انڈیا کے خلائی مشن ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلموں سے سستے کیوں ہیں؟
انڈیا نے حال ہی میں کئی بڑے خلائی منصوبوں کا اعلان کیا ہے اور ان کے لیے 227 ارب روپے کی منظوری دی ہے۔
ان میں چاند پر انڈیا کے تاریخی مشن کا اگلا مرحلہ، زہرہ (وینس) پر ایک آربیٹر بھیجنا، ملک کے پہلے خلائی سٹیشن کے پہلے مرحلے کی تعمیر اور ایسا قابل تجدید راکٹ بنانا شامل ہے جس کی مدد سے سیٹلائٹس لانچ کی جائیں گی۔
یہ انڈیا میں خلائی منصوبوں کے لیے اب تک مختص کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ لیکن پروجیکٹس کے پیمانے اور ان میں شامل پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے یہ رقم کوئی بہت زیادہ بھی نہیں ہے اور اس سے ایک بار پھر انڈیا کے سستے خلائی پروگرام کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین نے خلائی تحقیق کی تنظیم اسرو کے چاند، مریخ اور شمسی مشن پر آنے والی کم لاگت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
انڈیا نے مریخ کے مدار میں جانے والی اپنی خلائی گاڑی ’منگل یان‘ پر 74 ملین ڈالر خرچ کیے جبکہ گذشتہ سال کے تاریخی چندریان تھری مشن پر صرف 75 ملین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم ہالی وڈ کی مشہور سائنس فکشن فلم ’گریویٹی‘ کے بجٹ سے بھی کم ہے جو 100 ملین ڈالر میں بنی تھی۔
ناسا کے ماون آربیٹر پر 582 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے جبکہ روس کے لونا-25 مشن پر 133 ملین ڈالر کا خرچ آیا تھا اور یہ مشن انڈیا کے چندریان تھری کی لینڈنگ سے دو دن قبل چاند کی سطح پر گِر کر تباہ ہو گيا تھا۔
اس کم لاگت کے باوجود سائنسدانوں کے بقول انڈیا خلائی تحقیق میں اپنی صلاحیت سے زیادہ قیمتی کام کر رہا ہے۔
انڈیا کا چندریان ون مشن چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کرنے والا انڈیا کا پہلا مشن تھا اور منگل یان نے مریخ کی فضا میں میتھین کا مطالعہ کرنے کے لیے وہاں کا سفر کیا تھا۔ جبکہ چندریان تھری کے ذریعے بھیجی گئی تصاویر اور ڈیٹا کو دنیا بھر کے لوگ خاصی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔
تو آخر انڈیا اپنے خلائی مشن اتنی کم لاگت میں کیسے مکمل کرتا ہے؟
کم خرچ کیسے آتا ہے؟
ریٹائرڈ سرکاری ملازم سیسر کمار داس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اسرو کے مالی معاملات کی دیکھ بھال کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرو میں سنہ 1960 کی دہائی سے کفایت شعاری کی مہم جاری ہے جب سائنسدانوں نے پہلی بار حکومت کو خلائی پروگرام کی تجویز پیش کی تھی۔
انڈیا نے ابھی کچھ سال قبل سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تھی اور ملک اپنی آبادی کو کھانا کھلانے اور ان کے لیے سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔
مسٹر داس نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’اسرو کے بانی اور سائنس دان وکرم سارا بھائی کو حکومت کو یہ باور کرانا پڑا کہ خلائی پروگرام کوئی پیچیدہ لگژری نہیں ہے کہ جس کی انڈیا جیسے غریب ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ انڈیا سیٹلائٹس کے ذریعے اپنے شہریوں کی بہتر خدمت کر سکتا ہے۔‘
اسرو کو ایک مشکل ماحول میں کام کرنا پڑا ہے جہاں ایک طرف انڈیا کی ضروریات بدلتی رہی ہیں تو وہیں بجٹ میں بھی سختیاں جھیلی گئی ہیں۔
سنہ 1960 اور 70 کی دہائی کی تصاویر میں سائنسدانوں کو سائیکل یا بیل گاڑی پر راکٹ اور سیٹلائٹ لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کئی دہائیوں بعد اور کئی سیاروں کے کامیاب مشنز کے بعد بھی اسرو کا بجٹ معمولی ہی رہا ہے۔ رواں سال اس کے خلائی پروگرام کے لیے انڈیا نے 130 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جو کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ ناسا کا بجٹ رواں سال کے لیے 25 ارب امریکی ڈالر ہے۔
کمار داس کہتے ہیں کہ اسرو کے مشنز کے اتنے سستے ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کی تمام ٹیکنالوجی انڈیا میں ہی تیار کی گئی ہے اور مشینیں بھی ملک کے اندر ہی تیار کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت جابرانہ ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی حقیقی امنگوں کو دبا نہیں سکتا: وزیر اعظم
پابندی ’نعمت‘ ثابت ہوئی
