بنگلہ دیش کی فوج میں بغاوت: جوابی بغاوت اور فوجی افسران کے درمیان اقتدار کی جنگ کی کہانی

یہ تحریر Uses in Urdu نے سات نومبر 2023 کو پہلی مرتبہ شائع کی تھی، قارئین کی دلچسپی کے باعث اسے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے صرف چار سال بعد یعنی نومبر 1975 کے پہلے ہفتے کے دوران پیش آنے والے خونی واقعات بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور ان کے اہلخانہ کے قتل کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی افراتفری کی صورتحال کا نتیجہ تھے۔

15 اگست 1975 کو شیخ مجیب اور ان کے اہلخانہ کے قتل کے بعد خوندکر مشتاق احمد نے بطور صدر بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالا۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگلہ دیش کی آرمی میں موجود وہ افسران انتہائی طاقتور تھے جو شیخ مجیب کی ہلاکت میں براہ راست ملوث تھے۔

اگرچہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مشتاق احمد نے ضیا الرحمن کو آرمی چیف بنایا تھا لیکن شیخ مجیب کے قتل میں ملوث چند آرمی افسران فوج کے بہت سے معاملات کو براہ راست کنٹرول کر رہے تھے۔

شیخ مجیب کے قتل کے بعد اقتدار کی اس خونی منتقلی نے بغاوت اور جوابی بغاوت کے نئے سلسلے کو جنم دیا جس کا آغاز مجیب کے قتل کے تین ماہ بعد یعنی نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوا۔

اگرچہ بغاوت کی وجوہات کے بارے میں متعدد وضاحتیں موجود ہیں مگر اُس وقت کے بہت سے فوجی حکام کا خیال ہے کہ نومبر میں ہونے والی بغاوت اور جوابی بغاوت بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد سے فوج میں پیدا ہونے والے افراتفری کا نتیجہ تھی۔

بنگلہ دیشی فوج میں بہت سے سینیئر افسران جونیئر فوجی افسران کی طرف سے طاقت کے استعمال اور بڑے فیصلے لینے کے عمل کو قبول نہیں کر پا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور تنازع بھی تھا، جو بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے وقت سے شروع ہوا تھا۔

فوج کے اندر آپس کی لڑائی

فوج کے اندر آپس کی لڑائی

جنگ آزادی کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے تین افسران عالمی سطح پر مشہور ہوئے۔ Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ بریگیڈیئر سخاوت حسین نے کہا کہ جنگ کے بعد سے ان تینوں افسروں نے فوج کے اندر اثر و رسوخ کے تین علیحدہ علیحدہ دائرے بنائے تھے۔ ان افسران میں جنرل ضیا الرحمن، بریگیڈیئر خالد مشرف اور جنرل کے ایم شفیع اللہ شامل تھے۔

بریگیڈیئر سخاوت حسین سنہ 1975 میں ڈھاکہ میں 46 بریگیڈ کے سٹاف آفیسر تھے۔

سخاوت حسین کہتے ہیں کہ ’فوج میں افسران کے درمیان یہ کشمکش پہلے بھی تھی، لیکن 15 اگست (مجیب کے قتل) کے بعد یہ کھل کر سامنے آ گئی۔ میجر جنرل شفیع اللہ فیصلہ سازی کے عمل سے عملاً باہر کیے جا چکے تھے، جنرل ضیا فیصلہ سازی کر رہے تھے اور ان کے اور بریگیڈیئر خالد مشرف کے درمیان تنازع بڑھ رہا تھا۔

میجر جنرل کے ایم شفیع اللہ کو 15 اگست کے واقعات کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

1975 میں Uses in Urdu کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ’منظر سے ہٹ چکے ہیں‘ اور آرمی چیف والے اپنے گھر میں تقریباً نظر بند ہیں۔

شفیع اللہ نومبر کے واقعات کو خالد مشرف اور ضیا الرحمن کے درمیان تنازع کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’خالد مشرف یہ سوچ کر ضیا الرحمن کو ہٹانا چاہتے تھے کہ اُن کا مستقبل تاریک ہے، اس نے انھیں ہٹا کر گھر میں نظر بند کر دیا اور خود کو چیف آف سٹاف کے عہدے پر فائز کر دیا۔‘

’مگر معاملات زیادہ عرصے چل نہیں سکے اور 7 نومبر کو ضیا الرحمن کے گروپ نے خالد مشرف کو ہٹا دیا۔‘

انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا تھا کہ ’منظر عام پر نہ ہونے کے باوجود وہ فوج میں تناؤ کو محسوس کر سکتے تھے اور یہی خالد مشرف کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کا پس منظر تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں: ریلوے نے کوئٹہ دھماکے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ جاری کر دی

بغاوت اور جیل میں 3 نومبر کو ہونے والا قتل عام

بغاوت اور جیل میں 3 نومبر کو ہونے والا قتل عام

3 نومبر کے پہلے چند گھنٹوں میں بنگلہ دیش کی تاریخ کا رُخ بدلنے والے دو واقعات رونما ہوئے، ایک فوجی بغاوت اور دوسرا ڈھاکہ جیل میں قتل عام۔

آدھی رات کے بعد اس وقت کے آرمی چیف ضیا الرحمان کو خالد مشرف کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں گرفتار کر لیا گیا۔

ڈھاکہ چھاؤنی سے ایک انفنٹری یونٹ بنگابھابن لایا گیا جبکہ ایک فوجی یونٹ نے ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کر لیا۔

بریگیڈیئر سخاوت حسین کے مطابق بنگا بھابن کے اردگرد اتنی فوج جمع تھی کہ میجر دلیم اور میجر نور سمیت فوجی افسران کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے اور اس دوران جنگی طیاروں کو آسمان پر اڑتے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

’جب دو یا تین لڑاکا طیاروں نے بنگا بھون کے اوپر سے اڑان بھری تو انھیں احساس ہوا کہ ان کے پاس وقت نہیں بچا ہے اور انھیں ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔‘

’تین نومبر کی صبح سے دونوں فوجی افسران میں سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ میجر دلیم اور میجر نور کئی بار چھاؤنی آئے اور خالد مشرف سے ملاقات کی۔ دن بھر مذاکرات کے بعد شام کو فیصلہ ہوا کہ انھیں (ضیاالرحمان) ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے گی۔‘

اُسی رات بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث کچھ فوجی افسران کو طیارے میں تھائی لینڈ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

اسی دوران سینٹرل جیل ڈھاکہ میں اسی رات قتل کی ایک واردات پیش آئی۔

سنہ 1971 کی حکومت کے عبوری صدر سید نذر الاسلام، وزیر اعظم تاج الدین احمد، اس وقت کے وزیر خزانہ ایم منصور علی اور وزیر داخلہ اے ایچ ایم قمر زمان کو کچھ فوجی اہلکاروں نے جیل میں قتل کر دیا۔

عوامی لیگ کے ان لیڈروں کو 15 اگست کی فوجی بغاوت کے بعد جیل میں قید کیا گیا تھا۔

سخاوت حسین بتاتے ہیں کہ جیل میں ہونے والا قتل کا واقعہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا اور یہ واقعہ 4 نومبر کی صبح فوجی افسران کے علم میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات: جب ایک مجرم یوجین وی ڈیبس نے جیل سے صدارتی مہم چلائی

’جسد‘ بڑے پیمانے پر متحرک ہو گئی

’جسد‘ بڑے پیمانے پر متحرک ہو گئی

3 نومبر کو پیش آنے والے خونین واقعات کے بعد نیشنل سوشلسٹ پارٹی (جسد) عمل میں آئی۔ کرنل طاہر کی قیادت میں اس ملیشیا نے بعد میں ہونے والی بغاوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔

کرنل طاہر کے بھائی اور ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے اس وقت کے سربراہ پروفیسر انور حسین نے Uses in Urdu کو بتایا کہ کرنل طاہر کو خالد مشرف کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کی خبر ضیا الرحمان سے ملی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ضیا الرحمان نے 3 نومبر کی صبح کرنل طاہر کو فون کیا۔ ’ضیا الرحمان نے کہا کہ انھوں نے مجھے پکڑ لیا ہے۔ میری جان کو خطرہ ہے۔‘

پروفیسر حسین نے کہا کہ اگرچہ ضیا الرحمان کی مین ٹیلی فون لائن منقطع ہوگئی تھی، لیکن وہ ٹیلی فون کال کرنے میں کامیاب رہے کیونکہ ایک متوازی لائن آرمی ہاؤس میں چل رہی تھی۔

کرنل طاہر نے 1972 میں فوج سے استعفیٰ دیا تھا اور اس کے بعد سے وہ براہ راست جسد کی سیاست میں شامل ہو گئے تھے، اس دوران فوج کے جوانوں کے ساتھ مل کر انھوں نے نجی تنظیمیں اور ملیشیاں بنوائیں۔

پروفیسر انور حسین کا کہنا ہے کہ کرنل طاہر 3 نومبر کو نارائن گنج سے ڈھاکہ آئے اور تب سے فوجی تنظیم کے ارکان سمیت فوجی اہلکار ان سے ملنے لگے۔

ضیا الرحمان کے بعد خالد مشرف نے اقتدار سنبھالا لیکن وہ جلد حکومت نہ بنا سکے۔ اس دوران جیل میں ہونے والے قتل کی وارداتیں پیش آئیں اور عملاً کوئی حکومت نہ ہونے کی کیفیت بنگلہ دیش میں واضح تھی۔

پروفیسر حسین نے کہا کہ اس دوران جسد، گن باہنی اور کرنل طاہر نے فوجیوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ 5 اور 6 نومبر کو گانا باہنی زیادہ فعال اور منظم ہونا شروع ہوئی۔ کرنل طاہر کی قیادت میں بغاوت کے منصوبے جاری رہے۔ سخاوت حسین کے مطابق یہ حقیقت 6 تاریخ کی دوپہر کو واضح ہو گئی کہ گانا باہنی کچھ کرنے جا رہی ہے، جب گانا باہنی کے نام سے ایک کتابچہ چھاؤنی کے اندر تقسیم ہونا شروع ہو گیا۔

