دو محاذوں پر جنگ میں پھنسے نتن یاہو کا عسکری تجربے والے وزیر دفاع کو برطرف کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
ہمیں یہ گذشتہ کچھ عرصے سے معلوم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور اُن کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے ایک دوسرے سے تعلقات کچھ خاص بہتر نہیں ہیں۔
لیکن اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے حوالے سے حکمت عملی پر گذشتہ چند ماہ کے دوران اِن دونوں کے تعلقات مزید تلخ ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
یاد رہے کہ دو روز قبل (پانچ نومبر) نتن یاہو نے یواو گیلنٹ کو وزیر دفاع کے عہدے سے برطرف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے درمیان ’اعتماد کا فقدان‘ تھا اور یہ کہ ایسے وقت میں جب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر دفاع ایک صفحے پر ہوں۔
یواو گیلنٹ کا عسکری معاملات میں تجربہ نتن یاہو کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے سنہ 1977 میں نیوی کے کمانڈو کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے وہ اسرائیل کی جنوبی کمانڈ میں میجر جنرل بنے اور انھوں نے سنہ 2005 سے سنہ 2010 کے دوران غزہ میں دو جنگوں کی نگرانی کی۔
اس شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ گیلنٹ کا عسکری معاملات میں زیادہ تجربہ اور اسرائیلی فوج میں اُن کی عزت کی وجہ سے اُن کے ’باس‘ (نتن یاہو) کو کچھ احساس کمتری ہو چلی تھی۔
اسرائیل کی موجودہ حکومت سخت گیر نظریات رکھتی ہے۔ ملک کی تاریخ میں موجودہ حکومت سے زیادہ انتہائی دائیں بازو والی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ تاہم یواو گیلنٹ اس حکومت کے دیگر وزرا سے قدرے کم شاطر ہیں لیکن وہ اتنے بھی رحم دل نہیں ہیں کہ انھیں سادھو سمجھ لیا جائے۔
نتن یاہو کے ساتھ اُنھیں بھی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (عالمی فوجداری عدالت) میں ممکنہ جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔
تاہم جب ان دونوں کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے وارنٹ طلب کیے تو دونوں افراد نے مئی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے جیسے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
مگر حالیہ مہینوں میں بطور وزیر دفاع یواو گیلنٹ اس بات پر زور دیتے رہے کہ اسرائیل کو حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو ترجیح دینی چاہیے اور غزہ میں جنگ ختم کرنی چاہیے۔
نتن یاہو نے ابھی تک گیلنٹ کی اس بات کو توجہ نہیں دی ہے۔ وہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ حماس پر مسلسل فوجی دباؤ باقی ماندہ اسرائیلیوں کو رہا کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
گیلنٹ 2024 کے آغاز سے جنگ ختم ہونے کے بعد کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے شور مچا رہے ہیں لیکن آج تک کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
گیلنٹ کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے پس منظر میں فوجی، سیاسی اور انٹیلیجنس کمیوں کی وسیع پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہییں۔ اُن کے خیال میں حماس کی جانب سے یہ حملہ اسرائیل کی فوج کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیقات شروع کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔
گیلنٹ اور نتن یاہو کے درمیان ایک اختلاف رائے اس موضوع پر ہے کہ آیا دینی تعلیم حاصل کرنے والے انتہائی قدامت پسند یہودی طلبا کو فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ فی الوقت یہ بل اسرائیل میں زیر بحث ہے۔
گیلنٹ کا ماننا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک مختلف محاذوں پر جنگوں میں پھنسا ہے، اس طرح کے عیش و آرام لوگوں کو مہیا نہیں کیے جا سکتے۔
