ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس کی کامیابی کے لیے دس ممکنہ وجوہات
امریکی صدارتی انتخاب میں صرف ایک دن باقی ہے، لیکن چاہے کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں کی بات کی جائے یا بقیہ ریاستوں کی، وہاں یہ ابہام موجود ہے کہ امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب کی دوڑ میں کون آگے رہے گا۔
انتخابی جائزوں کے مطابق مقابلہ اتنا سخت ہے کہ چاہے ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا کملا ہیرس، دونوں ہی دو یا تین پوائنٹس کی برتری سے بازی پلٹ سکتے ہیں۔
آئیے اس تاریخ ساز امکان پر بحث کا آغاز کرتے ہیں کہ کیا امریکی سیاسی تاریخ کے 130 برسوں میں پہلی بار ایک شکست خوردہ صدر دوبارہ منتخب ہو سکتا ہے۔
1۔ وہ برسرِاقتدار نہیں ہیں
ووٹروں کے لیے معیشت پہلا مسئلہ ہے اور اگرچہ بے روزگاری کم ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی ہے، زیادہ تر امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز بڑھتی مہنگائی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
کورونا کی وبا کے بعد مہنگائی اس سطح پر جا پہنچی جو 1970 کی دہائی کے بعد نہیں دیکھی گئی تھی اور یوں ٹرمپ کو یہ پوچھنے کا موقع ملا کہ ’کیا آپ چار سال پہلے کی نسبت اب بہتر ہیں؟‘
2024 میں دنیا بھر میں ہونے والے انتخابات میں کئی جگہ ووٹرز نے برسرِاقتدار جماعت کو مسترد کیا ہے، جس کی ایک وجہ کووڈ کی وبا کے بعد اخراجاتِ زندگی میں اضافہ ہے۔ امریکی ووٹرز بھی تبدیلی کے لیے بےچین نظر آتے ہیں۔
صرف ایک چوتھائی امریکیوں کا کہنا ہے کہ ملک جس سمت جا رہا ہے اس سے وہ مطمئن ہیں اور دو تہائی کے خیال میں معاشی منظر نامہ خراب ہے۔
کملا ہیرس نے تبدیلی لانے والے امیدوار بننے کی کوشش کی ہے، لیکن بطور نائب صدر وہ خود کو ایک غیر مقبول صدر سے دور کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتی دکھائی دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ
2. بری خبروں سے بےنیاز مقبولیت
وہ امریکی پارلیمان میں چھ جنوری 2021 کے ہنگاموں کے نتائج ہوں، مختلف معاملات میں فردِ جرم کے سلسلے یا عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا، اس سب کے باوجود، ٹرمپ کی حمایت سارا سال 40 فیصد یا اس سے زیادہ کی شرح پر مستحکم رہی۔
جب کہ ڈیموکریٹس اور ان کے مخالف قدامت پسند کہتے ہیں کہ وہ عہدے کے لیے نااہل ہیں، زیادہ تر رپبلکن ٹرمپ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انہیں ان کی سیاست کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس بار چونکہ فریقین میں تفریق بہت واضح ہے، ٹرمپ کو صرف محدود تعداد میں ایسے غیر فیصلہ کن ووٹرز کو قائل کرنے کی ضرورت ہے جو ان کے بارے میں سخت نظریہ نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی دلچسپ اندرونی کہانی سامنے آئی
3. غیر قانونی امیگریشن پر ان کی تنبیہ اثر رکھتی ہے
معیشت کی حالت سے ہٹ کر، انتخابات کا فیصلہ اکثر ایسے معاملے پر ہوتا ہے جس سے جذبات جڑے ہوں۔
ڈیموکریٹس امید کریں گے کہ یہ اسقاط حمل ہے جبکہ ٹرمپ شرط لگا رہے ہیں کہ یہ امیگریشن ہے۔
