کینیڈا کو غیر ملکی سیاحوں اور سیاحت کے شعبے میں ملازمین کی قلت کا سامنا ہے
کینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی شروع کی ہے۔ لیکن اس میں چین کے ساتھ تناؤ، جنگلات کی آتشزدگی، اور ملازمین کی کمی جیسے مسائل رکاوٹ بن رہے ہیں۔
جیک ریورز سیاحوں کے گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں سیاحوں کے لیے تین چیزیں اہم ہیں: قدرتی مناظر، مقامی ثقافت، اور تاریخ۔
جیک کینیڈا کی مقامی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اونٹاریو میں وکویمکونگ خطے کے ایک جزیرے کی سیر کرواتے ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں جھیل کے کنارے گھنے جنگلات ہیں اور قدرتی خوبصورتی وافر ہے۔ جیک سیاحوں کو کینیڈا کی مقامی آبادی کی تاریخ اور ان کے علاقے کی معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔
انھیں اپنے کام سے محبت ہے، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ "یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ آٹھ گھنٹے کی نوکری نہیں ہے، اور اس میں ہفتے اور اتوار کے دن کام کرنا پڑتا ہے، گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔"
اسی وجہ سے مقامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اسی علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ کینیڈا کی سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہے۔
یہ کمی اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے اگر کینیڈا کی حکومت ملک میں سیاحوں کی تعداد بڑھانے کی کوششوں میں کامیاب ہو جائے۔ کینیڈا میں کورونا وبا سے پہلے، 2019 میں دو کروڑ 20 لاکھ سیاح تھے، جو گزشتہ سال ایک کروڑ 80 لاکھ یعنی 17 فیصد کم ہوئے۔
تازہ ترین حکمت عملی، جسے ’ورلڈ آف اپارچیونٹی‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد ہے کہ سیاحت کے شعبے کی آمدن کو بڑھایا جائے اور اسے گزشتہ سال 109 ارب کینیڈین ڈالر سے 2030 تک 160 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے۔
اس حکمت عملی کا مقصد کینیڈا کو دنیا میں سیاحوں کی ساتویں بڑی منزل بنانا ہے۔ اس وقت کینیڈا 13ویں نمبر پر ہے۔
البرٹا کے مشہور سیاحتی قصبے جاسپر میں گزشتہ سال جولائی میں جنگلات کی آتشزدگی کو ’خطے میں صدی کی سب سے بڑی آتشزدگی‘ قرار دیا گیا، جس میں دو تہائی عمارتیں متاثر ہوئیں۔
ان میں ایک عمارت وہ ہوٹل تھی جو 1960 سے کام کر رہا تھا۔ اس ہوٹل کی مالک کیرن ڈیکور کے لیے یہ واقعہ ’تباہ کن‘ ثابت ہوا۔
لیکن ان کے پاس ہوٹل کی انشورنس موجود ہے اور ان کی امید ہے کہ یہ اگلے موسم گرما سے پہلے دوبارہ تیار ہو جائے گا۔ لیکن دوسرے ہوٹلز کو سیاحوں کے لیے مکمل طور پر تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا، یہ ایک سوال ہے۔
وہ کہتی ہیں، "جاسپر ایک بین الاقوامی سیاحتی منزل ہے اور یکم جون سے اکتوبر کے وسط تک ہوٹل مکمل طور پر بک ہوتے ہیں۔ ہم اگلے موسم گرما کی پورے بکنگ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک تمام ہوٹل دوبارہ تیار نہیں ہو جائیں گے، سیاح اتنی بڑی تعداد میں نہیں آئیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کتنا مزید وقت لگے گا۔"
ایک اور مسئلہ چینی سیاحوں کی تعداد میں کمی کا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 2018 سے کشیدہ ہیں جب چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے چیف فائنینشل افسر کو امریکی وارنٹ کی وجہ سے کینیڈا میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ چین نے جواب میں جاسوسی کے الزام میں کینیڈا کے دو شہریوں کو گرفتار کر لیا تھا جو چین میں مقیم تھے۔ انہیں 2021 میں رہا کر دیا گیا تھا۔
چند تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہی تنازع کورونا کی وبا کے بعد سیاحوں کی تعداد میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ چین نے ابھی تک کینیڈا کا نام ان ممالک کی فہرست میں واپس نہیں شامل کیا جہاں چینی شہریوں کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
جیمز گرفتھ گلوب اینڈ میل اخبار کے نامہ نگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چین اور کینیڈا کے تعلقات اب تک بحال نہیں ہو سکے۔‘ وہ روس اور یوکرین کی جنگ کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے مغربی نجی کمپنیوں کے مسافر بردار طیارے روسی فضائی حدود سے نہیں گزر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شمالی امریکہ اور یورپ کی فضائی کمپنیوں کو چین تک کے راستے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ روس کے اوپر سے نہیں گزر سکتے اور اسی وجہ سے ان کے سفر میں تین گھنٹوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونے سے یہ روٹ کمپنی اور مسافروں دونوں کے لیے زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔‘
کینیڈا کی وزیر سیاحت سریا مارٹینیز کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو ملک میں لائیں۔ انہوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ سیاح ’زیادہ عرصہ رکیں اور زیادہ پیسہ خرچ کریں۔‘
جب ان سے چینی سیاحوں کی تعداد میں کمی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا اس وقت بڑی مارکیٹ پر توجہ دے رہا ہے جو امریکہ اور یورپ ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ چینی سیاح اب بھی کینیڈا آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
وہ مانتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے اور سیاحت کے شعبے کو خطرہ ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کینیڈا ایک بہت بڑا ملک ہے اور ایسا نہیں ہے کہ پورے ملک میں ہی آگ لگی ہوئی ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سیاحوں کو بتائیں کہ خطرات ضرور ہیں لیکن بہت سی ایسی جگہیں ہیں جن پر کوئی اثر نہیں پڑا۔‘
اور جہاں تک ملازمین کی کمی کا مسئلہ ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ملازمت کے بہت سے مواقع موجود ہیں اور ہمیں اس شعبے کی تشہیر پر زیادہ کام کرنا ہوگا۔‘
لیکن وہ مشورہ دیتی ہیں کہ اس شعبے میں کام کرنے کی دلچسپی رکھنے والوں کے پاس ’تربیت اور مہارت ہونا ضروری ہے۔‘