یورپ میں پراسرار آتشزدگی کے واقعات اور امریکی پروازوں کے خلاف مبینہ روسی سازش
یورپ میں حالیہ موسم گرما کے دوران مختلف کارگو کوریئر کمپنیوں کو متعدد عجیب و غریب حادثات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ واقعات جولائی کے مہینے میں تین مختلف دنوں میں پیش آئے۔ پہلے واقعے میں، جرمنی کے شہر لیپزگ میں ڈی ایچ ایل کارگو کمپنی کے جہاز میں لوڈ ہونے والے ایک کنٹینر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔
اس کے بعد پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ برطانیہ میں برمنگھم کے قریب منورتھ میں بھی ایک واقعہ رونما ہوا، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آگ ایک ایسے پیکج میں لگی تھی جو آتش گیر مواد پر مشتمل تھا۔
پولینڈ میں سرکاری وکلا نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ یہ آگ دراصل ایک سازش کے تحت لگائی گئی تھی، جس کا مقصد امریکہ اور کینیڈا جانے والی پروزوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔
پولینڈ کی پراسیکیوٹر کترزینا کالو نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ اس پراسرار آگ کے واقعے کے بعد چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، جبکہ یورپ بھر میں حکام ان واقعات کی تفتیش کر رہے تھے۔ دوسری جانب، برطانوی حکام نے منورتھ میں آگ لگنے کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے سربراہ کن مکلم نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ’روسی خفیہ ایجنٹوں نے یوکرین کی مدد کرنے کے بعد سے برطانیہ کے خلاف آتش زنی، سبوتاژ اور دیگر خطرناک کارروائیاں کی ہیں۔‘
جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی ایف وی کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’یہ خوش قسمتی تھی کہ لیپزگ میں جلنے والا آلہ پرواز اڑنے سے پہلے ہی پھٹ گیا۔‘
‘خفیہ بارودی مواد’
پولینڈ کی پراسیکیوٹر نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ غیر ملکی انٹیلی جنس کے لیے کام کرنے والا گروہ اس سازش میں ملوث تھا، جس نے خفیہ بارودی مواد اور خطرناک مواد کوریئر کمپنیوں کے ذریعے پارسل میں چھپا کر بھجوایا، جو بعد میں اچانک پھٹ گئے یا ان میں آگ لگ گئی۔
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ مغربی حکام ان مبینہ حملوں کو روسی خفیہ عسکری ایجنسی جی آر یو سے منسلک کر رہے ہیں۔ ان حکام کا ماننا ہے کہ آگ لگنے کی وجہ ’الیکٹرک میسج مشین‘ میں مگنیشیئم کے مواد کی موجودگی تھی۔
واضح رہے کہ اگر کسی مسافر بردار طیارے میں مگنیشیئم کی وجہ سے آگ لگ جائے تو اسے بھجانا آسان نہیں ہوتا۔
وارسا کے قریب پیش آنے والے واقعے کے بعد مقامی خبروں کے مطابق آگ بجھانے میں دو گھنٹے لگے۔
پولش پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ ان پارسلز کا تجربہ کیا جائے اور بعد میں ایسے ہی پارسل امریکہ اور کینیڈا بھجوائے جانے تھے۔
روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم شک ہے کہ روس مبینہ طور پر یورپی یونین کے ممالک میں گوداموں اور ریلوے نیٹ ورکس پر ہونے والے حملوں کے پیچھے تھا جن کے دوران سویڈن اور چیک ریپبلک میں واقعات پیش آئے۔
جرمن خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھامس ہالڈنوانگ نے ڈی ایچ ایل کے مرکز پر آگ کی وجہ بننے والے آلے کے بارے میں کہا کہ یہ ’مبینہ روسی سبوتاژ تھا۔‘ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ پیکج لتھوینیا سے آیا تھا۔
دوسری جانب برطانیہ میں منورتھ میں جس آلے کے سبب آگ لگی، اس کے بارے میں بھی گمان ہے کہ یہ بھی لتھوینیا سے آیا تھا۔ لتھوینیا میں پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی اور دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ یہ ’ہائبرڈ حملوں کا تسلسل ہے جن کا مقصد عدم اعتماد اور پریشانی پھیلانا ہے۔‘
ڈی ایچ ایل نے ان واقعات کے بعد سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ’یورپی ممالک میں اپنے نیٹ ورک، ملازمین اور تنصیبات کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ صارفین کے سامان کو بھی بحفاظت رکھنے کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہے ہیں۔‘
پولینڈ کی حکومت نے پہلے ہی پوزنان میں روسی سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور روسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ تاہم روسی وزارت خارجہ نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک جارحانہ قدم ہے جس کا تکلیف دہ جواب دیا جائے گا۔‘