کوبرا سانپ کے گوشت کے شوقین، دانتوں کی صفائی نہ کرنے والے، اور عوام کے خوف میں مبتلا آمروں کی دلچسپ کہانیاں
آمروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں سے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ایک اور بات جو ان کے بارے میں درست ہے وہ یہ ہے کہ ہر آمر کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے، یعنی ایک وقت کے بعد اس کا زوال یقینی ہوتا ہے۔
دنیا میں چین کے ماؤ، پاکستان کے ضیاء الحق، عراق کے صدام حسین، لیبیا کے کرنل قذافی، یوگنڈا کے ایدی امین جیسے کئی آمر گزرے ہیں۔
حال ہی میں کئی ممالک میں انڈیا کے سفیر رہنے والے راجیو ڈوگرا کی ایک کتاب ’آٹوکریٹس: کرزما، پاور اینڈ دئیر لائیوز‘ منظر عام پر آئی ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے دنیا کے آمروں کی ذہنیت، کام کرنے کے انداز اور زندگی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
ڈوگرہ کا کہنا ہے کہ جب وہ رومانیہ میں انڈیا کے سفیر کے طور پر تعینات ہوئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ نکولائی سیوسکو کی موت کے ایک دہائی بعد بھی لوگ ان کے سائے سے خوفزدہ تھے۔
راجیو ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ نکولائی کی موت کے باوجود بھی ’لوگ پیچھے مڑ کر دیکھتے کہ کہیں کوئی اُن کا پیچھا تو نہیں کر رہا۔‘
’پارک میں گھومتے ہوئے لوگ ہمیشہ اس بات پر نظر رکھتے کہ کہیں کوئی بینچ پر بیٹھا فرد چہرے کے سامنے اخبار رکھ کر اُن کی سرگرمیوں پر نظر تو نہیں رکھ رہا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اخبار پڑھ رہا ہو تو وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کہیں وہ اخبار میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر کے اُنھیں چُھپ کر دیکھ تو نہیں رہا۔‘
ڈکٹیٹر مخالفت برداشت نہیں کرتے
ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ رومانیہ کے مشہور فلم اور تھیٹر اداکار آئن کرامیترو نے آمریت کے دور کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ ’ہم پر ہر وقت نظر رکھی جاتی تھی۔ ہمارے ہر عمل کو حکومت کنٹرول کرتی تھی۔‘
’انتظامیہ فیصلہ کرتی تھی کہ ہمیں کس سے ملنا چاہیے اور کس سے نہیں، ہمیں کس سے اور کتنی دیر تک بات کرنی چاہیے، آپ کو کیا کھانا چاہیے اور کتنا کھانا چاہیے اور یہاں تک کہ آپ کو کیا خریدنا چاہیے اور کیا نہیں۔ انتظامیہ یہ فیصلہ بھی کرتی تھی کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: چنار بزنس کانفرنس: پاکستان اور دبئی کے تعلقات باہم احترام پر قائم
آمریت کے بیج بچپن سے بوئے جاتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ ایک آمر کا بچپن یا ابتدائی زندگی مستقبل میں اس کے ظلم کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
لیون آریڈی اور ایڈم جیمز اپنے مضمون 'بینیٹو مسولینی کے بارے میں 13 حقائق' میں لکھتے ہیں کہ 'مسولینی بچپن سے ہی تُند مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کے مزاج میں بہتری لانے کے لیے اُن کے والدین نے انھیں ایک سخت کیتھولک بورڈنگ سکول میں داخل کروایا۔ تاہم ایسا کرنے میں سکول انتظامیہ بھی ناکام رہی۔'
وہ لکھتے ہیں کہ '10 سال کی عمر میں انھیں ایک ساتھی طالب علم پر قلم میں چھپے چاقو سے حملہ کرنے پر نکال دیا گیا تھا۔ جب وہ 20 سال کے تھے تو انھوں نے اپنی ایک گرل فرینڈ سمیت کئی دوسرے لوگوں پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔'
سٹالن بھی جوانی میں باغی طبعیت کے مالک تھے۔ انھوں نے کئی دکانوں کو آگ لگائی۔
