150 سال پہلے تعمیر کردہ بنگلہ جو شاہ رُخ خان کی کئی خواہشات کی تعبیر بنا۔
اگر کہا جائے کہ ’بالی وڈ کے کنگ‘ کہلائے جانے والے شاہ رخ خان کا ممبئی کے علاقے باندرہ میں واقع پُرتعیش بنگلہ اس شہر کے چند مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے، تو یہ غلط نہ ہو گا۔
27 ہزار مربع فٹ پر پھیلے اس چھ منزلہ بنگلے ’منت‘ کی بالکونی سے شاہ رخ اکثر اپنے ہزاروں مداحوں کے ہجوم کو سلام کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’منت‘ ہمیشہ سے شاہ رخ خان سے منسلک ہی رہا ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بنگلے کو آج سے تقریباً 150 سال پہلے ریاست منڈی کے 16ویں راجہ وجے سین نے اپنی بیوی کے لیے بنوایا تھا۔
انھوں نے اس بنگلے کا نام ’ولا ویانا‘ رکھا تھا۔ اس دور میں اس بنگلے کا شمار شہر کے سب سے خوبصورت ترین بنگلوں میں ہوتا تھا۔
راجہ وجے سین کی موت کے بعد اس بنگلے کو ایک امیر پارسی شخص مانک جی باٹلی والا نے خرید لیا۔
یہ جگہ خریدنے کے کچھ عرصے بعد باٹلی والا خاندان نے بنگلے سے متصل زمین بھی خرید لی اور اس پر ایک اور بنگلہ بنوایا۔ اس دوسرے بنگلے کا نام انھوں نے اپنے نواسے کیکو گاندھی کے نام پر ’کیکی منزل‘ رکھا۔
کیکو گاندھی بمبئی میں آرٹ کلچر سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بڑا نام تھے جنھوں نے ابتدا میں پینٹنگز کے فریم بنانے والی ایک کمپنی قائم کی جو بہت کامیاب ہوئی اور آنے والے برسوں میں انھوں نے بمبئی آرٹ سوسائٹی، جہانگیر آرٹ گیلری، نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ اور للت کلا اکیڈمی بھی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس زمانے میں مصوری اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں بشمول ایم ایف حسین، طیب مہتا، ایس ایچ رضا جیسے مشہور آرٹسٹ انھی جڑواں بنگلوں میں اپنا زیادہ تر وقت گزارتے تھے۔
پھر آنے والے برسوں ولا ایانا (منت) کے مالکان بدلتے رہے اور بالآخر راجہ وجے سین کا بنایا ولا ویانا کنگ خان کے خوابوں کا گھر بن گیا۔
بالی وڈ ستاروں کا مسکن
شاہ رخ خان کے اس بنگلے کو خریدنے سے پہلے بھی یہ گھر کئی بالی ووڈ ستاروں کا مسکن رہ چکا ہے، کم از کم فلمی زندگی میں ہی سہی۔
شاہ رخ خان کی جانب سے اس بنگلے کو خریدنے سے قبل یہ بنگلہ شوٹنگ کے لیے کرائے پر دیا جاتا تھا اور یہاں کئی اشتہارات، ٹی وی سیریلز اور فلموں کی شوٹنگ ہوئی ہیں۔
سنہ 1959 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اناری‘ میں راج کپور پر فلمایا گیا مشہور گانا ’کسی کی مسکراہٹ پر ہو نثار‘ کے پس منظر میں دکھنے والا بنگلہ منت ہی ہے۔
سنہ 1970 کی فلم ’سفر‘ میں اس بنگلے کو اداکار فیروز خان کا گھر دکھایا گیا تھا۔
انڈیا کے پہلے سپر سٹار کہلائے جانے والے راجیش کھنہ نے فلم راجہ رانی میں چور کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں ایک رات وہ جس پُرتعیش بنگلے میں چوری کرنے کی غرض سے داخل ہوتے ہیں وہ بنگلہ بھی یہی تھا۔
اس کے علاوہ سنہ 1989 کی مشہور فلم ’تیزاب‘ میں اسے مادھوری ڈکشٹ کا گھر دکھایا گیا ہے۔ اس ہی بنگلے کے لان میں انیل کپور منانے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ ’ایک دو تین‘ گانے پر رقص کرتے بھی پائے گئے تھے۔
ہدایتکار ششی لال نائر کی فلم ’انگار‘ میں بھی اس بنگلے کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس فلم میں قادر خان نے گاڈ فادر جیسا کردار ادا کیا تھا اور اس بنگلے کے سب سے زیادہ تر شاٹس اس ہی فلم میں نظر آئے تھے۔
سب سے حسین اتفاق یہ ہے کہ خود شاہ رخ کی ایک فلم میں بھی یہ بنگلہ نظر آیا تھا۔ سنہ 1997 میں ریلیز ہونے والی فلم ’یس باس‘ کے گانے ’بس اتنا سا خواب ہے‘ میں پس منظر میں یہ بنگلہ نظر آتا ہے۔
اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی یہ بنگلہ شاہ رخ کی نظروں میں آیا کیونکہ سمندر کے سامنے واقع یہ بنگلہ انھیں ایک خوبصورت خواب کی طرح لگا۔
سنہ 1991 میں بمبئی آنے والے شاہ رخ خان کے پاس ابتدائی برسوں میں اپنا گھر نہیں تھا۔ کبھی وہ پروڈیوسر وویک واسوانی کے گھر پر ٹھہرتے تو کبھی ڈائریکٹر عزیز مرزا کے گھر پڑاؤ ڈالتے۔
پھر جب انھیں فلم ’دنیا‘ میں کامیابی ملی اور وہ سٹار بن گئے تو انھوں نے کارٹر روڈ پر ایک کثیر منزلہ اپارٹمنٹ کی ساتویں منزل پر ایک فلیٹ خریدا۔
ممبئی میں یہ اُن کا پہلا گھر تھا لیکن اپنے بڑھتے ہوئے سٹارڈم کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑا گھر چاہتے تھے۔ تقریباً پانچ سال بعد اُن کا ’خوابوں کے گھر‘ خریدنے کا خواب پورا ہوا۔ سمندر کے سامنے ماضی کے ’وِلا ویانا‘ کو ناصرف ایک نیا مالک مل گیا بلکہ ایک نیا نام بھی۔
شاہ رخ نے پہلے اس گھر کا نام ’جنت‘ رکھا تھا لیکن کچھ عرصے بعد انھوں نے اسے تبدیل کر کے ’منت‘ رکھ دیا۔
شاہ رخ خان نے یہ بات گذشتہ سال اپنی اہلیہ کی کتاب ’مائی لائف ان ڈیزائن‘ کی لانچنگ کے موقع پر میڈیا کو بتائی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اسے خریدنے میں تو کامیاب ہو گئے، لیکن ہمیں اسے دوبارہ تعمیر کرنا پڑا کیونکہ یہ بہت خستہ حال تھا۔ تب ہمارے پاس اسے سجانے سنوارنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ڈیزائنر جتنی رقم مانگ رہا تھا اتنا تو میں ایک مہینے میں کماتا تھا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا، گوری، سُنو تم گھر کی ڈیزائنر کیوں نہیں بن جاتیں۔ تو اصل میں، منّت کا آغاز اسی طرح ہوا، ہم نے آنے والے سالوں میں جو بھی پیسہ کمایا، اس سے ہم نے گھر کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدیں۔‘
آنے والے برسوں میں شاہ رخ نے اس بنگلے کو پھر سے سنوارا۔ اس بنگلے میں آنے کے بعد فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں کو منت جانے کا موقع ملا وہ اس کی شان کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں۔
ونٹیج اور عصری ڈیزائن کے حامل اس گریڈ تھری ہیریٹیج بنگلے میں 15 بیڈ رومز، جم، سوئمنگ پول، باکسنگ رنگ، لائبریری اور شاہ رخ خان کا دفتر بھی ہے۔
’ممبئی وہ گھر ہے جہاں میرا خوبصورت گھر ہے‘
اگر شاہ رخ کی زندگی کا جائزہ لیں تو بنگلے میں شفٹ ہونے سے صرف ایک سال قبل شاہ رخ کو اُس وقت بڑا جھٹکا لگا جب بطور پروڈیسر ان کی پہلی فلم ’پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘ بُری طرح فلاپ ہو گئی تھی۔
انھیں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد ’جوش‘، ’ون ٹو کا فور‘ اور ’اشوکا‘ بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر پائیں۔
یہ وہ وقت تھا جب میڈیا میں کہا جا رہا تھا کہ شاہ رخ کا کریئر زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ فلم انڈسٹری میں یہ مشہور ہے کہ ’منت‘ خریدنے کے بعد ہی شاہ رُخ نے اپنی زندگی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔
یکے بعد دیگرے بلاک بسٹر فلموں کی کامیابیوں، ’کبھی خوشی کبھی غم‘، ’دیوداس‘، ’چلتے چلتے‘، ’کل ہو نہ ہو‘، ’میں ہوں نا‘، ’ویر زارا‘ نے انھیں ملک کا سب سے بڑا سٹار بنا دیا۔
ہر گھر شاید اپنے ساتھ نئی قسمت لے کر آتا ہے۔ منت نے شاہ رخ کی بہت سی منتیں پوری کی تھیں۔
سنہ 2016 میں دہلی میں ایک انٹرویو کے دوران میں نے شاہ رخ سے ایک سوال پوچھا تھا کہ کیا اب بھی دہلی کو اپنا گھر کہتے ہیں یا ممبئی کو؟
شاہ رخ نے جواب دیا تھا کہ ’جب میں دہلی آتا ہوں تو ساری یادیں واپس آ جاتی ہیں، میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، لیکن اب ممبئی وہ گھر ہے جہاں میرا ایک خوبصورت گھر ہے۔‘