تاہم نتن یاہو جانتے ہیں کہ اسرائیل کی موجودہ اتحادی حکومت دائیں بازو کی انہی قدامت پسند جماعتوں کی وجہ سے ٹکی ہوئی ہے جو اس بل کے حامی ہیں۔ اس لیے نتن یاہو کے نزدیک گیلنٹ کی رومانوی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
لیکن گیلنٹ کو ہٹا کر نتن یاہو نے ایک ایسے شخص کو ان کی وزارت سونپی ہے جن کے پاس عسکری معاملات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
اسرائیل کیٹز دو دن پہلے تک اسرائیل کے وزیر خارجہ تھے، تاہم اب وہ ملک کے نئے وزیر دفاع بن گئے ہیں۔ یواو گیلنٹ کے مقابلے میں وہ زیادہ 'ہاکیش' ہیں اور ان کے خیالات بھی اپنے 'باس' سے کافی ملتے ہیں۔
جب انہیں اسرائیل کی وزارت دفاع سونپی گئی تو انہوں نے 'جنگ کے اہداف کو حاصل' کرنے کا عزم کیا، بشمول 'یرغمالیوں کی واپسی کا جو سب سے اہم اخلاقی ذمہ داری ہے، غزہ میں حماس کا خاتمہ اور لبنان میں حزب اللہ کی شکست۔'
اس وقت اسرائیل دو جنگیں لڑ رہا ہے جو باقی مشرق وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسرائیل کیٹز کی عسکری معاملات میں تجربے کی کمی نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی اسرائیل سے متعلق شبہات کو ہوا دے گی۔
اسرائیلی وفاقی کابینہ میں یواو گیلنٹ وہ آخری وزیر تھے جو نتن یاہو کے سامنے اپنا نظریہ پیش کرنے سے گھبراتے نہیں تھے اور باآسانی ان کا سامنا کر لیتے تھے۔
یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ نتن یاہو نے انہیں اپنے کابینہ سے ہی نکال دیا ہو۔
افواہیں کئی مہینوں سے چل رہی تھیں کہ یواو گیلنٹ برطرف ہونے کے قریب ہیں۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس وقت انہیں اپنے عہدے سے برطرف کیا گیا اس وقت امریکہ اپنا نیا صدر منتخب کرنے والا تھا۔
یواو گیلنٹ کے امریکی صدر جو بائڈن کے ساتھ بہتر تعلقات تھے جبکہ نتن یاہو کا وائٹ ہاؤس کے ساتھ سرد رویہ تھا۔
نتن یاہو کا یواو گیلنٹ کو برطرف کرنا موجودہ حکومت کے لیے ایک اور دھچکا سمجھا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی اگر اسرائیلی وزیر اعظم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے جنگی حکمت عملی کے بارے میں مشوروں کو زیادہ اہمیت دیں۔
تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ یواو گیلنٹ کو کابینہ سے نکالا جائے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے سیاست میں واپس نہ آئیں۔ سیاست میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔
ایک بار پہلے بھی مارچ 2023 میں نتن یاہو نے یواو گیلنٹ کو وزیر دفاع کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
اس وقت کئی اعلیٰ فوجی اور سابق فوجی حکام سمیت یواو گیلنٹ نتن یاہو کے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے متنازع منصوبوں سے ناراض تھے۔
اس پس منظر میں جب نتن یاہو نے یواو گیلنٹ کو برطرف کیا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرے کیے۔ عوام نے مطالبہ کیا کہ یواو گیلنٹ کو ان کا عہدہ واپس دیا جائے۔
پُرجوش مظاہروں کے بعد نتن یاہو یواو گیلنٹ کو دوبارہ ان کا عہدہ دینے پر مجبور ہوگئے۔
گذشتہ منگل جب یواو گیلنٹ کے وزیر دفاع کے عہدے سے برطرف ہونے کی خبر سامنے آئی تو ایک بار پھر دارالحکومت تل ابیب اور یروشلم میں مظاہرے ہوئے تاہم ان مظاہروں کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں تھا۔
یواو گیلنٹ اور نتن یاہو ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ نتن یاہو کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں۔
لیکن اس وقت یواو گیلنٹ کی برطرفی یہ ظاہر کرتی ہے کہ نتن یاہو خود کو مضبوط محسوس کر رہے ہیں۔
نتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیراعظم ہیں اور اسرائیل کی کامیاب سیاسی شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے سال کی طرح آج بھی وہی ہیں جن کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے۔