کینیڈا کے امیگریشن ویزے کی محدودیت پر پاکستانیوں کی تشویش: ‘میں بہت پُرامید تھا، لیکن اب میں نہیں جانتا کہ کیا کروں’
"میں تربیت یافتہ ڈاکٹر ہوں اور کینیڈا کے مستقل ویزے کے لیے تقریباً ایک سال سے درخواست جمع کروا رکھی ہے۔ اب سنا ہے کہ کینیڈا نے مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کے ویزوں میں کمی کا اعلان کیا، تو مجھے کچھ پریشانی ہے۔ مجھے تو بڑی امید تھی کہ میرا مستقل ویزہ لگ جائے گا۔"
یہ کہنا ہے خاتون ڈاکٹر نوشین جمال (فرضی نام) کا جنھوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے کئی منصوبے سوچ کر امیگریشن کے لیے گزشتہ سال اپلائی کیا تھا۔
تاہم کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو حکومت نے امیگریشن کی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کا اعلان کرتے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا ہے اور اس کی وجہ آبادی میں اضافہ کو روکنا بتایا گیا ہے۔
تبدیل شدہ پالیسی کے مطابق اب کینیڈا نے 2025 تک مستقل ویزے کا ہدف پانچ لاکھ سے کم کرکے تین لاکھ 95 ہزار کردیا ہے، جو کہ پہلے کے مقابلے میں 21 فیصد کم ہے۔
اس اعلان نے امیگریشن کے خواہشمند ان تمام افراد کے لیے پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے جنھوں نے کینیڈا میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
ڈاکٹر نوشین جمال کہتی ہیں کہ انھوں نے کینیڈا کے مستقل ویزہ کے لیے کافی وقت لگا کر اپلائی کیا تھا اور مستقبل کی ساری منصوبہ بندی کینیڈا ہی میں رہائش اختیار کرنا تھی۔
"میرے بھائی پہلے ہی کینیڈا میں جا کر سیٹ ہوچکے تھے۔ اب اگر کینیڈا حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے اور مجھے ویزہ نہ ملا تو اس کا میرے اور میرے خاندان کے لیے کافی منفی اثرات ہوں گے۔"
اسی طرح کی صورتحال محمد نذر تنولی کے ساتھ بھی ہے۔
محمد نذر نے انگلش زبان میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی الیکڑیشن کا کورس کیا ہے۔ مطلوبہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد کینیڈا کی امیگریشن کے لیے درخواست جمع کروائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "میں تو بڑا پر امید تھا اور مختلف ویب سائیڈز پر بھی دیکھا تھا کہ کینیڈا میں الیکڑیشن کی ملازمتیں بآسانی مل جاتی ہیں، مگر اب یک دم ہی کہا جارہا ہے کہ ویزوں کی تعداد کم ہوچکی ہے یا ویزے نہیں دیے جارہے، تو سمجھ نہیں آتا کہ میں اب کیا کروں گا۔"
یاد رہے کہ کینیڈا کی امیگریشن پالیسی میں مستقل رہائشی ویزہ دیا جاتا ہے، جس کے لیے عموماً پاکستان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بڑی تعداد میں درخواستیں جمع کرواتے ہیں۔
اس وقت بھی پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک کے شہریوں کی کینیڈا کے سفارت خانوں میں بڑی تعداد میں درخواستیں موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریباً 15 لاکھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے درخواستوں پر فیصلے سامنے آئیں۔
2027 تک مستقل ویزہ کی تعداد میں مزید کمی
Uses in Urdu کی ایک رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو اور کینیڈا کے وزیر برائے امیگریشن مارک ملر نے مستقل ویزوں کی تعداد میں مزید کمی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 2027 تک مستقل ویزوں کی تعداد کم کرکے تین لاکھ 65 ہزار کر دی جائے گی۔