سنہ 1974 میں دہلی نے اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا اور مغرب نے انڈیا پر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ضمن میں پابندیاں عائد کیں۔ یہ پابندیاں انڈیا کے خلائی پروگرام کے لیے ’نعمت‘ ثابت ہوئیں۔
کمار داس نے کہا کہ ’ہمارے سائنسدانوں نے اسے اپنی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے لیے درکار تمام ساز و سامان مقامی طور پر تیار کیے گئے تھے جبکہ یہاں پر تنخواہیں اور مزدوری امریکہ یا یورپ کے مقابلے میں کہیں کم تھی۔‘
سائنسی موضوعات پر لکھنے والے مصنف پلّو باگلا کا کہنا ہے کہ اسرو کے برعکس، ناسا سیٹلائٹ مینوفیکچرنگ کا کام نجی کمپنیوں کو دیتا ہے اور اپنے مشن کے لیے انشورنس بھی کراتا ہے، جس سے ان کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا ناسا کی طرز پر انجینیئرنگ ماڈل نہیں کرتا جو کہ اصل لانچ سے پہلے کسی پروجیکٹ کی جانچ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہم صرف ایک ماڈل تیار کرتے ہیں اور اس کا مقصد پرواز کرنا ہے۔ یہ خطرناک ہے، حادثے کے امکانات ہیں، لیکن یہ وہ خطرہ ہے جو ہم لیتے ہیں۔ اور ہم اس جوکھم کو لینے کے قابل ہیں کیونکہ یہ ایک سرکاری پروگرام ہے۔‘
انڈیا کے پہلے اور دوسرے چاند مشن اور مریخ مشن کے سربراہ میلسوامی انّادورائی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ اسرو بہت کم لوگوں کو ملازمت دیتا ہے اور نسبتاً کم تنخواہ دیتا ہے، جس کی وجہ سے انڈیا کے پروجیکٹ مسابقتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’دس سے کم افراد پر مشتمل ایک چھوٹی اور وقف ٹیموں کی قیادت کی ہے جہاں لوگ اکثر اوقات بغیر کسی اضافی پیسے کے اوور ٹائم کام کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ اپنے کیے کے بارے میں بہت پُرجوش ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ پراجیکٹس کے لیے کم بجٹ کی وجہ سے بعض اوقات وہ واپس ڈرائنگ بورڈ کی طرف جاتے اور ذرا ہٹ کر سوچنے کی کوشش کرتے جو کہ نئی ایجاد اور اختراعات کا باعث بنتا۔
انھوں نے بتایا کہ 'چندریان ون کے لیے 89 ملین ڈالر کا بجٹ اصل ترتیب کے مطابق ٹھیک تھا۔ لیکن بعد میں فیصلہ کیا گیا کہ خلائی جہاز چاند کے اثرات کی تحقیقات کرے گا جس کا مطلب اضافی 35 کلوگرام وزن تھا۔‘
دو آپشنز
سائنسدانوں کے پاس دو آپشنز تھے کہ یا تو مشن کے لیے بھاری راکٹ کا استعمال کریں، جس پر زیادہ لاگت آئے گی، یا پھر بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کچھ ہارڈ ویئر کو ہٹائیں۔
’ہم نے دوسرا آپشن منتخب کیا۔ ہم نے تھرسٹرز کی تعداد 16 سے کم کر کے آٹھ کر دی اور پریشر ٹینک اور بیٹریاں دو سے کم کر کے ایک کر دی۔‘
مسٹر اننادورائی کا کہنا ہے کہ بیٹریوں کی تعداد کو کم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ لانچ سنہ 2008 کے اختتام سے پہلے ہو جانی چاہیے۔
'اس سے خلائی جہاز کو کسی بڑے سورج گرہن کا سامنا کیے بغیر چاند کے گرد چکر لگانے کے لیے دو سال ملیں گے کیونکہ سورج گرہن بیٹری کی ری چارج کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرے گا۔ لہذا ہمیں لانچ کی آخری تاریخ کو پورا کرنے کے لیے کام کا سخت شیڈول برقرار رکھنا پڑا۔'
چنانچہ جب چندریان تھری کو لانچ کیا گیا تو اس نے چاند کے مدار میں پھینکے جانے سے پہلے کئی بار زمین کا چکر لگایا اور اس نے لینڈنگ سے پہلے چاند کے گرد بھی کئی چکر لگائے۔ دوسری جانب روس کا لونا-25 طاقتور سویوز راکٹ پر سوار ہو کر تیزی سے زمین کی کشش ثقل سے نکل گیا۔
'ہم نے زمین کی کشش ثقل کا استعمال چاند تک پہنچانے کے لیے کیا۔ اس میں ہمیں ہفتے لگے اور بہت سارے وسائل کی منصوبہ بندی کرنی پڑی۔ اسرو نے اس میں مہارت حاصل کی ہے اور اسے کئی بار کامیابی سے انجام دیا ہے۔'
لیکن مسٹر بگلا کہتے ہیں کہ انڈیا نے 2040 تک چاند پر ایک انسان بردار مشن بھیجنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے وہاں خلابازوں کو تیزی سے پہنچانے کے لیے زیادہ طاقتور راکٹ کی ضرورت ہوگی۔
حکومت نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس نئے راکٹ پر کام پہلے ہی منظور ہو چکا ہے اور یہ سنہ 2032 تک تیار ہو جائے گا۔ یہ نیکسٹ جنریشن لانچ وہیکل (این جی ایل وی) زیادہ وزن لے جانے کے قابل ہوگی لیکن اس کی قیمت بھی زیادہ ہو گی۔
مسٹر بگلا مزید کہتے ہیں کہ انڈیا خلائی شعبے کو نجی کاروباریوں کے لیے کھولنے کے عمل میں ہے لیکن اس کے بعد لاگتیں اتنی کم رہیں گی ایسا بظاہر نظر نہیں آتا ہے۔