یہاں تک کہ انھوں نے پارٹی کے لیے پیسے بٹورنے کے لیے لوگوں کو اغوا بھی کیا۔ بعد میں انھوں نے اپنا نام سٹالن رکھا، جس کا مطلب ہے 'لوہے کا بنا ہوا' ہے۔
لیکن اس کے برعکس شمالی کوریا کے آمر کم جونگ ان کا بچپن شان و شوکت اور عیش و عشرت میں گزرا۔ اردلیوں کی ایک پوری فوج بچپن میں ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
ان کے پاس یورپ کے کسی کھلونے کی دکان سے بھی زیادہ کھلونے تھے۔ ان کی تفریح کے لیے اُن کے گھر کے باغ میں بندر اور ریچھ پنجروں میں موجود تھے۔
اتنے لاڈ پیار کے باوجود کِم اب بھی دوسرے آمروں کی طرح خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی ادبی شخصیت اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اسامہ صدیق کے ساتھ انٹرایکٹو سیشن کا انعقاد
اقتدار میں رہنے کی چالیں
جب اقتدار کسی آمر کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو اس کی پہلی ترجیح اسے ہر قیمت پر محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔
راجیو ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ 'اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آمر کے رویے کا اندازہ نہ لگایا جا سکے۔ اقتدار میں رہنے کے لیے انھیں میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہوتا ہے۔'
'وہ ہمہ گیر ہونا چاہتے ہیں اور خدا کی طرح طاقتور، آپ پر نظر رکھنے والے اور اگر کوئی ان کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش بھی کرے تو اسے فوراً دبا دیا جائے۔'
دنیا کے تقریباً تمام آمر پروپیگنڈے کے ماہر ہوتے ہیں۔
سیو پروڈو نیو سٹیٹس مین کے 20 ستمبر 2019 کے شمارے میں مضمون ’دی گریٹ پرفارمرز: ہاؤ امیج اینڈ تھیٹر گیو ڈیکٹیٹرز دئیر پاور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مسولینی جانتے تھے کہ اُن کی جہاز اُڑانے کی تربیت لینے کے دوران لی گئی تصویر لوگوں میں بہت مقبول ہوگی، اُن پر لکھے جانے والے اداریوں سے بھی زیادہ۔‘
1925 میں اپنی پہلی ریڈیو نشریات کے بعد، انھوں نے سکولوں میں چار ہزار ریڈیو سیٹ مفت تقسیم کیے۔ کل آٹھ لاکھ ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے اور انھیں سننے کے لیے چوراہوں پر لاؤڈ سپیکر تک لگوائے گئے۔
سیو پروڈو لکھتے ہیں کہ ’ان کی تصویر صابن پر بھی تھی تاکہ لوگ اسے اپنے باتھ روم میں بھی دیکھ سکیں۔ ان کے دفتر کی لائٹس رات کو بھی روشن رکھی جاتی تھیں تاکہ ملک کو لگے کہ وہ رات گئے تک کام کر رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: کرکٹ ٹیم کے پاکستان نہ آنے سے متعلق بھارتی میڈیا کا دعویٰ، خواجہ آصف کا سخت ردعمل
کھانے کی عجیب عادتیں
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہٹلر جیسے ڈکٹیٹر صرف سبزیاں ہی کھاتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہٹلر کی خوراک صرف سوپ اور آلو تھی۔
کم جونگ اِل کو شارک اور کتے کے گوشت کا سوپ پینے کا شوق تھا۔
ڈیمک باربرا اپنے مضمون ’دی وے تو انڈرسٹینڈ کم جونگ اِل واز تھرو ہز سٹمک‘ میں 14 جولائی 2017 کے روزنامہ ڈیلی بیسٹ کے شمارے میں لکھتی ہیں کہ ’کِم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اُن کے پاس خواتین کی ایک ٹیم تھی۔‘
’اس ٹیم کا کام یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے کھانے میں چاول کا ہر دانہ سائز، شکل اور رنگت میں یکساں یعنی ایک جیسا ہو۔‘
کمبوڈیا کے مشہور آمر پول پوٹ کو کوبرا کا گوشت بہت پسند تھا۔ پول پوٹ کے باورچی نے ڈوگرہ کو بتایا کہ ’پہلے میں نے کوبرا کو مارا، اس کا سر کاٹ کر درخت پر لٹکا دیا تاکہ اس کا زہر نکل جائے۔‘
