بوٹا سنگھ کی الم ناک کہانی: تقسیم میں کھوئی ہوئی محبت
بوٹا سنگھ کی زینب سے محبت کی کہانی
تقسیم کے بعد جو دردناک داستانیں سننے میں آئیں ان میں بوٹا سنگھ کی روداد بھی ناقابل فراموش ہے۔ جالندھر کے ایک کسان بوٹا سنگھ نے زینب کو بلوائیوں سے پندرہ سو روپے میں خرید کر اس کی جان بچائی تھی۔ اس کے بعد اس نے سکھوں کے رسم و رواج کے مطابق باقاعدہ اس سے شادی کر کے اپنی بیاہتا بیوی بنا لیا تھا۔ شادی کے گیارہ مہینے بعد زینب ایک لڑکی کی ماں بنی۔ بوٹا سنگھ نے اس کا نام 'تنویر' رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط کے مندرجات سامنے آگئے
تقسیم کے بعد کی مشکلات
چند سالوں کے بعد بوٹا سنگھ کے رشتہ داروں نے ان افسروں کو اطلاع دے دی جو فسادات کے زمانے میں اغوا کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کی تلاش میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بوٹا سنگھ کے شادی کرنے سے اس کے رشتہ دار اس کی جائیداد کے وارث بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ زینب کو بوٹا سنگھ سے چھین لیا گیا اور پاکستان میں اس کے رشتہ داروں کی تلاش شروع ہوئی۔ عارضی طور پر زینب کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ بوٹا سنگھ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ وہ فوراً دہلی چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
اسلام قبول کرنے کا فیصلہ
اس کے بعد اس نے وہ کام کیا جو کسی سکھ کے لیے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے لمبے بال کٹوا دیئے اور جامع مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا۔ اس کا نیا نام جمیل احمد رکھا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد بوٹا سنگھ پاکستان ہائی کمیشن پہنچا اور اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا لیکن اس کا یہ مطالبہ نامنظور کر دیا گیا کیونکہ دونوں ملک معاہدے کی اس شرط کی سختی سے پابندی کر رہے تھے کہ اغوا شدہ عورت خواہ کسی مذہب کے آدمی کے پاس سے برآمد ہو اور وہاں وہ خواہ کسی حیثیت سے رہ رہی ہو، اسے فوراً کیمپ پہنچا دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: وحشت سرائے فکر سے الجھوں گا ایک روز۔۔۔
زینب کی واپسی کا مطالبہ
جب اس عورت کے خاندان کا پتہ چل جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔ چھ مہینے تک بوٹا سنگھ روز اپنی بیوی سے ملنے کیمپ جاتا رہا۔ آخر وہ دن آہی گیا جب زینب کے رشتہ داروں کا پاکستان میں پتہ چل گیا۔ رخصت ہوتے وقت بوٹا سنگھ اور زینب ایک دوسرے سے رو رو کر ملے۔ زینب نے قسم کھائی کہ وہ اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ رہنے کے لیے بہت جلد واپس آئے گی۔
عدالت میں بوٹا سنگھ کی درخواست
بوٹا سنگھ نے ایک مسلمان کی حیثیت سے پاکستان ہجرت کرنے کی اجازت مانگی، لیکن اس کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔ اس نے ویزا مانگا جو اسے نہیں ملا۔ ہار کر بوٹا سنگھ نے اپنی بچی کو ساتھ لیا جس کا نیا نام 'سلطانہ' رکھا گیا تھا اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو گیا۔ سلطانہ کو لاہور میں چھوڑ کر وہ اس گاؤں کو روانہ ہوا جہاں زینب کے خاندان نے سکونت اختیار کی تھی۔
وہاں پہنچ کر بوٹا سنگھ کے دل کو انتہائی شدید صدمہ پہنچا۔ ہندوستان سے ٹرک میں بیٹھ کر زینب پاکستان کے اس گاؤں میں پہنچی ہی تھی کہ چند گھنٹوں کے اندر اس کی شادی ایک کے رشتہ دار سے کر دی گئی۔ بیچارہ بوٹا سنگھ روتا اور پیٹتا رہ گیا: "میری بیوی مجھے واپس کر دو، میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔"
زینب کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے مل کر بوٹا سنگھ کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیا کہ یہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے پاکستان میں داخل ہوا ہے۔ عدالت میں بوٹا سنگھ نے گڑگڑا کر کہا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کی بیوی اسے واپس کر دی جائے۔ اگر اسے ایک بار بیوی سے ملنے کا موقع دیا جائے تو وہ خود پوچھ کر تسلی کر لے گا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس جائے گی یا اپنی مرضی سے پاکستان میں رہنا چاہتی ہے۔ اس کی رقت آمیز التجا سے متاثر ہو کر عدالت نے اس کی درخواست منظور کر لی اور ایک ہفتہ بعد زینب کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا۔