شارک ٹینک پاکستان: کیا یہ مشہور بزنس ریئلٹی شو نئے کاروباری آئیڈیاز کے لیے بھاری سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوگا؟
یہ 90 کی دہائی کی بات ہے جب سات سال کے پاکستانی نژاد امریکی شہری عدیل کو پاکستان میں ایک ایسی بچی نظر آئی جو ایک ٹانگ سے معذور تھی۔
عدیل اختر کو جس بات نے سب سے زیادہ بے چین کیا وہ یہ تھی کہ یہ بچی ایک درخت کی ٹہنی کے سہارے چل رہی تھی یعنی اس کے پاس بیساکھی تک نہیں تھی۔ اُن کے مطابق یہ منظر اُن کے ذہن پر ایسا نقش ہوا کہ معذور افراد کے لیے مصنوعی بازو اور ٹانگیں بنانا اُن کی زندگی کا مقصد بن گیا۔
گذشتہ کئی دہائیوں کے اپنے اِس سفر میں انھوں نے امریکہ میں اپنی کمپنی ’سائیونکس‘ تو کھڑی کر لی لیکن انھیں اب بھی بھاری سرمایہ کاری اور مزید لوگوں تک اپنی مصنوعات کے بارے میں آگاہی پہنچانے کی ضرورت تھی۔
چند ماہ قبل ہی امریکہ سمیت پوری دنیا میں لوگوں کو اُن کی کمپنی کے بارے میں اس لیے معلوم ہونا شروع ہوا کیونکہ وہ ایک امریکی ٹی وی شو ’شارک ٹینک‘ میں شریک ہوئے اور دس لاکھ ڈالر کا سرمایہ اور تین بڑی کاروباری شخصیات کی سرپرستی کے وعدے لیے واپس لوٹے۔
ایک ٹی وی شو جہاں سے رقم اور کاروباری سرپرستی بھی ملتی ہے؟ جی ہاں، شارک ٹینک ایک بزنس ریئلٹی ٹی وی شو ہے جو امریکہ اور انڈیا سمیت اب تک دنیا کے 27 سے زیادہ ممالک میں ایئر ہو چکا ہے اور اب یہ پاکستان میں بھی شروع ہو چکا ہے۔
یہ معروف ٹی وی شو پاکستان میں ایک ایسے موقع پر شروع ہوا ہے جب پاکستان میں متعدد معروف سٹارٹ اپس گذشتہ دو سالوں کے دوران مختلف وجوہات کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں اور پاکستانی معیشت کے حوالے سے خدشات برقرار ہیں۔
ایسے میں کیا یہ شو پاکستان میں نئے کاروباروں کے لیے معاونت کا باعث بن پائے گا؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے کراچی میں اس شو کے سیٹ کا رُخ کیا جہاں پاکستان بھر سے کاروباری آئیڈیاز لیے افراد موجود تھے۔
’شارکس‘، کاروبار اور سرمایہ کاری
شارک ٹینک ایک بزنس ریئلٹی ٹی وی شو ہے جو جاپان کے ایک اسی نوعیت کے پروگرام سے متاثر ہو کر سنہ 2009 میں امریکہ میں شروع ہوا۔ آسان الفاظ میں اس شو کو کاروبار کرنے والوں اور سرمایہ کاروں کے درمیان ایک ملاقات کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
سرمایہ کاروں کو اس شو کی اصطلاح میں ’شارکس‘ کہا جاتا ہے جبکہ شو میں شریک مختلف کاروباری افراد انھیں اپنی کمپنی کے بارے میں بتاتے ہیں اور اپنے کاروبار کے کچھ فیصد حصے (یعنی ایکویٹی) کے عوض اُن سے سرمائے کی درخواست کرتے ہیں۔
سامنے بیٹھے شارکس کاروباری آئیڈیاز کو پرکھتے ہیں اور اُن سے کچھ سوال پوچھتے ہیں اور پھر ایک، ایک کر کے اپنا فیصلہ سُناتے ہیں۔
کراچی میں شو کے سیٹ پر ہماری ملاقات ایک کاروباری خاتون صدف منصور سے ہوئی جنھوں نے شو کی تعریف کچھ یوں کی: ’یہ ایسا ہے کہ وہ شارکس ہیں اور ہم سمندر میں موجود چھوٹی مچھلیاں۔‘ انھیں شارکس سے سرمایہ کاری کی امید تو تھی لیکن اُن کے مطابق ’زیادہ اہم یہ پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے ہمیں نیٹ ورکنگ کا موقع مل سکے گا۔‘