اس کمی کی وجہ بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے کہا ہے کہ یہ کمی اگلے دو سالوں میں کینیڈا میں آبادی کو بڑھنے سے روک دے گی، جس سے صوبوں کو اپنے صحت اور ہاؤسنگ کے پروگرام کو بہتر کرنے کے لیے وقت ملے گا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے مستقل ویزہ کی تعداد میں مزید کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وبائی مرض COVID9 کے بعد جب ملک میں ملازمتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جو امیگریشن پالیسی بنائی گئی، اس کی سمت درست نہیں تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 'کینیڈا کو اپنے امیگریشن کے پروگرام پر فخر ہے جس نے ملک کی معیشت کو بہتر کر کے متنوع کمیونٹی کو فروغ دیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'کینیڈا کا امیگریشن سسٹم بہت شاندار ہے اور اپنے اندر تارکین وطن کے لئے لچک رکھتا ہے۔ مگر ہم وبا کے بعد ملک میں ملازمتوں کی ضرورت کو پورا کرنے اور آبادی میں اضافے کا توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔'
بعض جائزوں کے مطابق اس وقت کینیڈا میں امیگریشن کے لئے رائے عامہ کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے سماجی اور رہائش کی سہولتوں پر اثرات مرتب ہونا ہے۔
واضح رہے کہ کینیڈا کی مستقل ویزوں کی پالیسی سے پہلے ہی بین الاقوامی طلبا اور عارضی کارکنان یا وقتی ورک ویزہ کی تعداد کو کم کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب میں ایک اور بہترین فیچر کے اضافے کا فیصلہ
کینیڈا کی آبادی میں کتنا اضافہ
کینیڈا کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کینیڈا کی آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ تارکین وطن تھے جن کی تعداد 97 فیصد ہے۔
اس کے ساتھ کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد تک بڑھ چکی ہے جو کہ نوجوان لوگوں میں 14 فیصد ہے۔
ٹروڈو حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کینیڈا نے 2015 میں ویزوں کا ہدف دو لاکھ 72 ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ 85 ہزار کر دیا تھا جبکہ 2021 میں کورونا وبا کے بعد اس میں بڑا اضافہ کیا گیا تھا۔
حکومت کو گھروں، صحت، سماجی خدمات کی سہولتوں میں اضافے کے بعد اتنا اضافہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں اینو ائرونکس رائے عامہ کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 58 فیصد کینیڈین شہری محسوس کرتے ہیں کہ 1977 کے مقابلے میں اب امیگریشن کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی رائے میں امیگریشن پالیسی کو اب مؤثر نہیں بلکہ مسائل سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملتان ٹیسٹ، چوتھے دن کا کھیل ختم، پاکستان پر شکست کے بادل منڈلانے لگے
کیا حقیقت میں تارکین وطن پر فرق پڑے گا
اس وقت کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 6.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور نوجوانوں میں یہ شرح 14 فیصد تک ہے۔
تاہم دوسری جانب تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے تارکین وطن کی تعداد کو کم کرنے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
امیگرینٹ رائیٹس نیٹ ورک کے مطابق یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
ان کے مطابق کینیڈا میں گھروں کی کمی یا سماجی صحت عامہ کی سہولتوں میں کمی کے ذمہ دار تارکین وطن نہیں ہیں۔
امیگرینٹ رائٹس نیٹ ورک کے مطابق یہ مسائل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دہائیوں سے پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں موجود کئی ویزہ کنسلٹنٹ کی رائے ہے کہ ڈاکٹر نوشین جمال اور محمد نذر تنولی جیسے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اگر کینیڈا جا رہے ہیں تو ان کو اس نئی پالیسی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہنر مندوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے زیادہ بہتر راستے پیدا ہوں گے۔
