لاکھوں بھارتی شہریوں کا مستقل امریکی رہائش کے حصول کا طویل انتظار: ‘لگتا ہے ہم گرین کارڈ ملنے سے پہلے ہی مر جائیں گے’
’میں بارہ سال سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ ایک طرح سے میں یہاں پلی بڑھی ہوں۔ لیکن اس سال مجھے کورس کے لیے داخلہ لیتے وقت ایک غیر ملکی طالب علم کے طور پر اپلائی کرنا پڑا۔‘
شریستی ایم (فرضی نام) ان مشکلات کے بارے میں بتاتی ہیں جن کا انھیں امریکہ میں سامنا ہے۔ سنہ 2012 میں جب وہ نو سال کی تھیں تو اپنے والد کے ساتھ امریکہ آئیں اور اس کے بعد ان کی پوری زندگی امریکہ کے شہر نیو جرسی میں گزری۔
لیکن اتنے برسوں سے امریکہ میں رہنے کے باوجود سریشتی کے والد کو ابھی تک گرین کارڈ یعنی امریکہ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ نہیں مل سکا ہے۔
اس سال جنوری میں سریشتی 21 سال کی ہوئی ہیں۔ انھیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بطور ایک غیر ملکی طالب علم کے درخواست دینا پڑی اور داخلہ لیتے وقت مقامی طلبہ کے مقابلے میں دگنی فیس ادا کرنی پڑی۔
سریشتی کی کہانی بھی ابھرتے ہوئے پوڈ کاسٹر دوارکیش پٹیل سے ملتی جلتی ہے۔
دوارکیش نے کچھ ہفتے پہلے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ اگر کووڈ کے دوران ان کے والد کو گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے کلیئر نہیں کیا جاتا تو انھیں بھی دوبارہ ویزا کے لیے انتظار کرنا پڑتا اور شاید انھیں انڈیا واپس بھیج دیا جاتا۔
ان حالات کا سامنا کرنے والے سریشتی یا دوارکیش اکیلے نہیں ہیں بلکہ امریکہ میں ان جیسے تقریباً ڈھائی لاکھ اور نوجوان بھی ہیں جن میں سے ایک لاکھ 30 ہزار انڈین نژاد ہیں۔
سوال صرف ان نوجوانوں کا نہیں ہے بلکہ ان کے والدین کا بھی ہے جو انڈیا سے قانونی تارکین وطن کے طور پر امریکہ چلے آئے اور روزگار کی بنیاد پر گرین کارڈ کے لیے برسوں سے انتظار کر رہے ہیں۔
ایسے گرین کارڈ کے منتظر افراد کی تعداد اب دس لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم موجودہ نظام ان درخواستوں پر کارروائی کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک کو کتنے گرین کارڈ مل سکتے ہیں اس پر بھی پابندیاں ہیں۔ لہٰذا اس انتظار کی مدت ہر سال بڑھ رہی ہے۔
ان میں سے کچھ انڈین شہریوں کے معاملے میں ’انتظار کی مدت‘ سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں مقیم بہت سے انڈین نژاد افراد کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران جتنی توجہ غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے کو دی جاتی ہے اتنی ہی توجہ قانونی تارکین وطن کے معاملے پر بھی دی جانی چاہیے۔
آئیے جانتے ہیں کہ امریکہ میں مقیم قانونی تارکین وطن افراد کا یہ مسئلہ کیا ہے، اس بارے میں امریکی قانون کیا کہتا ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں۔
گرین کارڈ کیا ہے؟
امریکہ میں کسی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کو یہاں مستقل رہائش کے لیے ایک اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ اس اجازت نامے کو گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔
یہ ایک طرح کا امریکہ میں مقیم افراد کا شناختی کارڈ ہوتا ہے اور کیونکہ ابتدا میں اس کا رنگ سبز ہوتا تھا اس لیے اسے گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔
کسی بھی گرین کارڈ کے حامل فرد کو بہت سے وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک امریکی شہری کو حاصل ہیں۔
گرین کارڈ حاصل کرنے والا شخص تین سے پانچ سال کی مدت کے بعد امریکی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔
یقیناً امریکہ جانے والے ہر فرد کو فوری گرین کارڈ نہیں ملتا بلکہ اس کے لیے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی امریکی شہریت کے حامل فرد کے خاندان کے افراد جن میں (شوہر، بیوی، غیر شادی شدہ بچے، امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے بہن بھائی، وغیرہ) ’فیملی بیسڈ گرین کارڈ‘ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
لیکن ہر سال ہزاروں لوگ انڈیا چھوڑ کر امریکہ میں گرین کارڈ کے حصول کے لیے طویل مدتی رہائش اختیار کرتے ہیں حالانکہ وہاں ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں ہوتا۔