اس شو کی افادیت کسی کاروبار کے لیے صرف اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری تک محدود نہیں بلکہ اس بات میں بھی ہے کہ ایک بہتر پلیٹ فارم کے ذریعے مزید لوگوں کو ان کے بزنس کے بارے میں آگاہی ملے گی اور ان کی رسائی شارکس کے ذریعے دوسرے سرمایہ داروں اور کاروباری شخصیات تک ہو سکے گی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر کاروبار یہاں سے سرمایہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، اور بہت سے کاروباری افراد شارکس کے ساتھ ڈیل نہیں کرسکتے۔
مزید یہ کہ شو کے دوران ہونے والی ڈیلز بعد میں تبدیل بھی ہوسکتی ہیں، اور سرمایہ کار بزنس کا جائزہ لینے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کا بھی اختیار رکھتے ہیں، جیسا کہ امریکہ میں اس شو کے دوران کئی بار ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوکیا کا مقبول ترین بٹنوں والا فون 4 جی ٹیکنالوجی کے ساتھ لانچ کردیا گیا
شارکس یا ججز کون ہیں؟
اس شو کے پہلے سیزن کے لیے منتخب ہونے والے سرمایہ کاروں میں کچھ تجربہ کار ہیں جبکہ کچھ نئے چہرے بھی ہیں۔
ان میں سب سے مشہور جنید اقبال ہیں، جو پاکستان میں رائیڈ ہیلنگ سروس 'کریم' کے سابق سی ای او رہ چکے ہیں۔ اسی طرح رومانہ دادا ایک تجربہ کار سرمایہ کار اور وینچر کیپیٹل کی ماہر ہیں۔ رابیل وڑائچ ایک وینچر کیپیٹل فرم کے بانی اور سی ای او ہیں، جو پاکستان میں مختلف سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
علینہ ندیم 'ایجوفائے' نامی سٹارٹ اپ چلا رہی ہیں، جو پاکستان میں تعلیم کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح عثمان بشیر کا ایک سٹارٹ اپ 'بریک ٹائم' ہے جو امریکہ میں واقع ہے اور وہ پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ فیصل آفتاب زین وینچر کیپیٹل فرم کے بانی اور سی ای او ہیں، جو ماضی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔
ان کے علاوہ ابراہیم تیلی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں 'اگلو پاکستان' کے، جو کہ 1971 سے ملک میں موجود آئس کریم کمپنی ہے۔
ان سٹارٹ اپس میں شارکس کے لیے سرمایہ لگانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں اس کے عوض کاروبار میں کچھ فیصد حصہ دیا جاتا ہے، یعنی وہ اس کاروبار میں پارٹنر بن جاتے ہیں۔
سیٹ پر موجود شارک رابیل وڑائچ نے Uses in Urdu کو بتایا کہ 'مقصد یہ ہے کہ آپ صرف ایک چیک رائٹر یا اے ٹی ایم کے طور پر یہاں نہ بیٹھیں۔ اپنی سرمایہ کاری کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی رہنمائی بھی کریں۔'
'اکثر نئے کاروبار چلانے والوں کے پاس مشورے کی کمی ہوتی ہے، انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کاروبار کو کیسے آگے بڑھانا ہے۔ ہمارا کام ان کی مدد کرنا ہے۔'
پاکستان میں اس شو کے حوالے سے کیا خدشات ہیں؟
