قتل عام کے مجرموں سے اولمپک چیمپئن تک: روس کس طرح خطرناک مجرموں کو رہا کر کے فوجیوں کی کمی کو پورا کر رہا ہے؟

28 مارچ کو صبح 6:45 بجے پولیس آندرے پرلوف کے گھر پہنچی۔ آندرے جم جانے کے لیے صبح جلدی اُٹھنے کے عادی تھے، اس لیے پولیس اہلکاروں کو انھیں جم سے واپس لانے کے لیے بھیجا گیا تاکہ اُن کے گھر کی تلاشی لی جا سکے۔
اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے نووسیبرسک فٹ بال کلب کو تقریباً 30 لاکھ روبل یعنی 32 ہزار ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ آندرے پرلوف نووسیبرسک فٹ بال کلب کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔
اُن کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اُن کا جُرم صرف اتنا تھا کہ انھوں نے بچوں کو گراؤنڈ میں بلامعاوضہ کھیلنے کی اجازت دی اور یہ کہ اُن سے صرف کوچنگ اور ٹریننگ کا معاوضہ وصول کیا نہ کہ گراؤنڈ میں کھیلنے کی فیس۔ آندرے پرلوف پر الزام لگانے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے پیسے وصول تو کیے مگر وہ کلب کے بجائے اُن کی اپنی جیب میں گئے۔
62 سالہ پرلوف اولمپک گولڈ میڈلسٹ ہیں جنھوں نے سنہ 1992 میں 50 کلومیٹر طویل ٹریک پر تیز چلنے کا مقابلہ جیتا تھا۔ اِن الزامات کے باعث وہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں اور اُن کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اُن پر یوکرین کے ساتھ جاری جنگ میں حصہ لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
انھیں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں حصہ لیتے ہیں تو بدلے میں اُن کے خلاف غبن کے مقدمے کی کارروائی روک دی جائے گی اور جنگ کے اختتام پر ممکنہ طور پر انھیں رہا کر دیا جائے گا۔
اُن کی بیٹی علینہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد نے مقدمہ ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اور ہم نے مقامی میڈیا کو اس کے بارے میں سب بتایا ہے کہ اُن سے کیا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہمارے اس شور شرابے کی وجہ سے انھیں سخت سزا دی جا رہی ہے۔‘ پرلوف کی بیٹی علینہ کہتی ہیں کہ ’جب میرے والد نے جنگ میں جانے سے دوسری مرتبہ انکار کیا تو انھیں اپنے اہلخانہ سے ملنے یا فون پر بات کرنے سے بھی روک دیا گیا۔‘
یاد رہے کہ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے کہ قیدیوں کو یوکرین میں لڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے لیکن Uses in Urdu کے تجزیے سے یہ بات بھی کُھل کر سامنے آئی ہے کہ کس طرح سے یوکرین میں جنگ پر جانے کے لیے سب سے پہلے سخت جرائم میں سزا پانے والے اور پرتشدد مجرموں کو بھرتی کیا گیا ہے۔
تازہ ترین قوانین میں اب استغاثہ اور دفاع کے وکلا کو بڑے واضح انداز میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ریاست کی قید میں موجود تمام جرائم میں سزا کاٹنے والے ملزمان کو مطلع کریں کہ اُن کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو وہ جنگ میں جائیں یا پھر ایسا نہ کرنے کی صورت میں عدالتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
مارچ 2024 میں منظور ہونے والے اس قانون کا مطلب ہے کہ اگر ملزمان جنگ میں جانے کی حامی بھرتے ہیں تو پھر اُن کے خلاف مقدمات پر کارروائی روک دی جائے گی اور ان کے مقدمات جنگ کے اختتام پر ختم کر دیے جائیں گے۔
قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رشیا بہائینڈ بارز‘ کی ڈائریکٹر اولگا رومانووا کہتی ہیں کہ ’اس نئے قانون نے روس کے نظامِ عدل کو تباہ کر دیا ہے۔‘
وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پولیس اہلکار کسی ایسے شخص کو اُس شخص کی لاش کے قریب سے گرفتار کر لیتے ہیں کہ جسے اُس نے کُچھ ہی دیر قبل قتل کیا ہو۔ وہ اُسے گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا ہی رہے ہوں تو قاتل پولیس والوں سے کہے کہ ’اوہ زرا رُک جاؤ، میں ایک خصوصی فوجی آپریشن پر جانا چاہتا ہوں،‘ اور بس اس سب کے بعد وہ فوجداری مقدمہ بند کر دیتے ہیں۔‘
ہمیں ایک تفتیش کار کی لیک ہونے والی ایسی ریکارڈنگ ملی ہے کہ جس میں وہ روسی فوج کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد ایک ایسے قیدی کی بیوی کو بتا رہے تھے کہ جنھیں چوری کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔
اُس تفتیشی افسر نے انھیں بتایا کہ 'اس کام کے لیے تو اُنھیں دیگر جرائم پیشہ لوگ بھی مل سکتے ہیں مگر انھیں نے پرلوف کو اس معاہدے پر دستخط کے لیے ایک موقع فراہم کیا۔ اگر ان کی درخواست منظور ہو جاتی ہے تو وہ جنگ پر چلے جائیں گے اور ہم اُن کے کیس بند کر دیں گے۔'
اگر ملزم دستخط کرتا ہے تو چند دنوں کے اندر فوجداری مقدمہ معطل کر دیا جاتا ہے، ملزم کو رہا کر دیا جاتا ہے اور تقریباً فوری طور پر انھیں جنگی محاذ پر روانہ ہونا ہوتا ہے۔ روس میں کام کرنے والے تین وکلا نے تصدیق کی ہے کہ ملک بھر میں اب یہ معمول بن گیا ہے۔
کچھ لوگ جیل اور مجرمانہ ریکارڈ سے بچنے کی اُمید میں معاہدے پر دستخط کرتے ہیں لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، جیسا کہ نوجوان یاروسلاو لیپاوسکی کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ آسان نہیں۔ انھوں نے اس وقت ایک معاہدے پر دستخط کیے جب ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے 'جان بوجھ کر کُچھ لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچایا۔'
یاروسلاو لیپاوسکی کی نوجوان گرل فرینڈ کو ابھی اس بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ حاملہ ہیں، تاہم قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے لیپاوسکی نے 18 سال کے ہوتے ہی سزا کاٹنے کی بجائے جنگ پر جانے کا معاہدہ کر لیا۔
فوج کے ساتھ معاہدے کے ایک ہفتے کے بعد وہ روسی فوج میں شامل ہو کر یوکرین چلے گئے جہاں اُن کی موت ہو گئی۔ یاروسلاو لیپاوسکی جنگ میں ہلاک ہونے والے کم عمر فوجیوں میں سے ایک ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ جرائم میں ملوث کتنے افراد نے مقدمے کا سامنا کرنے کے بجائے جنگ پر جانے اور لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن پالیسی میں یہ تبدیلی اس بات کو ضرور ظاہر کرتی ہے کہ روسی فوج میں افرادی قوت کو بڑھانے کی اب ضرورت پیش آ رہی ہے۔
کیا روسیوں کو مجرموں کی پرواہ ہے یا اُن لوگوں کی جو جیل میں ہیں؟ کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے فوجی تجزیہ کار مائیکل کوفمین کہتے ہیں کہ 'ممکنہ طور پر حکومت یہ فرض کر لے گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے مر جانے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور ایسا کرنے سے ان کی مجموعی معیشت پر کوئی منفی اثر بھی نہیں پڑے گا۔'
جب ویگنر گروپ نے پہلی بار جیل سے قیدیوں کو بھرتی کیا تو اُن کے سابق رہنما یوگینی پریگوژن نے انتہائی سخت سکیورٹی والی جیلوں میں قیدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں معافی کے بدلے ان کی 'مجرمانہ صلاحیتوں' کی ضرورت ہے۔
Uses in Urdu اور روسی ویب سائٹ 'میڈیازونا' نے ایسی خفیہ دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور ان کی تصدیق بھی کی ہے جو قیدیوں کی بھرتی کے عمل، بھرتی کیے گئے قیدیوں کی دوران ڈیوٹی کارروائیاں، روس کو نئے جنگجوؤں کی ضرورت اور فراہمی کو برقرار رکھنے کا احاطہ کرتی ہے۔
یوکرین میں ہلاک ہونے والے مجرموں کے ڈاگ ٹیگز اور ان کے اہلخانہ کو ملنے والی مراعات کا تجزیہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ویگنر گروپ نے تقریبا 50،000 قیدیوں کو بھرتی کیا، اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہر روز جنگ میں 200 تک لوگ ہلاک اور متعدد زخمی ہو رہے تھے۔
تمام قیدیوں کے ڈاگ ٹیگز انگریزی کے حروفِ تہجی 'کے' سے شروع ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے 'کولونیا' یا جیل کے باسی ہے۔ پہلے تین نمبر اس جیل کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں سے ان قیدیوں کو لایا گیا آئے تھے اور آخری تین نمبروں میں بھرتی ہونے والوں کی شناخت موجود ہوتی ہے۔
ہلاک ہو جانے والوں کے لواحقین کو ملنے والے معاوضے کی ادائیگیوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف جولائی 2022 اور جون 2023 کے درمیان مشرقی یوکرین کے بخموت شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش میں 17 ہزار سے زیادہ قیدی مارے گئے تھے۔
اس بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے ویگنر اور روسی وزارت دفاع نے بھرتی کی نئی حکمت عملی کو اپنایا ہے تاکہ لوگوں کی فوج میں شمولیت کو بڑھایا جا سکے۔
جیل میں موجود یا اپنے مقدمات کا سامنا کرنے والے ملزمان میں سے چند نئے معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ اصولی طور پر جنگ کے خلاف ہیں، کچھ اس وجہ سے انکار کرتے ہیں کہ میدان جنگ میں مرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور کچھ اس وجہ سے کہ وہ جنگ پر جانے کی بجائے اپنے مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔
آندرے پرلوف کے اہلخانہ کو اب بھی اُمید ہے کہ وہ ایک دن اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن آخری بار جب علینہ نے جولائی کے وسط میں اپنے والد کو عدالت میں دیکھا تھا تو وہ بہت زیادہ کمزور ہو چُکے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ خود کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر ان کے ساتھ یہ سب جاری رہا تو یہ انھیں توڑ دیں گے۔‘
ہم نے روسی حکام سے آندرے پرلوف کے معاملے کے بارے میں پوچھا اور اس بارے میں بھی کہ کیا وہ قیدیوں پر فوج میں شامل ہونے کے لیے غیر منصفانہ طور پر دباؤ ڈال رہے ہیں؟ تاہم روسی انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