انڈیا اور کینیڈا کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کے دوران دو سال پہلے ہونے والے قتل کا اعتراف جرم

اس ہفتے کینیڈا کی ایک عدالت میں 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز پر بم دھماکے کے الزامات سے بری ہونے والے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے دو افراد نے جرم تسلیم کر لیا ہے۔

ٹینر فاکس اور جوز لوپیز نے 2022 میں سکھ تاجر ریپودمن سنگھ ملک کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔

یاد رہے کہ 23 جون 1985 کو کینیڈا سے انڈیا جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز 182 کو آئرش ساحل کے قریب دھماکے سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار تمام 329 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں سے زیادہ تر کینیڈین شہری تھے جو انڈیا میں رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔ اس دھماکے کا الزام سکھ تاجر ریپودمن سنگھ پر لگا تھا لیکن دو سال تک جاری رہنے والے مقدمے کے بعد ریپودمن سنگھ ملک اور اُن کے شریک ملزم عجائب سنگھ باگری کو 2005 میں ان بم دھماکوں سے متعلق اجتماعی قتل اور سازش کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔

14 جولائی 2022 کی صبح برٹش کولمبیا کے سرے میں ریپودمن سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ریپودمن سنگھ قتل کیس میں زیر تفتیش ملزمان ٹینر فاکس اور جوز لوپیز نے اس ہفتے برٹش کولمبیا کی سپریم کورٹ میں یہ بتایا کہ اُن سے اس قتل کے لیے رابطہ کیا گیا تھا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس کے کہنے پر انہوں نے یہ کام کیا تھا۔

مقتول ریپودمن سنگھ کے اہلخانہ نے ایک بیان میں ان دونوں ملزمان پر زور دیا ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ جس نے بھی اس قتل کی ہدایت دی تھی اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ریپودمن سنگھ کے خاندان نے کہا کہ 'جب تک اس قتل کی ہدایت دینے والے کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، یہ کام ادھورا رہے گا۔'

ریپودمن سنگھ کے قتل کے اعتراف کرنے والے ملزمان کو اب 31 اکتوبر کو سزا سنائی جائے گی۔

اس سے پہلے پچھلے ہفتے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا نے ان کے ملک کی خودمختاری اور سلامتی میں مداخلت کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔

کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین عہدیداروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ایک نیا سفارتی تنازعہ شروع ہو گیا تھا اور پچھلے دنوں میں اس تنازعے نے شدت اختیار کی ہے۔

اس تنازعے میں پہلے کینیڈا کی حکومت نے انڈیا کے ہائی کمشنر سمیت پانچ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ بعد میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا نے بھی کینیڈا کے چھ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی۔

'دہرا معیار تو بہت نرم لفظ ہو گا'

'دہرا معیار تو بہت نرم لفظ ہو گا'

اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخیاں سرکردہ رہنماؤں کے بیانات میں نظر آنے لگیں۔ رواں ہفتے انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے تحت منعقدہ ورلڈ سمٹ کا افتتاح کرتے ہوئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو کوئی بھی ملک ’ہلکا مت لے‘ اور یہ کہ اس کے تمام ممالک سے دو طرفہ تعلقات اعتماد اور بھروسے پر قائم ہیں۔

اسی اجلاس میں شریک وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے این ڈی ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف سنجے پوگلیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کو انڈین سفارتکاروں سے یہ پریشانی ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انڈیا کے سلسلے میں وہاں کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے کینیڈا پر مختلف معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’دہرا معیار کہنا تو بہت نرم لفظ ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیں: سموگ کا مسئلہ ، وزیر اعلیٰ مریم نواز کی کوششوں پر بھارتی اخبار کا “جواب ” آ گیا

’سیاسی مقاصد کے لیے لگائے گئے الزامات‘

’سیاسی مقاصد کے لیے لگائے گئے الزامات‘

دوسری جانب کینیڈا میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر سنجے کمار ورما نے کہا ہے کہ کینیڈا نے ان پر اور انڈین حکومت پر جو بھی الزامات لگائے ہیں وہ سیاست سے متاثر ہیں اور اس کے متعلق کوئی قانونی شواہد پیش نہیں کیے گئے ہیں۔