ان میں سے زیادہ تر امریکہ کا سٹڈی ویزا (ایف 1) لے کر آتے ہیں۔ کچھ ایچ ون بی (عارضی روزگار کا ویزا) پر آتے ہیں اور کچھ ایچ فور (امریکی شہری کے شریک حیات یا بچوں کا ویزا) کی بنیاد پر امریکہ پہنچتے ہیں۔
ایسے افراد جو امریکہ تعلیم کی غرض سے آتے ہیں اگر انھیں تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہاں ملازمت مل جائے تو انھیں ایچ ون بی ویزے کے لیے درخواست دینا ہوتی ہے۔
امریکہ میں ایچ ون بی ویزے پر غیر ملکی ورکرز کے طور پر کام کرنے کے بعد ’روزگار کی بنیاد‘ پر گرین کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دینے والے انڈین افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی گرین کارڈ کے حصول میں طویل انتظار کے مسئلے کی وجہ ہے۔
ایچ ون بی ویزوں کو ان افراد کی جانب سے سپانسر کیا جاتا ہے جن کو ملازمتیں ملتی ہیں۔ یعنی کہ کمپنیاں اس بات کی ادائیگی کرتی ہیں۔ ایک مخصوص مدت کے بعد اس ویزے کی تجدید کرانا ضروری ہوتا ہے، یعنی اسے دوبارہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ ایچ ون بی ویزا حاصل کرنے کے بعد، ملازمین کچھ اضافی شرائط اور طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد گرین کارڈ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
ایک دور میں گرین کارڈ حاصل کرنے میں پانچ سے سات سال لگتے تھے، لیکن اب یہ مدت کافی بڑھ گئی ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا سے صحتیاب ہونیوالے کم عمر افراد ایک اور خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے لگے
گرین کارڈ حاصل کرنے کے قواعد کیا کہتے ہیں؟
سنہ 1990 میں متعارف کرائے گئے اصولوں کے مطابق روزگار کی بنیاد پر گرین کارڈز کی تعداد سالانہ ایک لاکھ 40 ہزار مقرر کی گئی ہے۔
یہ ایک لاکھ 40 ہزار گرین کارڈز خاص قواعد و ضوابط کے تحت تقسیم کیے جاتے ہیں، جیسا کہ امریکہ نے گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے ہر ملک کا سالانہ کوٹہ مقرر کیا ہے۔ اس کے مطابق کسی ملک کو زیادہ سے زیادہ سات فیصد گرین کارڈز ملیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال تقریباً 9,800 افراد انڈینز ہی گرین کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کوٹے کا مقصد امریکہ آنے والے تارکین وطن کی آبادی میں تنوع کو برقرار رکھنا اور تمام ممالک کو یکساں مواقع فراہم کرنا تھا۔
لیکن حالیہ دنوں میں انڈیا اور چین جیسے زیادہ آبادی والے ممالک سے آنے والے تارکین وطن اس قانون کے باعث سخت نقصان میں ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین شہری 1990 کی دہائی سے امریکہ میں ملازمت کے لیے ہجرت کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد میں شامل ہیں، اور یہ تعداد سمارٹ فونز سے لے کر مصنوعی ذہانت تک ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ بڑھی ہے۔
جو لوگ روزگار کے لیے امریکہ آئے ہیں، انہیں اپنی مخصوص کیٹیگری کے اعتبار سے ویزا دیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے گرین کارڈ ملتا ہے۔
ان میں ای بی ون، ای بی ٹو اور ای بی تھری تین اہم کیٹیگریز ہیں اور تینوں کی مدت مختلف ہے۔
ای بی ون کیٹیگری
یہ ویزا ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو غیر معمولی مہارتوں کے حامل ہیں یا کسی خاص اور اہم شعبے سے وابستہ ہیں جیسے محققین، پروفیسرز، فنکار وغیرہ۔ اس کیٹیگری پر درخواست دینے والے افراد کو دوسرے درخواست دہندگان کے مقابلے میں ترجیح دی جاتی ہے۔
ای بی ٹو کیٹیگری
یہ پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے حامل ملازمین اور سائنس، ٹیکنالوجی، آرٹس یا صنعت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ملازمین کو دیا جاتا ہے۔
ای بی تھری کیٹیگری
یہ ویزا کم از کم بیچلر ڈگری کے حامل ملازمین کو دیا جاتا ہے۔
