مصر کے فاطمی حکمرانوں کا ایک قبرستان تھا جسے سلطان کے حکم پر تباہ و برباد کرکے کاروباری مرکز کی بنیاد رکھی گئی، اشیائے تجارت کی نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا

مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 45
یہ بھی پڑھیں: بچوں کی سکول پک اینڈ ڈراپ: عدالت کا اہم فیصلہ
بازار کی تاریخ
اندر داخل ہونے سے پہلے عبدو نے مجھے اس بازار کی تھوڑی بہت تاریخ سے آگاہ کیا۔ خیر وہ تھوڑی تو ہرگز بھی نہیں تھی، بہت زیادہ تھی جو وہ تاریخی اور حوالوں کے ساتھ فرفر بیان کیے جا رہا تھا۔ مجھے تو اس میں کام کی بس دو ہی باتیں سمجھ آئیں کہ یہاں پہلے مصر کے فاطمی حکمرانوں کا ایک قبرستان تھا جسے خلیلی نام کے ایک سلطان کے حکم پر تباہ و برباد کرکے وہاں ایک کاروباری مرکز کی بنیاد رکھی، جہاں باہر سے آنے والے تاجروں کے لئے کاروان سرائے تعمیر کی گئی اور پھر یہیں ان کی اشیائے تجارت کی نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پیر کے روز ملک میں موسم کیسا رہے گا؟ تفصیلات جانیے
تجارتی مرکز کی تعریف
ایسے تجارتی مرکز کو عربی زبان میں "خان" کہتے ہیں۔ سو میری یہ خوش فہمی تو دور ہوگئی کہ کوئی ہمارے ہی علاقے کے کسی خان کے نام پر یہ نام رکھا گیا تھا۔ تعمیر کے وقت یہ بازار خوبصورت داخلی دروازوں، ڈھکے ہوئے بازاروں اور محرابی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ جن میں سے کچھ عمارتوں کے آثار تو ابھی تک موجود ہیں۔ اس کے بعد متعدد دفعہ یہ علاقہ برباد ہوا اور ساتھ ساتھ اس کی تعمیر و تزین بھی ہوتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی پر ٹارچر کیا گیا، سلمان اکرم راجہ
دستکاری اور دلچسپ دکانیں
یہاں قاہرہ کی روایتی دستکاری کے شاہکار، فراعین مصر کے مدفنوں سے ملنے والے نوادرات کے ماڈل اور سیاحوں کی دلچسپی کی بے شمار دُکانیں ہیں۔ جہاں ہر وقت ان کا ایک ہجوم بھاؤ تاؤ کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ قالینوں، جڑی بوٹیوں، مصالحہ جات، خواتین اور بچوں کے ملبوسات، روایتی مصری جبوں اور پگڑیوں کے علاوہ وہاں سونے کا بھی ایک بازار ہے۔ جہاں خوبصورت سنہری زیورات دور سے ہی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ الیکٹرونک کی بھی دُکانیں ہیں جہاں ہر وقت بلند آواز میں موسیقی بجتی رہتی ہے۔ کلائی کی گھڑیوں کے علاوہ دیواروں پر نصب کیے جانے والے بڑے بڑے گھڑیال بھی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: زمین سے ملنے والے 20 ڈالر نے شہری کی زندگی بدل دی
غیر ملکی سیاحوں کے تجربات
بدقسمتی سے یہاں مارکیٹ میں تھوڑی بہت غیر ملکی زبانیں بولنے والے دلال بھی دندناتے پھرتے تھے جو مغرب سے آئے ہوئے معصوم اور بھولے بھالے سیاحوں کو میٹھی میٹھی باتوں سے بہلا پھسلا کر گھٹیا معیار کی جعلی اشیاء کو اصلی بتا کر خریداری کی ترغیب دیتے۔ پھر انتہائی جا ں فشانی سے دُکاندار کے ساتھ بحث و مباحثہ کرکے اپنے پہلے سے طے شدہ مول تول کروا کر ان کو مطلوبہ اشیاء دلوا دیتے تھے۔ بعد میں وہ سیاحوں سے اپنی بے لوث خدمات کے عوض بخشش اور دُکاندار سے اپنی دلالی وصول کرنا نہ بھولتے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر، فلسطین سمیت ہر ملک میں صحافیوں پر تشدد قابل مذمت ہے:مریم نواز
عطر کی خریداری کا تجربہ
اصلی عطر بھی یہاں بکثرت ملتا ہے۔ بس ہاتھ آگے بڑھا دیں، عطر فروش چھوٹی سی شیشیوں میں سے پلاسٹک کی سلائی پر ذرا سا عطر مس کرکے آپ کے ہاتھ پر لگا دیتا اور پھر اس کو رگڑ کر سونگھنے کا اشارہ کرتا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ گاہک کو اپنی مرضی کا عطر نہ مل جاتا۔ اپنی پسندیدہ خوشبو اور قیمت طے کرنے کے بعد وہ ایک ننھی سی خوبصورت شیشی میں مطلوبہ عطر ڈال کر گاہک کے حوالے کر دیتا۔
بازار کا ماحول
بڑے حصے پر چھت ہونے کی وجہ سے بازار کی راہداریوں میں قدرے اندھیرا اور ماحول پُرسکون رہتا تھا، تاہم دُکانوں کے اندر چکاچوند کر دینے والی روشنیاں ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کر دیتی تھیں。
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