جب ایک برطانوی فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کی
گلگت میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ ریاستِ کشمیر کے مہاراجہ انڈیا سے الحاق کرنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سکاؤٹس کی ممکنہ بغاوت کے بارے میں بھی بات ہونے لگی۔ ہر جانب پاکستان زندہ باد اور کشمیر کا مہاراجہ مردہ باد کے نعرے دیواروں پر لکھے تھے، گورنرہاؤس کے گیٹ پر بھی۔ میں نے انھیں، گورنر کو، خود یہ نعرہ مٹاتے دیکھا۔ لیکن اگلی صبح یہ پھر سے لکھے جا چکے تھے، میرے گھر کے گیٹ پر بھی۔
یہ الفاظ میجر ولیئم براؤن کے ہیں جو 1947 میں گلگت سکاؤئٹس کے برطانوی کمانڈر تھے اور ایک ایسی بغاوت کا حصہ بننے والے تھے جس کے نتیجے میں آزاد ہونے والی نئی ریاست پاکستان کو جموں کشمیر ریاست کا ایک بڑا حصہ بنا ایک گولی چلائے ملنے والا تھا۔
اس علاقے میں گلگت کے ساتھ ساتھ سکردو شہر بھی شامل تھا جو آج پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان بن چکا ہے۔ لیکن اس کہانی کا آغاز 1947 میں گلگت سے ہی ہوتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور انڈیا تو آزاد ہو چکے تھے لیکن جموں و کشمیر کی ریاست سمیت چند دیگر ریاستوں کے الحاق کا معاملہ متنازع ہو چکا تھا۔
ایسے میں گلگت میں موجود میجر براؤن اپنی کتاب ’گلگت ریبیلیئن‘ یعنی ’گلگت بغاوت‘ میں لکھتے ہیں کہ 25 اکتوبر 1947 کی شام ’خبروں سے علم ہوا کہ انڈین حکومت نے کشمیر میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘
چند ہی دن قبل قبائلی جنگجو مظفر آباد کے راستے کشمیر پر حملہ آور ہوئے تھے اور سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے۔
تب موجودہ گلگت بلتستان، ریاست جموں و کشمیر، کا حصہ تھا۔ اپنی کتاب ’دی گلگت بلتستان کوننڈرم : ڈائیلیماز آف پولیٹیکل انٹیگریشن‘ میں سماجیات کے استاد سعید احمد لکھتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی چار اکائیاں تھیں: صوبہ جموں، صوبہ کشمیر، ضلع گلگت اور ضلع لداخ۔
تاہم 1935 میں انگریزوں نے گلگت ایجنسی کا انتظام ڈوگرا حکمران سے 60 سالہ لیز پر لے لیا جبکہ بلتستان کا علاقہ براہ راست ڈوگرا حکومت کے زیر تسلط ہی رہا۔
گلگت بغاوت، گورنر گھنسارا سنگھ اور میجر براؤن
’دی گلگت بلتستان کوننڈرم : ڈائیلیماز آف پولیٹیکل انٹیگریشن‘ میں سماجیات کے استاد سعید احمد لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی آزادی سے دو ہفتے قبل انگریزوں نے یہ لیز اچانک منسوخ کر دی اور 30 جولائی 1947 کو ریاست کشمیر آرمی کے برطانوی کمانڈر ان چیف میجر جنرل سکاٹ گلگت پہنچے جن کے ساتھ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ بھی تھے جنھیں کشمیر کے مہاراجہ نے گورنر بنا کر گلگت بھیجا تھا۔
تب تک مہاراجا نے کشمیر کے پاکستان یا انڈیا سے الحاق کا فیصلہ نہیں کیا تھا تاہم برطانوی راج کے خاتمے کے ساتھ ہی کشمیر کے مختلف حصوں میں مہاراجا کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی اور قبائلیوں کی سری نگر کی جانب پیش قدمی کے بعد مہاراجا نے 27 اکتوبر 1947 کو انڈیا سے الحاق کا اعلان کر دیا۔
میجر براؤن کی کتاب کے مطابق گلگت سکاؤٹس نے، جو پہلے ہی ایک انقلابی کونسل تشکیل دے چکے تھے، نے ان حالات میں 31 اکتوبر 1947 کو ’آپریشن دتا خیل‘ کے نام سے بغاوت کا آغاز کر دیا۔
اس بغاوت کا آغاز گلگت کے قریب بونجی سے ہوا جہاں مرزا حسن خان کی قیادت میں کشمیر کی ریاستی فوج کے مسلمان سپاہیوں نے سکستھ کشمیر انفنٹری کی سکھ کمپنیوں پر حملہ کیا۔