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس) کی جانب سے جاری کردہ مئی 2024 کے ویزا بلیٹن کے مطابق، اس سال کیٹیگری ای بی ون میں اپریل 2021 تک کی درخواستوں پر کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ ای بی ٹو اور ای بی تھری کیٹیگریز کی ستمبر 2012 تک کی درخواستوں پر کارروائی کی جا رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افراد جو ای بی ون کے تحت گرین کارڈ کے حصول کے لیے درخواست دیتے ہیں، عموماً ان کو گرین کارڈ حاصل کرنے میں کم وقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دیگر دو کیٹیگریز میں حالات قدرے مختلف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے شراب خانوں میں 50 سال پہلے ہونے والے دھماکوں کا حل نہ ہونے والا معمہ
’لوگ گرین کارڈ ملنے سے پہلے مر جائیں گے‘
یو ایس سی آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، نومبر 2023 تک تقریباً 18 لاکھ لوگ روزگار پر مبنی گرین کارڈ کے منتظر ہیں، جن میں انڈین شہریوں کی تعداد 12 لاکھ ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کا اندازہ ہے کہ اگر قوانین اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تو یہ اعداد و شمار 2030 تک بڑھ کر 21,95,795 ہو جائیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس کیٹیگری سے درخواست دینے والے افراد کو گرین کارڈ کے لیے تقریباً 195 سال انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت ای بی ون کیٹیگری کے تحت درخواست دینے والے 143497 افراد گرین کارڈ ملنے کے منتظر ہیں، جبکہ ای بی ٹو اور ای بی تھری کے تحت درخواستیں دینے والوں کو مزید انتظار کرنا ہے۔
ای بی ٹو کیٹیگری میں 838784 افراد اور ای بی تھری کیٹیگری میں 277162 افراد گرین کارڈ ملنے کے منتظر ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ گرین کارڈ ملنے سے پہلے دو لاکھ سے زیادہ لوگ مر جائیں گے۔
خاص طور پر ای بی 2 کیٹیگری میں گرین کارڈ کے لیے طویل انتظار کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گرین کارڈ کے لیے پہلے سے جمع درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے گذشتہ دس بارہ سالوں سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایشوریا رائے کے باڈی گارڈ شیوراج کی تنخواہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے
گرین کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات
کوشل دلوی ایک دہائی سے فلوریڈا کے شہر میامی میں مقیم ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ’’امیگریشن وائس‘‘ نامی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔
کوشل کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ انڈیا، چین اور فلپائن کے علاوہ کسی چھوٹے ملک سے ہیں تو آپ کو ڈیڑھ سال کے اندر گرین کارڈ مل سکتا ہے۔ لیکن انڈینز کو گرین کارڈ کے لیے زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس دوران آپ یہاں ایک امریکی شہری کی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بہت سے دوسرے فرائض انجام دیتے ہیں۔ لیکن آپ کو زیادہ شہری حقوق نہیں ملتے جو دوسرے گرین کارڈ ہولڈرز یا امریکی شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ آپ اس ملک میں رہتے ہیں لیکن آپ کو یہاں کا شہری نہیں سمجھا جاتا، آپ ووٹ نہیں دے سکتے۔‘‘
کوشل کے مطابق، اگر آپ کے پاس گرین کارڈ نہیں ہے اور آپ صرف ایچ بی ون ویزا پر ہیں تو آپ فوری طور پر نوکریاں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی بڑی پروموشن حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کو ویزا اور گرین کارڈ کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑے گا۔
اگر آپ اپنی ملازمت کھو دیتے ہیں، تو آپ کے پاس دوسری نوکری تلاش کرنے کے لیے ایچ ون بی کے تحت قانونی طور پر صرف 60 دن ہوتے ہیں، اور آپ کو اس کمپنی سے درخواست کرنی ہوتی ہے جو آپ کے ویزا کو سپانسر کرے۔
آپ ممکنہ طور پر اپنی نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع نہیں کر سکتے، کانفرنسوں یا لیکچرز میں شرکت کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ آپ اس کمپنی کے علاوہ کسی اور سے تنخواہ نہیں لے سکتے جو آپ کو ملازمت دیتی ہے۔
آپ اپنے رشتہ داروں سے ملنے یا سفر کرنے کے لیے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو امریکہ میں دوبارہ داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے یا آپ کا ویزا منسوخ ہو سکتا ہے۔
