پرویز مشرف نے وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اقدام کیا تو چیف جسٹس نے فُل کورٹ کے ہمراہ کیس کی سماعت کی اور اس تبدیلی کو کامیاب انقلاب تسلیم کر لیا

مصنف کا تعارف
جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
یہ بھی پڑھیں: معروف میڈیا ہاؤس کے مالک ’سلمان فاروقی‘ کا گاڑی سے ٹکر مارنے پر نوجوان پر تشدد، شرمناک ویڈیو وائرل
قسط: 66
یہ بھی پڑھیں: چینی وزیر خارجہ کی اسحاق ڈار سے ملاقات، پاکستان کیساتھ مل کر چلنے کا اعادہ
کارگل کی جنگ کا پس منظر
کارگل پر ہونے والی جنگ کے بارے میں بھارتی فلم انڈسٹری نے بیسیوں فلمیں بنائی ہیں، اور پاکستان میں بھی ذرائع ابلاغ نے اسے پاکستان کی شکست اور بھاری جانی و مالی نقصان کے طور پر بیان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ایئر لائن کے جہاز کا پورا عملہ ہی دوران پرواز سو گیا پھر کیا ہوا؟ حیران کن انکشاف
وزیراعظم کا کردار
وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف کو چاہئے تھا کہ وہ اس کی انکوائری کے لئے ایک اعلیٰ سطحی فوجی کمیشن بناتے اور سول حکام کو بھی شامل کرتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کارگل کا مسئلہ حل کرنے کے لئے امریکہ جا کر صدر کلنٹن سے درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ سے ایک ہزار سے زائد بھارتی شہری ملک بدر
امریکی صدر سے ملاقات
وزیراعظم نے بظاہر صدر کلنٹن سے ملنے کی کوشش کی، مگر اس اچانک اور غیر طے شدہ ملاقات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ امریکہ سے واپس آ کر، وزیراعظم نے چیف آف دی آرمی سٹاف کو جائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین کا اضافی عہدہ دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب
وزیراعظم اور آرمی چیف کے تعلقات
اس تمام کے بعد یہ ظاہر تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین تعلقات معمول پر آگئے ہیں، مگر حقیقت میں وہ نارمل نہیں تھے۔ وزیراعظم نے اصرار کر کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو ایک سرکاری دورہ پر روانہ کیا، اور ان کے جاتے ہی ایک نیا آرمی چیف تلاش کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر ہاؤس سے ڈراتے ہو، گورنر راج لگانا ہے تو لگاؤ، چیلنج دیتا ہوں : علی امین گنڈا پور کا خیبر پختونخوا اسمبلی سے پھر دبنگ انداز میں خطاب
آرمی چیف کی برطرفی
اپنے ہی منتخب کردہ آرمی چیف کو غیر ملکی دورہ کے دوران اچانک بغیر کسی انکوائری اور چارج شیٹ برطرف کرنا، آرمی کے دوسرے اعلیٰ حکام کے لئے حیران کن تھا۔ یہ ایک بے قاعدگی تھی، اور وزیراعظم نواز شریف کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے۔۔۔
آئینی اختیارات کا استعمال
وزیراعظم میاں نواز شریف کو اختیار تھا کہ وہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیتے اور جنرل پرویز مشرف کو سامنے بٹھا کر الزامات عائد کرتے، مگر باضابطہ اور قانونی طریقہ کار نظر انداز کیا گیا۔ دنیا کا کوئی وزیراعظم اپنے آئینی اختیارات کو اس طرح بے محابا استعمال نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں پلاسٹک کی بوتلیں جمع کرائیں اور 1000 روپے فوری پائیں، پنجاب حکومت کا معاہدہ طے
نتیجہ
اس بے احتیاطی کا نتیجہ میاں نواز شریف کو دہائیوں تک بھگتنا پڑا۔ سات سال وہ جلاوطن رہے اور مزید تین برس وہ اقتدار اور اسمبلی سے دور رہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق گورنر زبیر عمر کو پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے گرین سگنل مل گیا
مقدمہ اعلیٰ عدلیہ میں
جنرل پرویز مشرف اور اُن کے ساتھیوں نے وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اقدام کیا تو مقدمہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پہنچ گیا۔ اُس وقت کے چیف جسٹس نے فُل کورٹ کے ہمراہ کیس کی سماعت کی اور جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں آنے والی تبدیلی کو ایک کامیاب انقلاب تسلیم کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے پانی کے مسئلے پر اہم تجویز دیدی
اعلیٰ عدلیہ کا رویہ
اعلیٰ عدلیہ کا یہ رویہ پاکستانی عوام کے لئے نیا نہ تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فورم پر مسٹر جسٹس افتخار چودھری بھی شامل تھے جو بعد میں چیف جسٹس ہوئے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