
برکس کے اراکین ممالک کی مجموعی معیشت کی مالیت 28.5 کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جو عالمی معیشت کا تقریباً 28 فیصد ہے۔
روسی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مزید 30 ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا اس گروپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک سربراہی اجلاس میں حصہ لیں گے۔
قازان میں اس ہفتے ’عالمی اکثریت‘ کی نمائندگی کرنے والے اجلاس میں بہت سے موضوعات پر مذاکرات کی توقع ہے لیکن ولادیمیر پوتن کو جیو پولیٹیکل سٹیج پر اپنی قوت دکھانے کے علاوہ اس اجلاس سے مزید کیا حاصل ہونے کی امید ہے؟
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں تیز رفتار کار کی زد میں آکر 2 بھائی جاں بحق، وزیر اعلیٰ کا نوٹس ،سی سی پی او سے رپورٹ طلب
ڈالر کا متبادل
مغربی پابندیوں کے دباؤ کو کم کرنے کے خواہشمند کریملن رہنما برکس کے اراکین کو عالمی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا متبادل اختیار کرنے پر راضی کرنے کی امید کریں گے۔
مسٹر ویفر کہتے ہیں کہ ’روس کی معیشت کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے بہت سے سرحد پار تجارت اور ادائیگیوں سے منسلک ہیں اور ان میں سے زیادہ تر امریکی ڈالر (میں کی جانے والی روایتی ادائیگی) سے منسلک ہیں۔
’امریکی ٹریژری کا عالمی تجارت پر بہت زیادہ اثر و رسوخ صرف اس وجہ سے ہے کہ امریکی ڈالر دنیا بھر میں ادائیگیوں کے لیے اہم کرنسی ہے۔ روس کی بنیادی دلچسپی امریکی ڈالر کے تسلط کو توڑنا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ برکس ممالک ایک متبادل تجارتی میکانزم بنائیں اور کراس بارڈر سسٹم تیار کریں جس میں ڈالر، یورو یا جی سیون کی کرنسیوں میں سے کوئی بھی شامل نہ ہو تاکہ پابندیوں سے کوئی زیادہ فرق نہ پڑے۔‘
لیکن ناقدین برکس کے اندر اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’لائیک مائنڈ‘ یا ’ہم خیال‘ ایسا لفظ نہیں، جسے آپ برکس میں رکنیت کی وضاحت کے لیے استعمال کریں گے۔
گولڈمین سیکس کے سابق چیف اکنامسٹ جم او نیل کہتے ہیں کہ کچھ طریقوں سے یہ مغرب کے لیے ایک اچھا کام ہے کیونکہ چین اور انڈیا کبھی بھی کسی چیز پر متفق نہیں ہو سکتے اور اگر یہ دونوں واقعی سنجیدہ ہوتے تو برکس کا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا ہوتا۔
’چین اور انڈیا ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے بچنے کے لیے ہمہ وقت اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اقتصادی چیزوں کے متعلق ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی کوشش کرنا ان کے لیے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا چیلنج ہے۔‘
پوتن کا کام اختلافات ختم کرنا اور اتحاد کی تصویر کشی کرنا
یہ او نیل ہی تھے جنھوں نے چار ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ’برِکس‘ کا خواب دیکھا تھا۔ ان کے خیال میں ان چاروں ممالک برازیل، روس، انڈیا اور چین کو ’عالمی پالیسی سازی کے مرکز میں لایا جانا چاہیے۔‘
لیکن جب ان چار ممالک نے اپنا آغاز کیا تو حالات بے قابو ہونے لگے۔
اس گروپ کا مقصد جی سیون کی طاقت کو چیلنج کرنا تھا۔ جی سیون میں دنیا کی سب سے بڑی سات 'ترقی یافتہ' معیشتیں شامل ہیں، جیسے کہ کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ۔
برکس میں صرف انڈیا اور چین ہی نہیں بلکہ مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے، اور حالانکہ ایران اور سعودی عرب نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی ہے، وہ طویل عرصے سے علاقائی حریف ہیں۔
او نیل کا کہنا ہے کہ 'ان سب کا کسی بڑے موضوع پر متفق ہونا دراصل بے معنی ہے۔'
جبکہ روس مغرب مخالف جذبات کی بنا پر ایک 'نیا ورلڈ آرڈر' قائم کرنے کی بات کر رہا ہے، انڈیا جیسے دیگر برکس کے اراکین مغرب کے ساتھ بہتر سیاسی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔
قازان میں ولادیمیر پوتن کا مقصد اختلافات کو ختم کرنا اور اتحاد کی تصویر پیش کرنا ہے، تاکہ روسی عوام اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کا ملک تنہائی سے بہت دور ہے۔