کینیڈا کی طرف سے انڈیا کے ساتھ شیئر کیے گئے سفارتی مراسلے میں کینیڈا میں انڈیا کے ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور دیگر انڈین سفارت کاروں پر جون 2023 میں انڈیا میں علیحدہ ریاست خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

کینیڈا کے سی ٹی وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سنجے کمار ورما نے متعدد سوالات کا جواب دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ کینیڈین حکومت خالصتان کے حامیوں کو فروغ دے رہی ہے۔

سنجے کمار ورما کا کہنا تھا کہ خالصتان حامی افراد کینیڈا کی سکیورٹی انٹیلیجنس سروس (سی ایس آئی ایس) کے لیے ’قیمتی اثاثے‘ کی طرح ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ ’جس طرح ٹروڈو حکومت نے بغیر شواہد کے انڈیا اور ہم پر الزام لگایا ہے اسی طرح ہمارا یہ الزام ہے اور میں اس کے لیے شواہد پیش نہیں کر رہا ہوں۔‘

انٹرویو کے دوران سنجے کمار ورما سے پوچھا گیا کہ اگر آپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو آپ کینیڈین حکام سے تعاون کیوں نہیں کر رہے؟

اس کے جواب میں سنجے ورما نے کہا کہ ’ہمیں اس کے لیے کچھ شواہد کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ساتھ شواہد شیئر نہیں کیے گئے۔ جو بھی شواہد ہمارے ساتھ شیئر کیے جائیں انھیں قانون کے مطابق ہونا چاہیے، ہم کینیڈا کی طرح قانون کی حکمرانی پر عمل کرتے ہیں۔‘

انھوں نے پوچھا کہ ’جب تک شواہد فراہم نہیں کیے جاتے میں اپنا دفاع کیسے تیار کروں گا؟‘

کینیڈا میں انڈیا مخالف سرگرمیاں

کینیڈا میں انڈیا مخالف سرگرمیاں

انٹرویو کے دوران ورما سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے نجر کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں؟ اس کے علاوہ، ان سے کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں پر نظر رکھنے کے بارے میں بھی سوال پوچھا گیا۔

اس بارے میں انہوں نے کہا: ’انڈین ہائی کمشنر کے طور پر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، مگر میرے ساتھیوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ خالصتان کے حامی کینیڈا میں کیا کر رہے ہیں، اور یہ ہمارے قومی مفاد سے متعلق ہے۔‘

’اگر کینیڈا کے رہنما یہ نہیں جانتے کہ ہمارے دشمن یہاں کیا کر رہے ہیں تو مجھے افسوس ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں نہیں جانتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم اخبارات پڑھتے ہیں، پنجابی سمجھتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے کیا کر رہے ہیں۔ میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ انڈیا کسی کے قتل میں ملوث نہیں ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ میں نجر یا کسی اور کے قتل کی مذمت کرتا ہوں۔‘

سنجے کمار ورما نے مزید کہا کہ ’ہمیں انڈیا اور کینیڈا کے تنازع کی جڑ تک جانا ہوگا، اس کے لیے کینیڈا کو شواہد ہمارے ساتھ شیئر کرنے چاہئیں۔ ہم نے جو 26 ڈوزیئر کینیڈا کے ساتھ شیئر کیے ہیں، ان کا کیا ہوا؟‘

انڈیا سے وابستہ کچھ لوگوں کے خلاف امریکہ میں محکمہ انصاف کی طرف سے دائر کیس کے بارے میں ورما نے کہا کہ مقدمہ چلانے کا مطلب سزا یا جرم کا ثابت ہونا نہیں ہے، اس لیے منطقی طور پر اس کیس کو عدالت میں آگے بڑھنے دینا چاہیے۔

خیال رہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے ایک سرکردہ سکھ رہنما تھے جو انڈیا کی پنجاب ریاست میں سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے حامی تھے جبکہ انڈیا نے انہیں ایک مفرور دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔

بہرحال، اس انٹرویو کے آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ تنازع انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تجارت، مواصلات، تعلیم اور ثقافتی تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا، مگر گذشتہ دنوں انڈین وزیر خارجہ اور انڈین وزیر اعظم کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید نہیں نظر آتی۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...