پرویز مشرف نے وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اقدام کیا تو چیف جسٹس نے فُل کورٹ کے ہمراہ کیس کی سماعت کی اور اس تبدیلی کو کامیاب انقلاب تسلیم کر لیا

مصنف کا تعارف
جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
یہ بھی پڑھیں: جہاز دریائے نیل کیساتھ ساتھ اسوان کی طرف روانہ ہوا۔ نیچے کرناک مندر کے کھنڈرات اور بادشاہوں اور ملکاؤں کی وادیاں دھوپ میں چمکتی نظر آ رہی تھیں
قسط: 66
یہ بھی پڑھیں: دبنگ خان نے جنگ بندی سے متعلق ایسا کیا لکھا دیا کہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑگئی۔۔؟جانیے
کارگل کی جنگ کا پس منظر
کارگل پر ہونے والی جنگ کے بارے میں بھارتی فلم انڈسٹری نے بیسیوں فلمیں بنائی ہیں، اور پاکستان میں بھی ذرائع ابلاغ نے اسے پاکستان کی شکست اور بھاری جانی و مالی نقصان کے طور پر بیان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مراد سعید کو 60 دن میں حلف نہ لینے پر نشست سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، مرتضیٰ سولنگی
وزیراعظم کا کردار
وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف کو چاہئے تھا کہ وہ اس کی انکوائری کے لئے ایک اعلیٰ سطحی فوجی کمیشن بناتے اور سول حکام کو بھی شامل کرتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کارگل کا مسئلہ حل کرنے کے لئے امریکہ جا کر صدر کلنٹن سے درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے جی 7 رہنماؤں سے ایران اسرائیل سیز فائر کیلئے بات کی ہے: فرانسیسی صدر
امریکی صدر سے ملاقات
وزیراعظم نے بظاہر صدر کلنٹن سے ملنے کی کوشش کی، مگر اس اچانک اور غیر طے شدہ ملاقات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ امریکہ سے واپس آ کر، وزیراعظم نے چیف آف دی آرمی سٹاف کو جائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین کا اضافی عہدہ دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: میا خلیفہ کی عمر درازی کیلئے ورت رکھنے والے بزرگ کی ویڈیو وائرل
وزیراعظم اور آرمی چیف کے تعلقات
اس تمام کے بعد یہ ظاہر تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین تعلقات معمول پر آگئے ہیں، مگر حقیقت میں وہ نارمل نہیں تھے۔ وزیراعظم نے اصرار کر کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو ایک سرکاری دورہ پر روانہ کیا، اور ان کے جاتے ہی ایک نیا آرمی چیف تلاش کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہنی ٹریپ کیس، خلیل الرحمان قمر ایک مرتبہ پھر عدالت پہنچ گئے
آرمی چیف کی برطرفی
اپنے ہی منتخب کردہ آرمی چیف کو غیر ملکی دورہ کے دوران اچانک بغیر کسی انکوائری اور چارج شیٹ برطرف کرنا، آرمی کے دوسرے اعلیٰ حکام کے لئے حیران کن تھا۔ یہ ایک بے قاعدگی تھی، اور وزیراعظم نواز شریف کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین کیلئے پنشن میں سالانہ اضافہ ختم کردیا، مراسلہ جاری
آئینی اختیارات کا استعمال
وزیراعظم میاں نواز شریف کو اختیار تھا کہ وہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیتے اور جنرل پرویز مشرف کو سامنے بٹھا کر الزامات عائد کرتے، مگر باضابطہ اور قانونی طریقہ کار نظر انداز کیا گیا۔ دنیا کا کوئی وزیراعظم اپنے آئینی اختیارات کو اس طرح بے محابا استعمال نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی اخبار کی 30 برس بعد ٹرمپ یا کملا کی توثیق سے معذرت، ایڈیٹر مستعفیٰ
نتیجہ
اس بے احتیاطی کا نتیجہ میاں نواز شریف کو دہائیوں تک بھگتنا پڑا۔ سات سال وہ جلاوطن رہے اور مزید تین برس وہ اقتدار اور اسمبلی سے دور رہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز سے پاکستان میں تعینات آئرلینڈ کی پہلی ریزیڈنٹ سفیر میری او نیل کی ملاقات
مقدمہ اعلیٰ عدلیہ میں
جنرل پرویز مشرف اور اُن کے ساتھیوں نے وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اقدام کیا تو مقدمہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پہنچ گیا۔ اُس وقت کے چیف جسٹس نے فُل کورٹ کے ہمراہ کیس کی سماعت کی اور جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں آنے والی تبدیلی کو ایک کامیاب انقلاب تسلیم کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ
اعلیٰ عدلیہ کا رویہ
اعلیٰ عدلیہ کا یہ رویہ پاکستانی عوام کے لئے نیا نہ تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فورم پر مسٹر جسٹس افتخار چودھری بھی شامل تھے جو بعد میں چیف جسٹس ہوئے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