پاکستان میں اس شو کی کامیابی کے بارے میں کچھ خدشات موجود ہیں کیونکہ پچھلے دو سالوں میں ملک میں کئی بڑے سٹارٹ اپس بند ہو چکے ہیں یا انہوں نے اپنے آپریشنز کو محدود کردیا ہے۔ ان میں 'ایئر لفٹ' کا نام سب سے اوپر ہے۔
شارک ٹینک پاکستان کے حقوق 'گرین لٹ سٹوڈیوز' کے پاس ہیں جبکہ یہ شو 'گرین انٹرٹینمنٹ' پر دیکھایا جا رہا ہے۔ گرین لٹ سٹوڈیوز کے شریک بانی رضوان قاضی نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس شو کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتحال غیر مستحکم ہے۔ شارک ٹینک کا ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک بڑا شو ہوگا۔'
'جہاں لوگ آکر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن اور بھی بڑا ہو گا۔'
اس کے علاوہ، انڈسٹری میں شارک ٹینک کے حوالے سے ہونے والی تنقید کا ایک پہلو اس پروگرام میں شامل شارکس ہیں۔ پرافٹ میگزین کی صحافی نسمہ ریاض کہتی ہیں کہ 'کئی لوگوں کی عمومی تنقید یہ ہے کہ جو ججز پینل میں ہیں، ان کے پاس کامیاب سٹارٹ اپ کھڑا کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ وہ ان مراحل میں کاروباروں کی مدد کیسے کریں گے، جن سے وہ خود کبھی نہیں گزرے۔'
جب ہم یہ تنقید رابیل وڑائچ کے سامنے رکھی تو انہوں نے کہا کہ 'دیکھیں، تنقید کرنے والے بہت موجود ہیں، شارک پینل پر کئی ایسے افراد ہیں جن کی انویسٹمنٹ کا تجربہ ہے۔'
'اگر ہم ان سرمایہ کاری کے مواقع پرکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان میں پیسہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ شارک ٹینک کے مقاصد پورا کرنے میں مدد کرے گا، نہ کہ ہم صرف لوگوں کی خوشی کے لیے ایک سٹارٹ اپ بنانا شروع کریں۔'
اس شو کے بارے میں یہ خدشات بھی تھے کہ آیا اس میں آنے والے سٹارٹ اپ صرف بڑے شہروں سے ہی ہوں گے۔
اداکار رباب ہاشم، جو شارک ٹینک پاکستان کی میزبان ہیں، نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ضروری نہیں کہ صرف بڑے شہروں سے ہی شرکا آئیں بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں اور دور دراز علاقوں سے بھی لوگ آ رہے ہیں۔'
'خواتین کی بھی ایک بہت اچھی تعداد ہے جو میرے لیے حیران کن ہے۔ جیکب آباد، ایبٹ آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، گلگت بلتستان، کوئٹہ اور پشاور سے بھی لوگ آ رہے ہیں۔'
کوئٹہ سے آنے والی دو خواتین کشمالہ اور عمارہ یوسفزئی نے Uses in Urdu سے اپنے کاروبار کے بارے میں بات کی۔ کشمالہ کا کوئٹہ میں 'ہیئر ایکسٹینشنز' کا کاروبار ہے جبکہ عمارہ کا اپنا سیلون ہے۔
کشمالہ نے بتایا کہ اُن کا تعلق بلوچستان کے علاقے دکی سے ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس وہاں کی خواتین کے لیے کاروبار کرنے کے راستے کھلے ہیں۔
کشمالہ ہیئر فیشن سے متعلق 'ایکسٹینشنز' سمیت دیگر مصنوعات بیرون ملک سے کوئٹہ میں متعارف کرواتی ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ شو سے سرمایہ لے کر جائیں گی۔