بائیڈن کی حکومت میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد نے جہاں سرحد پر تناؤ کو بڑھایا، وہاں اس کا اثر سرحد سے دور ریاستوں میں بھی دیکھا گیا۔ انتخابی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ووٹرز امیگریشن کے معاملے میں ٹرمپ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور یہ کہ وہ پچھلے انتخاب کے مقابلے میں لاطینی نژاد امریکیوں میں زیادہ مقبول ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیوروکریسی میں تقرر و تبادلے
4. غیر تعلیم یافتہ افراد کی زیادہ تعداد
ایسے ووٹرز میں جو محسوس کرتے ہیں کہ انھیں بھلا دیا گیا یا پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے، ٹرمپ کی مقبولیت نے امریکی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے اور یونین ورکرز جیسے کئی ایسے حلقے جنھیں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کا حامی سمجھا جاتا تھا، اب ریپبلکنز کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اگر وہ کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں کے دیہی اور مضافاتی علاقوں میں زیادہ تعداد میں ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لانے میں کامیاب رہتے ہیں، تو یہ اعتدال پسند، کالج سے تعلیم یافتہ ریپبلکنز کے نقصان کو پورا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا پاک بحریہ کے نام تعریفی پیغام
5. ’غیر مستحکم دنیا میں ایک مضبوط آدمی‘
ٹرمپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی آمرانہ رویوں والے رہنماؤں سے دوستی اور تعلق امریکہ کے اتحادوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
تاہم، سابق صدر اپنے غیر متوقع رویے کو ایک طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جب وہ وائٹ ہاؤس میں تھے تو کوئی بڑی جنگ شروع نہیں ہوئی۔
بہت سے امریکی امریکہ کی جانب سے یوکرین اور اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد دیے جانے پر ناراض ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بائیڈن کے دور میں امریکہ کمزور ہوا ہے۔
رائے دہندگان کی اکثریت، خاص طور پر وہ مرد جنھیں ٹرمپ نے جو روگن جیسے پوڈ کاسٹ کے ذریعے متاثر کیا ہے، انھیں ہیرس سے زیادہ مضبوط رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے تشریح سے متعلق نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری
1. وہ ٹرمپ سے الگ ہیں
ٹرمپ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں تقسیم بہت واضح ہے۔
2020 میں انھوں نے رپبلکن امیدوار کے طور پر ریکارڈ تعداد میں ووٹ حاصل کیے لیکن انھیں شکست ہوئی کیونکہ مزید 70 لاکھ امریکی بائیڈن کی حمایت کے لیے نکلے۔
اس بار، ہیرس ٹرمپ کی واپسی کے بارے میں خوف کا عنصر پیش کر رہی ہیں۔ انھوں نے ٹرمپ کو ’فاشسٹ‘ اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، جبکہ عزم کیا ہے کہ وہ ڈرامے اور تنازعے سے آگے بڑھیں گی۔
جولائی میں روئٹرز اور اِپسوس کے جائزے نے اشارہ کیا کہ پانچ میں سے چار امریکیوں نے محسوس کیا کہ ملک بے قابو ہو رہا ہے۔ ہیرس کو امید ہے کہ ووٹرز، خاص طور پر اعتدال پسند رپبلکن اور آزاد ووٹر انھیں استحکام لانے والی امیدوار کے طور پر دیکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرداخلہ محسن نقوی کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات
2. وہ بائیڈن سے بھی مِختلف ہیں