عبدل ریحان سن کنسلٹنٹ کمپنی میں کئی سالوں سے کینیڈا ویزہ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کینیڈا کی معیشت سالانہ 18 فیصد کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے جس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ کینیڈا میں ہر سال 18 فیصد ملازمتوں کے مواقع بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم تھی اگر اب یہ تقریباً چھ فیصد بھی ہو چکی ہے تو یہ زیادہ بڑا فرق نہیں ہے بلکہ اس وقت کینیڈا کی جی ڈی پی گروتھ تیزی سے اوپر جارہی ہے۔
کینیڈا پہلے ہی ٹارگٹ پورا نہیں کررہا تھا۔
عبدل ریحان کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت کینیڈا پہلے ہی مستقل ویزے کا اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کررہا تھا۔
2023 میں یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوا ہے اور تقریباً اتنا ہی ہدف سے کم ہوا ہے جتنا اب کینیڈا کی حکومت نے اپنے اہداف کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری دنیا میں مختلف قسم کے ویزوں کی تقریباً 15 لاکھ درخواستیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ویزوں کی درخواستوں پر فیصلے کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔
عبدل ریحان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو بظاہر لگ رہا ہے کہ کینیڈا کی امیگریشن پالیسی میں بظاہر کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے۔
اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب سیاحتی، طالب علم اور ورک پرمٹ پر جانے والوں کے لیے کچھ مسائل ہوں گے اور ان کے لیے اب وہاں پر جا کر کام کرنا یا مستقل رہائش اختیار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے ان لوگوں کو ضرور فرق پڑسکتا ہے جو کسی خاص شعبے میں ہنر مند نہیں ہیں جیسے کہ کوئی دفتری کام کرنے والے، بھلے وہ بے شک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا مارکیٹنگ سمیت عام سمجھا جاتا ہے، ان پر ضرور فرق پڑے گا۔
عبدل ریحان کے مطابق اب بھی 2027 تک جتنی بڑی تعداد میں ویزے جاری کرنے کا کہا گیا ہے وہ 2015 کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔
تاہم کچھ پالیسیاں پہلے ہی تبدیل ہوچکی ہیں، جیسے سٹوڈنٹس ویزہ وغیرہ۔
90 فیصد سیاحتی ویزے مسترد ہورہے ہیں
منیب احسان کینیڈا پرائم امیگریشن کے ساتھ منسلک ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تبدیلیاں تو کافی عرصے سے کی جارہی ہیں۔ پہلے سٹوڈنٹس ویزے، عارضی ویزے یا سیاحتی ویزے پر جانے والے کینیڈا ہی میں جا کر اپنا ویزہ کی نوعیت کو تبدیل کروا لیتے تھے۔
یعنی وہ مستقل ویزہ حاصل کر لیتے تھے۔ طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں سے مستقل ویزہ حاصل کر لیتے تھے۔ مگر اب یہ ممکن نہیں رہے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود مختلف انفراسٹرکچر پر بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔
’اب کینیڈا کہتا ہے کہ میں تارکین وطن کا استقبال کرتا ہوں مگر مستقل ویزے کے لیے صرف ان ہی شعبوں کے لوگوں کو بلایا جائے گا جہاں کینیڈا میں ملازمتیں موجود ہوں گی۔‘
’ہمارے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ اس وقت پاکستانیوں کے لیے کینیڈا کے سیاحتی ویزے مسترد ہو رہے ہیں جبکہ مستقل ویزے دیے جا رہے ہیں۔‘
منیب احسان کا کہنا ہے کہ اس وقت کینیڈا میں مستقل ویزہ صرف بعض مخصوص شعبوں میں مطلوبہ معیار اور قابلیت پوری کرنے والوں کو دیا جا رہا ہے، جیسے کہ میڈیکل کے شعبے سے متعلق افراد، انجینئرز، ہنر مند افراد جیسے پلمبر، الیکٹریشن، تعمیراتی ماہر راج مستری وغیرہ۔ ان ہنر مند افراد کو ویزے حاصل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ کینیڈا اب صرف ان ہی لوگوں کو ویزہ دے رہا ہے جو جا کر اس کی معیشت کو بہتر بنائیں گے، نہ کہ بوجھ ڈالیں گے۔