ہم ٹیکسی میں کاپٹک میوزیم یعنی قبطی عجائب گھر کی طرف چل نکلے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 50
قبطی عجائب گھر اور ہیلی پولیس
عبدو نے مجھے ٹیکسی میں بٹھایا اور ہم وہاں کے کاپٹک میوزیم یعنی قبطی عجائب گھر کی طرف چل نکلے۔ راستے میں اُس نے ان مصری عیسائیوں کی تاریخ بتائی جو کیتھولک عیسائیوں کی ہی ایک شاخ تھی، لیکن یہ اپنے آپ کو مصری عیسائی کہلاتے تھے اور اس پر برملا فخر بھی کیا کرتے تھے۔
ان کے اس عجائب گھر میں سوائے کچھ پُرانے برتنوں، کپڑوں اور تاریخی نوادرات اور تصویروں کے کچھ زیادہ دیکھنے کو نہ تھا۔ غالباً کچھ مقدس کتابوں کے نسخے بھی رکھے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اس لئے میں ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔ وہاں کی ایک گائیڈ خاتون اندھیرے کمروں میں سے گزارتی ہوئی ہمیں ایک تہہ خانے میں لے گئی جہاں ایک چھوٹی سی آبشار کی شکل میں پانی گر رہا تھا اور کچھ لکڑی کی تنصیبات اور ایک چوبی صلیب بھی گڑی ہوئی تھی حالانکہ دوسرے سیاح وہاں رکھے ہوئے نوادرات سے بڑے متاثر تھے اور گائیڈ کی باتوں کو بڑی دلچسپی اور عقیدت سے سن رہے تھے۔ وہ اکثر سوالات بھی پوچھ رہے تھے۔ لیکن مجھے کوئی خاص چیز نظر نہ آئی اور میں عبدو کا بازو پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔
ہیلی پولیس کی جانب روانگی
ابھی سورج غروب ہونے میں بڑا وقت تھا۔ عبدو نے مجھے بتایا کہ وہ اب مجھے قاہرہ سے کوئی 15 کلومیٹر دور فرعونوں کے ایک قدیم قصبے ہیلی پولیس لے جائے گا۔ جہاں اس دور کی کچھ قدیم یادگاریں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں سرخ پتھر کا بنا ہوا کوئی 65 فٹ اونچا اور 125 ٹن وزنی پتھر کا ایک ستون کھڑا ہے۔ جس پر قدیم زبانوں میں اس وقت کی تاریخ کندہ کی گئی تھی۔ اُسے دیکھنے کے لئے سیاح وہاں ضرور جاتے ہیں، چونکہ میں خود بھی ایک سیاح تھا، اس لئے میرا بھی وہاں جانا ضروری ٹھہرا اور اب میں سیاحت کا یہ قرض اتارنے کے لئے فرعونوں کے ایک اور ٹھکانے پر جا رہا تھا۔
قصبے کی آمد
گنجان آباد علاقوں میں سے ہوتے ہوئے کوئی آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے تو اس مقام کے چاروں طرف ایک گاؤں نما قصبہ تھا جہاں غریب یا متوسط آبادیاں تھیں، اور وہیں ایک احاطے میں یہ یادگاریں موجود تھیں۔ کہیں کہیں سرخ پتھر کی دیوار یا کسی مندر کے کھنڈرات بھی نظر آ جاتے تھے۔ اس پاس چھوٹے چھوٹے کھیت وغیرہ بھی تھے جن میں وہاں کے مقامی کاشتکاروں نے چھوٹے پیمانے پر پھل اور سبزیوں وغیرہ کی کاشت کی ہوئی تھی۔ اگر ہم اس احاطے کے اندر نہ ہوتے تو یہ قاہرہ کا ایک عام اور روائتی سا محلہ ہی لگتا۔
عظیم الشان ستون
وہیں ایک مندر کے کھنڈرات کے باہر وہ عظیم الشان ستون (obelisk) پوری آب و تاب سے سینہ تانے کھڑا تھا، جس کی بلندی آسمانوں کو چھوتی تھی۔ یہ ایک چوکور ستون تھا جو اوپر جا کر بتدریج نوکیلا ہوتا جاتا تھا۔ اس پر قدیم مصری زبان میں لکھی گئی بہت سی تحریریں تھیں ہمیشہ کی طرح مجھے تو اس پر بے ترتیبی سے بنے ہونے چڑیاں طوطے اور کتے بلیوں کی تصویریں اور کچھ حسابی اشکال وغیرہ ہی نظر آئیں۔ لیکن وہاں کے گائیڈ ان کو فرفر پڑھتے تھے اور طوطے کی طرح رٹے رٹائے اسباق ہر ایک کے سامنے دہرا دیتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں