راولپنڈی کی باربی کیو پچ اور پاکستان کی وقار کی بحالی

یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ راولپنڈی لوٹے اور پچ سے جڑے مباحث کی گرد نہ اڑے؟ جب سے پاکستان میں ہوم کرکٹ بحال ہوئی ہے، تب سے راولپنڈی کی پچ نے کئی مختلف روپ دکھائے ہیں جن میں سے کچھ پاکستان کے لیے بھیانک بھی ثابت ہوئے ہیں۔

تین سال پہلے سری لنکن ٹیم کے خلاف جب پاکستان اسی پچ پر کھیلا تو یہ روایتی راولپنڈی پچ تھی، جس میں پیس اور باؤنس تھا۔ میچ کے دوران جہاں سپنرز کے لیے کچھ سازگار حالات تھے، وہیں پرانی گیند کے ساتھ ریورس سوئنگ بھی فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

پھر جب جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان اسی پچ پر اترا تو جنوری کا یخ بستہ موسم گھاس سے ہری بھری پچ کے لیے موزوں رہا۔ ایسی گرین ٹاپ وکٹ دیکھنے کو ملی جس پر میچ چار دن بھی مکمل نہ کر پایا اور پیسرز نہال رہے۔

یہ دونوں واقعات تب ہوئے جب پی سی بی کی حالیہ تاریخ کا مستحکم ترین دور تھا۔ احسان مانی کی قیادت میں پاکستان کرکٹ اپنے سٹائل اور ہوم گراؤنڈز کے تنوع کی شناخت پیدا کر رہی تھی لیکن یہ استحکام زیادہ برقرار نہ رہ پایا اور رمیز راجہ آن پہنچے۔

رمیز راجہ کے زیرِ انتظام پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف سیریز وہ موقع تھا جب راولپنڈی کی پچ کو ’نیوٹرل‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اقدام کی بدولت وہ پچ پیدا ہوئی جہاں پانچ روز میں پندرہ وکٹیں بھی حاصل نہ ہو سکیں۔

اس حکمتِ عملی کا جواز رمیز راجہ نے یہ پیش کیا تھا کہ آسٹریلوی پیسرز کو باؤنس سے محروم کرنے کے لیے ایسی پچ تیار کی گئی تاکہ وہ میچ میں فیصلہ کن کردار ادا نہ کر سکیں، مگر اب یہ انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ پچ بدلنے کا وہ فیصلہ دراصل بابر اعظم کا تھا۔

رمیز راجہ کے مطابق بابر اعظم ایسی پچ چاہتے تھے جو بلے بازی کے لیے آسان ہو۔

بہر طور، یہ جس کا بھی فیصلہ تھا مگر اس ایک فیصلے سے شروع ہونے والا زوال ایسا دامن گیر ہوا کہ پھر چار سال تک پاکستان کرکٹ کسی ہوم ٹیسٹ میں جیت کو ترستی ہی رہی۔

اب جبکہ دوسرے ملتان ٹیسٹ میں سپن وکٹ نے پاکستان کو امید کی کرن دکھائی تو راولپنڈی میں بھی پچھلے پانچ دن سے ویسی ہی پچ کی تیاری جاری ہے جو پاکستان کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکے۔

یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ الیکٹرک ہیٹرز اور پنکھوں کے ذریعے پچ کو خشک بلکہ باربی کیو کرنے کا عمل کس قدر موثر ثابت ہو گا کیونکہ جو ’ٹرن‘ ملتان کی پچ میں سات روز استعمال کے بعد پیدا ہوا، یہاں شاید وہ تیسرے دن سے پہلے پیدا نہ ہو پائے۔

ایسے میں پاکستان کے لیے دقت یہ ہے کہ انگلش ٹیم کے برعکس ان کے پاس صرف ایک پیس آل راؤنڈر کی خدمات دستیاب ہیں جبکہ انگلش ٹیم کا توازن زیادہ بہتر ہے کہ اسے تین فرنٹ لائن سپنرز شامل کرنے کے بعد بھی دو پیس آپشنز مہیا رہتے ہیں۔