ادھر گلگت میں گورنر گھنسارا سنگھ نے کچھ مزاحمت کے بعد صوبیدار میجر بابر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ میجر براؤن کا بھی اس دستاویز پر دستخط کروانے کا دعویٰ ہے۔
یکم نومبر 1947 کو گلگت میں ایک عارضی حکومت قائم کی گئی جس نے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا اور 16 نومبر 1947 کو حکومت پاکستان کے نمائندے سردار محمد عالم خان بطور پولیٹیکل ایجنٹ گلگت پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کو 190 ملین پاﺅنڈ میں سزا ہوگی: رانا ثناء اللہ
سکردو کی جنگ
ریٹائرڈ پاکستانی بریگیڈیئر مسعود احمد خان لکھتے ہیں کہ اس وقت میجر اسلم خان (بعد میں بریگیڈیئر) کو گلگت میں تعینات کیا گیا جنھوں نے آنے والے حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے مقامی سکاوئٹس سمیت رضاکاروں کو تربیت دینا شروع کی اور چار مختلف لشکر تیار کیے جن میں سے ایک کا نام ’آئئ بیکس فورس‘ رکھا گیا۔
اسلم خان آٹھ بہن بھائیوں میں سے ایک تھے، جن میں اصغر خان بھی شامل تھے، جو بعد میں پاکستان کی فضائیہ کے ایئر چیف مارشل اور سربراہ رہے۔
مسعود احمد خان کے مطابق سکردو دریائے سندھ کے کنارے سطح سمندر سے 7400 فٹ بلندی پر واقع تھا اور سٹریٹیجک اعتبار سے اہمیت کا حامل بھی۔ ایسے میں پاکستان اور انڈیا دونوں کو ہی یہ احساس تھا کہ سکردو پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ اس زمانے میں اگرچہ گلگت سے سکردو کا فاصلہ 160 میل تھا لیکن یہ 20 دن کا سفر ہوا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ سکردو، بلتستان کا سیاسی مرکز اور ریاست کشمیر کی لداخ وزرات کی ایک تحصیل کا صدر مقام تھا جہاں وزارت کی انتظامیہ ہر سال چھ مہینے گزارتی تھی جبکہ باقی چھ مہینے لیہ میں تعینات رہتی تھی۔
’ڈیبیکل ان بلتستان‘ نامی کتاب کے مصنف ایس کمار مہاجن کے مطابق میجر شیر جنگ تھاپا کی سربراہی میں چھ بٹالین کی ایک کمپنی لیہ میں موجود تھی جسے گلگت میں بغاوت کی خبر ملتے ہی لفٹینینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے سکردو کا دفاع کرنے روانہ ہونے کا حکم دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ آپ نے شروع کی، ختم ہم کریں گے، رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر
سکردو کا محاصرہ
مہاجن کے مطابق شیر جنگ تھاپا تین دسمبر 1947 کو سکردو پہنچے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی پوزیشن مضبوط نہیں۔ انھوں نے مزید کمک کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ ’آخری آدمی اور آخری راؤنڈ تک مقابلہ کریں۔‘ شیر جنگ تھاپا نے شہر سے باہر ایک دفاعی حصار قائم کیا۔
اس سے قبل مہاجن کے مطابق لداخ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امر ناتھ، جو اس وقت سکردو میں ہی موجود تھے، یہ نشان دہی کر چکے تھے کہ لداخ، کارگل اور سکردو میں انڈین فوج کو فوری طور پر پہنچانے کے لیے طیارے کس مقام پر اتر سکتے ہیں۔ تاہم انڈین فوج اس وقت کشمیر کے دیگر محاذوں پر مصروف تھی اور ایک مسئلہ مہاجن کے مطابق یہ بھی تھا کہ انڈین فضائیہ کے پاس موجود طیارے ان مقامات پر لینڈنگ نہیں کر سکتے تھے۔
احمد حسن دانی کی کتاب ’تاریخ شمالی علاقہ جات‘ کے مطابق اس بات کا ادراک میجر اسلم خان کو بھی تھا کہ سری نگر کی طرح اگر انڈین فوج طیاروں کے ذریعے سکردو پہنچ گئی تو یہ شہر ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ایسے میں وقت کم تھا۔