ایسا عام طور پر زیادہ نہیں ہوتا لیکن یہ ایک مستقل خطرہ ہے۔ اگر آپ کے بچے 21 سال کے ہونے تک گرین کارڈ حاصل نہیں کرتے، تو انہیں نیا ویزا حاصل کرنا ہوگا یا انہیں انڈیا واپس بھیج دیا جا سکتا ہے۔
اشون گاڈوے سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کرتے ہیں اور بارہ سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 'جب میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی نوکری کھو دی، مجھے فوری طور پر دوسری نوکری تلاش کرنی پڑی۔ سارا عمل بہت تھکا دینے والا ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: شوہر نے دوسری شادی کرنی ہے تو کرے لیکن ۔۔ پاکستانی اداکارہ حرا سومرو نے واضح کر دیا
'ہم انڈیا واپس جانے کے لیے تیار ہیں'
اس تمام تر صورتحال پر کچھ افراد کا خیال مختلف ہے۔
سان فرانسسکو میں ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والے انڈین شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'وہ خود دس سال سے گرین کارڈ کا انتظار کر رہے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ امریکہ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو کیا انھیں یہاں ہر ایک کو رہائشی کے طور پر قبول کرنا چاہیے یا صرف کچھ 'انتہائی ہنر مند' افراد کو رہنے دینا چاہیے جنھوں نے غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا ہو؟ یہ فیصلہ امریکہ پر منحصر ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ اگر گرین کارڈ کے لیے امریکہ کی جانب سے سات فیصد کوٹہ نہیں ہو گا تو صرف ایک ملک یعنی انڈیا سے آنے والوں کو زیادہ ترجیح ملے گی اور وہ بھی غلط ہو گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے یہاں کی انتظامیہ کو امیگریشن کے قوانین کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ یہاں طالب علم کے طور پر آتے ہیں، تو ایچ ون بی ویزا حاصل کرنا ہی ایک لاٹری ہے۔ گرین کارڈ ملنا تو دوسری بات ہے۔
لہذا ہم نے امریکہ میں امیگریشن کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ تمام درخواست دہندگان کو گرین کارڈ نہیں مل سکے گا۔ اگر ہمیں بروقت گرین کارڈ نہیں ملا تو ہم انڈیا واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔
جیسے جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی آ رہی ہے انڈین شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے امریکہ کا رخ کیا ہے۔ اس لیے 2005 کے آس پاس یہ احساس ہوا کہ اس گرین کارڈ کے بیک لاگ کا مسئلہ بڑھ جائے گا۔
اس کے بعد سے مروجہ قانون میں تبدیلی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا۔ ان کوششوں کو پہلی بڑی کامیابی 2012 میں ملی۔
اسی سال امریکی پارلیمنٹ کے ایوان نمائندگان سے انتہائی ہنر مند تارکین وطن کا ایکٹ منظور ہوا۔ لیکن یہ قانون بروقت سینیٹ میں منظور نہیں ہو سکا۔
اسے ایگل ایکٹ کا نام دیا گیا جس کے تحت گرین کارڈ کے حصول کے لیے بہت زیادہ بیک لاگ والے ممالک کا کوٹہ سات فیصد سے بڑھانے کی تجویز کی گئی تھی۔
پھر سنہ 2019-2020 میں یہ بل دوبارہ کانگریس میں پیش کیا گیا۔ اس بار اسے ایوان نمائندگان کے ساتھ سینیٹ نے بھی پاس کیا۔ لیکن اگلا عمل وقت پر مکمل نہیں ہو سکا۔
کیا صدراتی انتخاب کے بعد کوئی تبدیلی آئے گی؟
اپوروا گووند ایک ٹیک کمپنی کے بانی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر لکھا کہ '13 سال سے امریکہ میں رہ رہا ہوں۔ لیکن میں اب بھی ویزا پر ہوں۔ کون سی پارٹی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ جو لوگ قانونی طور پر انڈیا سے امریکہ ہجرت کر چکے ہیں انھیں کم از کم جلد ہی یہاں رہنے کا اجازت نامہ مل جائے۔'
کوشل دلوی نے بتایا کہ کانگریس کے پاس قانون میں تبدیلی کرنے کا اختیار ہے، اس لیے کانگریس کا انتخاب انڈینز کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ صدارتی انتخاب۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں دونوں اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہیں، لیکن امریکہ کی جنوبی سرحد (میکسیکو) سے امیگریشن کی بحث ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے۔ عوامی نمائندوں کی طرف سے ہمیں جو اشارے ملے ہیں ان کے مطابق وہ ہمارے مسئلے کے حل میں اس وقت تک دلچسپی نہیں رکھتے جب تک یہ تنازعہ حل نہ ہو جائے۔'