گو کہ ملتان کی گرمی اور کنڈیشنز نے جو ریورس سوئنگ مہیا کی تھی، ویسی شاید راولپنڈی میں دیکھنے کو نہ ملے، مگر پھر بھی بین سٹوکس اور گس ایٹکنسن کی کئی بولنگ اس پچ کے دوغلے باؤنس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

پاکستانی ٹاپ آرڈر میں اگرچہ عبداللہ شفیق سپن کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں مگر ان کی حالیہ فارم قابلِ رشک نہیں رہی اور شان مسعود کی بیک فٹ تکنیک اگر کسی سپن پچ پر موثر ثابت نہ ہو پائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی۔

لیکن کامران غلام اور سعود شکیل وہ دو مہرے ہوں گے جن سے پاکستان کو اپنی بیٹنگ اننگز جوڑے رکھنے کی توقع ہو گی کیونکہ ریحان احمد کی واپسی سے انگلش سپن اٹیک کو جو اضافی تقویت ملی، اس سے نمٹنا پاکستانی مڈل آرڈر کے لیے ہمت طلب کام ہو گا۔

اور اگرچہ ملتان میں ساجد خان اور نعمان علی نے انگلش بیٹنگ کو محبوس کیے رکھا مگر یہاں پہلے دو روز اگر انگلش ٹیم کو بیٹنگ کا موقع مل گیا تو وہ ان دونوں پاکستانی سپنرز کے خلاف بھرپور جارحیت سے مقابلہ کریں گے اور سست رن ریٹ کا تدارک چھکوں سے کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایسے میں پاکستان کے لیے بھی فرنٹ لائن سپنرز کے علاوہ عامر جمال کی تائید کے لیے ایک ریگولر پیسر ضروری ہو سکتا ہے اور جب بات ’بیز بال‘ کی جارحیت پر آئی تو نعمان علی اور ساجد خان سے بڑھ کر یہ شان مسعود کا امتحان ہو گا کہ وہ کیسے انگلش بلے بازوں کی جارحیت کو انھی پر پلٹا سکیں۔

’وننگ کمبینیشن میں تبدیلی نہ کرنے کی روایت کب ختم ہو گی؟‘

’وننگ کمبینیشن میں تبدیلی نہ کرنے کی روایت کب ختم ہو گی؟‘

انگلینڈ کے خلاف راولپنڈی میں کھیلے جا رہے تیسرے ٹیسٹ کے لیے پلئینگ ایلیون میں شامل کھلاڑیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’ایک بھی فاسٹ بولر کو شامل نہیں کیا گیا، ٹاس ہار گئے تو لگ پتا جانا ہے۔‘

کچھ صارفین وننگ کمبینیشن میں تبدیلی نہ کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ یہ روایت کب ختم ہو گی؟‘

شہریار لکھتے ہیں ’وہی پرانی روایت کہ پچھلا میچ جیت گئے تو وننگ کمبینیشن میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ تین سپنرز کا اچار ڈالنا ہے؟‘

دانیل نامی صارف نے لکھا کہ ’اگر واقعی یہ وکٹ سپن کے لیے بہترین ہے تو دو سپنر کافی تھے، ملتان میں ساجد اور نعمان نے یہ ثابت بھی کیا اور ایسی پچ پر تیسرے سپنر کی ضرورت نہیں۔‘

کچھ افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’تیسرے سپنر کی جگہ ایک سیمر کو موقع ملنا چاہیے تھا۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ اگر انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ لے لی تو اسی سکواڈ کو چننے کا فیصلہ بہت غلط ثابت ہو گا۔‘

کچھ صارفین کا خیال ہے کہ 'دونوں ٹیموں نے ایک ایک پیسر شامل کیا، اگر پچ پر کوئی موڑ نہیں آیا تو دونوں ٹیموں کو اندازہ ہو جائے گا۔'

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...