’پھر میں نے کوبرا کا خون ایک کپ میں اکٹھا کیا اور اسے سفید شراب کے ساتھ پیش کیا۔ پھر میں نے کوبرا کو باریک ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر میں نے اسے لیمن گراس اور ادرک کے ساتھ ایک گھنٹے تک پانی میں ابال کر پول پوٹ کو پیش کیا۔‘
مسولینی کا پسندیدہ کھانا کچے لہسن اور زیتون کے تیل سے بنایا جانے والا سلاد تھا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ یہ اُن کے دل کے لیے اچھا ہے۔
ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ ’اس کی وجہ سے ان کے منھ میں ہمیشہ لہسن کی بو آتی تھی، اس لیے کھانے کے بعد ان کی بیوی دوسرے کمرے میں چلی جاتی تھیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے گورنر سے جامعات کی چانسلرشپ کا اختیار واپس لے لیا
فوڈ ٹیسٹر ہٹلر کا کھانا چکھتا تھا
یوگنڈا کے صدر ایدی امین کے دور میں یہ افواہیں پھیل گئی تھیں کہ وہ اپنے مخالفین کو مار کر ان کا گوشت کھاتے تھے۔
انیتا شوروچز اپنے مضمون ’ڈکٹیٹرز کی عجیب کھانے کی عادات‘ میں لکھتی ہیں کہ ’جب ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انسانی گوشت کھاتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا مجھے انسانی گوشت پسند نہیں، کیونکہ یہ بہت نمکین ہوتا ہے۔‘
ایدی امین دن میں 40 سنترے کھاتے تھے۔
ہٹلر کے لیے جو کھانا تیار کیا جاتا تھا اسے پہلے ایک فوڈ ٹیسٹر چکھتا تھا۔
مارگٹ وولف، جو ان کے کھانے کے ذائقے چکھنے والوں میں سے ایک تھیں، نے ’ڈینور پوسٹ‘ کے 27 اپریل 2013 کے شمارے میں لکھا ’ہٹلر کا کھانا مزیدار تھا۔ اُن کے کھانے میں بہترین سبزیاں استعمال کی جاتی تھیں۔‘
’انہیں ہمیشہ پاستا یا چاول کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، لیکن زہر آلود ہونے کا خوف ہمیشہ رہتا تھا اس لیے ہم کبھی بھی کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو سکے۔ ہر دن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہماری زندگی کا آخری دن ہونے والا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم آئین کو درست سمت ڈالنے کا پہلا قدم ہے: ملک احمد خان
ماؤ نے کبھی دانت صاف نہیں کیے
دنیا بھر کے آمر اپنی عجیب و غریب حرکات اور عادات کی وجہ سے مشہور رہے ہیں۔ چین کے ماؤ زے تنگ نے زندگی بھر دانت برش نہیں کیے۔
ماؤ کے ڈاکٹر زیسوئی لی اپنی کتاب ’پرائیویٹ لائف آف چئیرمین ماؤ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ماؤ دانت صاف کرنے کے بجائے سبز چائے سے غرارے کرتے تھے، زندگی کے آخر تک ان کے تمام دانت سبز ہو چکے تھے اور ان کے مسوڑھے بھی پیپ سے بھر گئے تھے۔‘
ایک بار جب ان کے ڈاکٹر نے انھیں اپنے دانت صاف کرنے کا مشورہ دیا تو اُن کا جواب تھا ’شیر کبھی دانت نہیں برش کرتا، پھر بھی اس کے دانت اتنے تیز کیوں ہیں؟‘
جنرل نی ون نے برما پر 26 سال یعنی 1988 تک حکومت کی۔ جوئے، گالف اور خواتین کے شوقین جنرل ون کو بہت جلد غصہ آجاتا تھا۔
راجیو ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ ’ایک بار ایک نجومی نے ان سے کہا تھا کہ 9 کا نمبر ان کے لیے بہت اچھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے ملک میں چل رہے تمام 100 کے نوٹ واپس لینے کا حکم دیا اور ان کی جگہ 90 کا نوٹ جاری کر دیا۔‘
’نتیجہ یہ ہوا کہ برما کی معیشت تباہ ہو گئی اور لوگ اپنی زندگی بھر کی بچت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟
البانیہ کے ڈکٹیٹر کا ہم شکل
البانیہ کے اینور ہوکشا (Enver Hoxha) 1944 سے 1985 تک اقتدار میں رہے۔