جس وقت بائیڈن نے صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کا فیصلہ کیا تو ڈیموکریٹس کو صدارتی انتخاب میں شکست سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ ٹرمپ کو شکست دینے کی خواہش میں متحد، پارٹی جلد ہیرس کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور انھوں نے ایک متاثر کن رفتار کے ساتھ اپنے ووٹرز کو مستقبل کی وہ راہ دکھائی جس نے انھیں پرجوش کر دیا۔
جب کہ رپبلکنز نے انھیں بائیڈن کی زیادہ غیر مقبول پالیسیوں سے جوڑ دیا ہے، ہیرس نے خود پر بائیڈن سے متعلق حملوں کو بےکار قرار دیا ہے۔
ان میں سے سب سے واضح چیز عمر ہے، انتخابی جائزوں میں مسلسل یہ بات سامنے آئی کہ ووٹرز کو بائیڈن کی عمر کی وجہ سے ان کے بطور صدر کام کرنے کی صلاحیت کے بارے میں حقیقی خدشات تھے۔
اب اس معاملے پر بات پلٹ چکی ہے اور ٹرمپ وہ امیدوار ہیں جو وائٹ ہاؤس میں قدم جمانے والے معمر ترین امریکی بننا چاہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رائٹ سائزنگ، پاکستان پوسٹ آفس میں کتنی پوسٹیں ختم کر دی گئیں ۔۔؟ جانیے
3. وہ خواتین کے حقوق کی داعی ہیں
امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد یہ پہلا صدارتی انتخاب ہے۔
اسقاط حمل کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں فکر مند رائے دہندگان نے ہیرس کی زبردست حمایت کی، اور ہم نے گذشتہ انتخابات خاص طور پر 2022 کے وسط مدتی الیکشن میں دیکھا کہ یہ مسئلہ ووٹنگ کی شرح پر اثر ڈالتا ہے اور اسے بڑھا کر نتیجے پر حقیقی اثر ڈال سکتا ہے۔
اس بار، 10 ریاستوں میں، جن میں کانٹے کے مقابلے والی ریاست ایریزونا بھی شامل ہے، ووٹروں سے پوچھا جائے گا کہ اسقاط حمل کا عمل کس طرح کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ یہ ہیرس کے حق میں ٹرن آؤٹ کو بڑھا سکتا ہے۔
پہلی خاتون صدر بننے کی کوشش کی تاریخی نوعیت بھی خواتین ووٹرز میں ان کی نمایاں برتری کو بڑھا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرمی سے ستائے پاکستانیوں کیلئے خوشخبری آ گئی
4. ان کے ووٹرز کا باہر نکلنا یقینی ہے
کملا ہیرس جن گروپوں میں مقبول ہیں، جیسے کہ کالج سے تعلیم یافتہ اور بوڑھے لوگ، ان کے ووٹ ڈالنے کے زیادہ امکانات ہیں۔
ڈیموکریٹس بالآخر زیادہ ٹرن آؤٹ والے گروپوں کے ساتھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جب کہ ٹرمپ نے نسبتاً کم ٹرن آؤٹ والے گروپوں جیسے نوجوان مردوں اور کالج کی ڈگری نہ رکھنے والے ووٹرز میں کامیابی حاصل کی ہے۔
نیویارک ٹائمز اور سینا کے ایک جائزے کے مطابق، مثال کے طور پر، ٹرمپ کو ان لوگوں میں بڑی برتری حاصل ہے جو رجسٹرڈ تھے لیکن انھوں نے 2020 میں ووٹ نہیں دیا تھا۔
اس صورتحال میں ایک اہم سوال پھر یہ ہے کہ کیا وہ اس بار انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے۔
5. ریکارڈ عطیات اور شاہ خرچی
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکی انتخابات مہنگے ہیں اور 2024 کا الیکشن اب تک کا سب سے مہنگا الیکشن ہو سکتا ہے۔
لیکن جب بات خرچ کرنے کی استطاعت یا طاقت کی آتی ہے تو ہیرس سب سے اوپر ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق انھوں نے جولائی 2024 میں امیدوار بننے کے بعد ٹرمپ کے جنوری 2023 سے لے کر اب تک کی پوری مدت کے مقابلے میں زیادہ رقم جمع کی ہے اور یہی نہیں بلکہ ان کی انتخابی مہم نے اشتہارات پر ٹرمپ کے مقابلے میں تقریباً دگنا خرچ کیا ہے۔
یہ عنصر ایک ایسے سخت مقابلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جہاں فیصلہ بالآخر سیاسی اشتہارات کا ہدف بننے والے سوئنگ سٹیٹس کے ووٹرز کریں گے۔