بھارت میں دس سال پرانے کیس میں 98 افراد کو عمر قید کی سزا: ‘رحمدلی کرنا انصاف کا قتل ہوگا’
انڈین ریاست کرناٹک کی ایک ضلعی عدالت نے دلتوں پر اجتماعی مظالم کے جرم میں 98 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جج نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ دلتوں اور قبائلیوں کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود یہ برادری آج بھی انتہائی کمزور اور دبی ہوئی ہے۔
دلتوں کے خلاف ذات پات پر مبنی اجتماعی مظالم کے کسی ایک واقعے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سزا دینے کا یہ نایاب فیصلہ ہے۔
کرناٹک کے کوپل ضلع میں سیشن جج سی چندر شیکھر نے جمعرات کے روز دس برس پرانے اس مقدمے میں 98 افراد کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اس مقدمے میں ایسے کوئی حقائق نظر نہیں آئے جن کی بنیاد پر سزا دینے میں کسی طرح کے رحم کو جائز ٹھہرایا جا سکے۔ اس معاملے میں کسی طرح کی رحمدلی کا اظہار انصاف کے قتل کے مترادف ہو گا۔‘
جج نے 171 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ ’حملے میں زخمی ہونے والے سبھی مرد اور خواتین کا تعلق دلت برادری سے تھا۔ ملزموں نے خواتین کی بے حرمتی کی، متاثرین کو لاٹھیوں اور اینٹوں سے مار کر زخمی کیا۔ مجھے اس معاملے میں کم سزا دینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔‘
لیکن 10 برس قبل ہونے والے اس واقعے میں ایسا کیا ہوا تھا کہ عدالت کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سزا سنانی پڑی؟
’دلتوں کو بری طرح مارا گیا اور پھر ان کے گھروں کو آگ لگا دی‘
اونچی ذات کے ہندوؤں اور دلتوں کے درمیان تصادم کا یہ واقعہ اکتوبر سنہ 2014 کا ہے۔
10 برس قبل ہونے والے اس واقعہ میں کرناٹک کے کوپل ضلع کے موراکومبی گاؤں میں دلتوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کھینچ کر زدوکوب کیا گیا تھا اور 30 سے زیادہ دلت زخمی ہوئے تھے۔
اس گاؤں میں ایک عرصے سے کشیدگی چلی آ رہی تھی۔ اسی کشیدہ ماحول میں 28 اکتوبر کے دن اونچی ذات کے ہندوؤں نے گاؤں میں واقع ریستوران اور نائی کی دکانوں میں دلتوں کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔
حالات خراب ہوتے دیکھ کر پولیس کی ایک ٹیم گاؤں پہنچی اور پاس میں واقع گنگاوتی دیہی پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا لیکن اسی روز گنگاوتی کے سنیما گھر میں دلتوں اور اونچی ذات کے لوگوں میں ٹکٹ یا سیٹ کو لے کر بحث و تکرار ہوئی جو مار پیٹ کا رخ اختیار کر گئی۔
اونچی ذات کے بعض ہندوؤں نے اپنی برادری کو یہ کہہ کر مشتعل کیا کہ ان پر موراکومبی گاؤں کے دلتوں نے حملہ کیا اور مارا پیٹا۔
ایک متاثرہ دلت نے پولیس میں درج کرائی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسی رات اونچی ذات کے لوگ لاٹھیوں، اینٹوں اور پتھر لے کر بستی کے پاس ایک مندر میں جمع ہوئے۔ ان لوگوں نے صبح چاربجے کے آس پاس ذات پات پر مبنی ذلت آمیز گالیاں دیتے ہوئے دلتوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔
حملہ آوروں نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت بستی کے سبھی دلتوں کو بری طرح مارا اور اس کے بعد ان کے گھروں کو آگ لگا دی۔ اس حملے کے بعد سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی اور متاثرہ گاؤں میں تین مہینے تک پولیس تعینات رہی۔
اس معاملے میں 117 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے 101 افراد کو حملے کا قصوروار پایا۔
عدالت نے اونچی ذات کے 98 ہندوؤں کو عمر قید کی سزا سنائی اور پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
باقی تین ملزموں کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ انھیں پانچ پانچ برس قید اور 2 ہزار روپے کے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
’طویل لڑائی کی جیت‘
10 برس قبل ہونے والے اس واقعے کے بعد کرناٹک میں دلت تنظیموں نے جگہ جگہ مظاہرے کیے تھے اور ریاستی دارالحکومت تک مارچ کیا تھا۔
یہ مقدمہ تقریباً دس برس تک چلا۔ عدالت کے فیصلہ کو خطے میں ذات پات پر مبنی مظالم کے خلاف جدوجہد میں ایک تاریخی لمحہ تصور کیا جا رہا ہے۔ دلت تنظیموں نے عدالت کے فیصلے کی ستائش کی ہے۔
موروکومبی گاؤں کے ایک دلت رہنما جے باسوراجا نے کہا کہ ’یہ فیصلہ ایک سنگ میل ہے۔ یہ اس بات کا عکاس ہے کہ قانون ان لوگوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے جو ذات پات کی بنیاد پر تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ اس طرح کے تشدد کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ یہ ہماری طویل لڑائی کی جیت ہے۔‘
کرناٹک کا کوپل ضلع ریاست کے پسماندہ ترین ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ضلع ذات پات پر مبنی کشیدگی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