وہ ہر وقت ڈرتے رہتے تھے کہ اُن کے ملک پر حملہ ہونے والا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے انھوں نے ملک بھر میں 75 ہزار بنکر بنوائے۔
انھوں نے بینک نوٹوں پر اپنا چہرہ چھاپنے سے انکار کر دیا۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں نوٹوں پر چھپی اُن کی تصویر پر کوئی جادو نہ کر دے۔
بلیندی فاوزوئی اپنی کتاب ’اینور ہوکشا: دی آرن فرسٹ آف البانیہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وہ قتل ہونے سے اتنا خوفزدہ تھے کہ انھوں نے اپنے لیے ایک ہم شکل بھی رکھا ہوا تھا۔ اس کام کے لیے ایک شخص کو ایک دیہات سے اُٹھایا گیا اور متعدد بار اُن کی پلاسٹک سرجری کی گئی اور انھیں اینور جیسا بنایا گیا تھا۔‘
’ان کے ہم شکل کو اُن ہی کی طرح چلنا سکھایا گیا۔ اور پھر اُن کے اُسی ہم شکل نے کئی کارخانوں کا افتتاح کیا اور تقریریں بھی کیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: عدالت کا علی امین کو گرفتار کرکے 26 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم
ترکمانستان اور ہیٹی کے آمروں کا جنون
اسی طرح ترکمانستان کے ڈکٹیٹر سپرمورات نیازوف نے اپنے غریب ملک کے دارالحکومت میں خود کا 50 فٹ اونچا سونے سے بنا مجسمہ لگوایا۔
انھوں نے ایک کتاب ’روحنامہ‘ بھی لکھی۔ انھوں نے حکم دیا کہ ڈرائیونگ لائسنس صرف اس شخص کو دیا جائے جنھیں اُن کی یہ کتاب پوری طرح یاد ہو۔
انھوں نے عوامی اجتماعات اور ٹیلی ویژن پر موسیقی پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
ہیٹی کے آمر فرانکوئس ڈوولیئر اتنے توہم پرست تھے کہ انہوں نے اپنے ملک میں تمام کالے کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایئر چیف سے پاک فضائیہ کی مشترکہ مشق “انڈس شیلڈ 2024” کے موقع پر سری لنکن ایئر چیف کی ملاقات
ایدی امین اور انور ہوکسا کی بربریت
راجیو ڈوگرہ لکھتے ہیں کہ ’70 کی دہائی میں یوگنڈا کے سفاک رہنما ایدی امین نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے سر کاٹ کر اپنے فریزر میں رکھتے تھے۔‘
’اپنے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں انہوں نے 80 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں بینکرز، دانشور، صحافی، کابینہ کے وزرا اور ایک سابق وزیر اعظم شامل تھے۔‘
اسی طرح البانیہ کے ڈکٹیٹر اینور ہوکشا نے بھی اپنے مخالفین کو نہیں بخشا۔
بلیندی فوزوئی لکھتے ہیں کہ ’انہوں نے دانشوروں کو اس حد تک قتل کیا کہ ان کی موت کے وقت تک پولٹ بیورو میں کوئی بھی ایسا نہیں بچا تھا جس نے ہائی سکول سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہو۔‘
البانیہ میں شہریوں پر حکومتی کنٹرول کی حالت ایسی تھی کہ وہ اپنے بچوں کے نام اپنی مرضی کے مطابق نہیں رکھ سکتے تھے۔
صدام حسین کا فائرنگ سکواڈ
اسی طرح سنہ 1979 میں اقتدار میں آنے کے سات دن بعد عراقی صدر صدام حسین نے 22 جولائی کو سوشلسٹ پارٹی کے رہنماؤں کا اجلاس بلایا تھا۔
ان کی ہدایت پر اس ملاقات کی ویڈیو بنائی گئی۔ وہاں صدام حسین نے اعلان کیا کہ وہاں موجود پارٹی کے 66 رہنما غدار پائے گئے ہیں۔
کون کوگلین اپنی کتاب ’صدام دی سیکریٹ لائف‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی لیڈر کا نام پکارا جاتا، گارڈز اس کی سیٹ کے پیچھے سے آتے اور اسے ہال سے باہر لے جاتے۔ آخر میں جو لوگ رہ گئے، وہ گھبرا گئے۔‘
’انہوں نے کھڑے ہو کر صدام حسین سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ 22 افراد کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ اب پورا ملک صدام حسین کا تھا۔ وہ پورے ملک میں اپنا خوف پھیلانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔‘