گناہ کی دلدل اور اس کا انجام: زناکاروں کے لیے سبق آموز اور عبرت ناک داستان
یک گاؤں میں رحیم نامی ایک محنتی اور ایمان دار نوجوان رہتا تھا، جس نے ہمیشہ انصاف اور حق کا ساتھ دیا۔ رحیم غریب تھا مگر اس کی دیانت اور اخلاق کے چرچے دور دور تک تھے۔ اسی گاؤں میں ایک امیر اور ظالم زمیندار بھی رہتا تھا جس نے اپنے پیسے اور طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کئی لوگوں کی زمینیں ہتھیا لی تھیں۔ اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا تھا، کیونکہ زمیندار نے سب کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔
ایک دن رحیم نے زمیندار کو ایک معصوم لڑکی کے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ رحیم کا ضمیر اس واقعے پر لرز اٹھا۔ اس کے دل میں آگ بھڑک اٹھی اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ظلم کو برداشت نہیں کرے گا۔ وہ فوراً گاؤں کے بزرگوں کے پاس پہنچا اور انہیں اس واقعے کے بارے میں بتایا۔ گاؤں کے لوگ زمیندار کے ظلم سے واقف تھے مگر خوف کی وجہ سے ہمیشہ خاموش رہتے تھے۔ رحیم نے ان کے سامنے تجویز رکھی کہ اگر ہم سب مل کر آواز اٹھائیں تو زمیندار کے خلاف کھڑا ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔
گاؤں والوں نے رحیم کی باتیں سنیں، مگر کچھ لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ اگر زمیندار نے انہیں نقصان پہنچا دیا تو کیا ہوگا۔ رحیم نے انہیں سمجھایا کہ برائی کے خلاف کھڑا ہونا ہماری ذمہ داری ہے، ورنہ ہمارا ضمیر ہمیشہ ہمیں ملامت کرے گا۔ بالاخر رحیم کی باتوں نے گاؤں والوں کے دل میں حوصلہ پیدا کیا اور انہوں نے اس کے ساتھ مل کر زمیندار کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
جب زمیندار کو گاؤں کے لوگوں کی بغاوت کا علم ہوا تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے اپنے غنڈوں کو رحیم کے پیچھے لگا دیا اور انہیں حکم دیا کہ رحیم کو اتنا سبق سکھائیں کہ کوئی اور اس کے خلاف کھڑے ہونے کا سوچ بھی نہ سکے۔ ایک رات زمیندار کے آدمیوں نے رحیم پر حملہ کر دیا اور اسے بری طرح زخمی کر دیا۔ رحیم کو ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی حالت نازک رہی۔
جب گاؤں والوں نے یہ خبر سنی تو ان کے اندر کا خوف غصے میں بدل گیا۔ وہ سمجھے کہ زمیندار نے ان کی ایک امید کو کچلنے کی کوشش کی ہے، مگر اس بار انہوں نے خاموش رہنے کے بجائے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں کے لوگ ہجوم کی صورت میں زمیندار کی حویلی پہنچے اور اس سے جواب طلب کیا۔
گاؤں کے بزرگوں نے زمیندار کو باور کروایا کہ اس کے برے اعمال اب مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ زمیندار نے گاؤں والوں کی تعداد اور ان کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ اب اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا اور عہد کیا کہ اب کوئی ظالم ان پر حکمرانی نہیں کرے گا۔
رحیم نے صحت یاب ہونے کے بعد اپنے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور گاؤں میں امن و انصاف کے قیام کے لیے محنت کرتا رہا۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کا انجام بربادی اور شرمندگی ہی ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے سب سے پہلے دل سے خوف کو نکالنا ضروری ہے۔ اس واقعے کے بعد گاؤں والوں نے جان لیا کہ اگر ہم متحد ہوں تو کسی بھی برے انسان کو شکست دی جا سکتی ہے۔
رحیم کی کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ جب دل میں ایمان ہو اور ساتھ میں لوگوں کی حمایت، تو مشکلات کے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانی رہتی دنیا تک لوگوں کو یاد دلاتی رہے گی کہ ظلم اور بدی کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