تاہم سکردو کے قریب واقع روندو کے راجہ کی مدد اور منظم منصوبہ بندی سے میجر احسان کی قیادت میں آئی بیکس فورس پہلا دفاعی حصار پار کرنے اور سکردو تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ بونجی سے فرار ہونے والے چھٹی جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری بٹالین کے دستے سکردو شہر کے کھرپوچو قلعے میں، گراؤنڈ پوائنٹ 8853 پر اور چھاؤنی کے اندر اور اس کے آس پاس بھی تعینات تھے۔
ایسے میں انڈین ہائی کمان نے کمک کے طور پر دو اضافی کمپنیاں سری نگر سے سکردو روانہ کر دیں جس کی سربراہی بریگیڈیئر فقیر سنگھ کر رہے تھے۔
سکردو چھاؤنی پر پہلا باقاعدہ حملہ 11 فروری 1948 کو کیا گیا جس میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور مصنف بی چکروتیکی کتاب ’سٹوریز آف ہیروئزم‘ کے مطابق 11 فروری 1948 کو آئی بیکس فورس اور قلعہ بند فوجیوں کے درمیان چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد حملہ آور پیچھے ہٹ گئے۔
فروری اور مارچ کے دوران اور حملے کیے گئے جن کے دوران مسعود خان کے مطابق پوائنٹ 8853 سمیت نصف پوزیشنوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ ’اسی دوران خبر آئی کہ بریگیڈیئر فقیر سنگھ کی قیادت میں ایک بریگیڈ سائز کمک سکردو میں محصور فورس کو بچانے کے لیے آ رہی ہے۔‘
’ایسے میں دو پلاٹون کو کارگل سکردو سڑک کی جانب بھیجا گیا جہاں گھات لگا کر انڈین فوجیوں کے لشکر پر فائرنگ کے ساتھ ساتھ اونچائی سے بھاری پتھر بھی برسائے گئے۔ بریگیڈیئر فقیر سنگھ اور ان کے مشیر کم روشنی کی وجہ سے کچھ فوجیوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ بہت سے لوگ دریائے سندھ میں کود کر ڈوب گئے۔‘
مہاجن کے مطابق ایسے میں سکردو میں محصور انڈین فوجیوں اور ان کے کمانڈر شیر جنگ تھاپا کے حوصلے اور رسد دونوں ہی کم ہوتے جا رہے تھے۔ اس دوران انڈین فضائیہ نے کسی حد تک رسد کا سامان فضا کے راستے قلعہ تک پہنچایا۔
تاہم اس دوران میجر احسان نے چند لشکر سکردو سے آگے کارگل اور زوجیلا کی جانب روانہ کیے اور مئی 1948 میں، آئیبیکس فورس کے عناصر ایسکیمو فورس کے ذریعے کارگل اور دراس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بعد میں انڈین فوج کی جانب سے کارروائیوں کے نتیجے میں انھیں پسپا ہونا پڑا۔
جب شیر جنگ تھاپا نے ہتھیار ڈال دیے
اسی دوران چترال سکاؤٹس اور چترال باڈی گارڈز کے 300 جوان شہزادہ مطاع الملک اور میجر برہان الدین کی قیادت میں سکردو پہنچے جہاں مطاع الملک نے ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھیجا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔
چندر بی کھنڈوری لکھتے ہیں کہ اگست 1948 کے وسط تک، سکردو گیریژن بری حالت میں تھا۔
’13 اگست 1948 کو سکردو میں موجود کشمیری اور انڈین فوج نے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں قلعہ چھوڑ دیا اور 14 اگست 1948 کو 5 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل تھاپا، کیپٹن گنگا سنگھ، کیپٹن پرہدل سنگھ، لیفٹیننٹ اجیت سنگھ نے 250 جوانوں کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔‘
مؤرخ ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مطابق ’آخری فتح چترال کے جوانوں کی مدد سے حاصل ہوئی جنھوں نے کرنل مطاع الملک کی کمان میں آخری ضرب لگائی۔‘
14 اگست 1948 کے دن 1 بجے پاکستان کا پرچم پہاڑ کی چوٹی پر واقع تاریخی قلعہ کھرپوچو پر لہرایا گیا اور سکردو جنوبی بلتستان کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام شمالی علاقہ جات کا حصہ بن گیا۔
میجر احسان علی کو حکومت پاکستان نے ستارہ جرات سے نوازا جبکہ لیفٹیننٹ کرنل شیر جنگ تھاپا کو بعد میں انڈیا نے مہاویر چکر دیا۔
جنگ کے بعد انھیں اور دیگر جنگی قیدیوں کو انڈیا واپس بھیج دیا گیا تھا۔