بریگیڈیئر سخاوت حسین کے مطابق انھوں نے کتابچے کی کاپی بھی دیکھی۔

ان کتابچوں میں خالد مشرف، شفاعت جمیل اور کرنل ہودا کو ’انڈین غدار‘ قرار دیا گیا تھا۔

اس دوران جسٹس ابو سادات محمد صائم نے صدر کے عہدے کا حلف لیا۔ لیکن انتظامیہ اور فوج میں اصل میں کیا چل رہا تھا، غیر واضح رہا۔ ’اس افراتفری کی صورتحال میں جب 6 تاریخ کی رات سپاہیوں میں یہ کتابچہ تقسیم کیا گیا تو سب پر واضح ہو گیا کہ گانا باہنی نامی فورس چھاؤنی کے اندر کام کر رہی ہے۔‘

دریں اثنا، بڑے پیمانے پر فوج کی بغاوت کا مرکزی منصوبہ 6 تاریخ کی شام کو تھا۔

پروفیسر انور حسین نے کہا کہ ’جسدر کا فیصلہ 9 نومبر کو بغاوت کرنے کا تھا۔ لیکن جب چھاؤنی میں حالات مزید گرم ہوتے گئے تو اسی رات بغاوت کا فیصلہ کیا گیا۔‘

7 نومبر کی جوابی بغاوت

جوابی بغاوت 7 نومبر کی رات کو شروع ہوئی۔ جن میں سب سے آگے فوج کے جوان تھے۔

کے ایم شفیع اللہ بتاتے ہیں کہ سپاہیوں میں نعرے لگائے جا رہے تھے، ’سپاہی سپاہی بھائی بھائی، جے سی او کے علاوہ کوئی رینک نہیں۔‘

’سپاہیوں میں مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ افسران انھیں اوپر جانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں لیکن کسی نے ان کی پرواہ نہیں کی۔‘ اُسی رات ضیا الرحمن کو رہا کر دیا گیا۔

7 تاریخ کی رات چھاؤنی میں گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں اور باغیوں نے کچھ فوجی افسران کو ہلاک کر دیا۔

ان کے مطابق ’طاہر چاہتے تھے کہ ضیا الرحمن ریڈیو پر جا کر عوامی فوج کے 13 نکات کا اعلان کریں اور کہیں کہ انہوں نے یہ مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔ اس کے بعد وہ سپاہیوں سے خطاب کریں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ وہ ان مطالبات کو تسلیم کریں۔‘

بریگیڈیئر سخاوت حسین کے مطابق 7 نومبر کی بغاوت کے دوران کئی فوجیوں کو سویلین کپڑوں میں ہتھیاروں کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے دیکھا گیا۔

پروفیسر انور حسین کہتے ہیں کہ جس مقصد کے ساتھ جسدر نے بغاوت میں حصہ لیا، اس کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

’فوجیوں نے ضیا الرحمان کو چھاؤنی سے ایلیفنٹ روڈ پر لانا تھا۔ کرنل طاہر اور جسدر کے رہنما وہاں ایک گھر میں مقیم تھے۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔‘

پروفیسر حسین کا کہنا ہے کہ ملیشیا سے وابستہ سپاہیوں نے احکامات کے برخلاف ضیا الرحمان کو رہا کیا۔

’ضیا الرحمن نے ان سے کہا کہ کرنل طاہر ان کے دوست ہیں اور وہ انہیں یہاں لے آئیں۔ اس طرح وہ کسی حد تک دھوکہ کھا گئے۔ وہ انہیں دی گئی مخصوص ہدایات پر عمل نہ کر سکے۔‘

دریں اثنا 7 نومبر کی صبح، خالد مشرف، کرنل کے این ہڈا اور لیفٹیننٹ کرنل اے ٹی ایم حیدر مارے گئے۔ خالد مشرف کو کس نے حکم دیا اور کیوں قتل کیا گیا، اس بارے میں کوئی حتمی تحقیقات نہیں ہوسکی ہیں اور اس قتل کا ابھی تک کوئی ٹرائل نہیں ہوا ہے۔

انور حسین کہتے ہیں کہ ضیا الرحمن کی ریڈیو پر تقریر کے بعد بغاوت میں عوامی فوج کے کردار کو دبا دیا گیا اور عام لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ مکمل طور پر ضیا الرحمن کی بغاوت تھی۔

ضیا الرحمن 7 نومبر کے بعد اقتدار کے مرکز میں دوبارہ آ گئے۔

اس کے کچھ عرصے بعد کرنل طاہر کو 24 نومبر کو گرفتار کیا گیا اور 21 جولائی 1976 کو فوجی عدالت نے غداری کے الزام میں پھانسی دے دی۔

طویل عرصے کے بعد 2013 میں سپریم کورٹ نے کرنل طاہر کا ٹرائل کالعدم قرار دیا۔

ضیا الرحمن نے 1981 تک ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مئی 1981 میں ایک ناکام فوجی بغاوت میں انھیں قتل کر دیا گیا۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...