تابکاری مواد کی برآمدگی کے واقعات پر انڈین حکومت کی تشویش: عالمی سطح پر انڈیا کی بدنامی کا خدشہ
انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے ملک کی تمام ریاستوں سے درخواست کی ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کو ہدایت دیں کہ غیر قانونی جوہری اور دیگر تابکاری مادوں کی پکڑ کے بارے میں فوری طور پر میڈیا کو معلومات فراہم نہ کی جائیں۔
وزارتِ داخلہ نے ریاستوں کو ارسال کئے گئے ہدایت نامے میں کہا ہے کہ برآمد شدہ مادوں کی تابکاری کی تصدیق مختلف تجزیوں اور جانچوں کے بعد ہی ہو سکتی ہے، اور تصدیق کے عمل سے پہلے میڈیا میں بیانات دینے سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی بدنامی ہوتی ہے۔
انڈین میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، مرکزی وزیرِ داخلہ نے حال ہی میں ریاستوں کے چیف سیکریٹریز، پولیس سربراہان اور پولیس کمشنرز کو بھیجے گئے سرکاری خط میں اس طرح کے معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں ریاستی پولیس "تابکاری مادے" کی لیبارٹری میں سائنسی بنیادوں پر تصدیق سے پہلے ہی پریس کو بیان دے دیتی ہے۔
روزنامہ "انڈین ایکسپریس" کے مطابق، اگرچہ اس خط میں وزارت داخلہ نے کسی مخصوص واقعے کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ شر پسند عناصر جعلی مادوں کو تابکاری مادہ بتا کر خبروں میں اٹھاتے ہیں، "جس کا مقصد جوہری اور تابکاری مادوں کی حفاظت کے حوالے سے انڈیا کے حفاظتی انتظامات اور ضوابط کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر انڈیا کو بدنام کرنا ہے۔"
خط کے مطابق، اس مہم کا مقصد عالمی سطح پر یہ تاثر دینا ہے کہ انڈیا میں جوہری اور تابکاری مادوں کی سمگلنگ کا ایک بلیک مارکیٹ موجود ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ہدایت نامے میں تمام پولیس اہلکاروں سے کہا گیا ہے کہ کسی مشتبہ تابکاری مادے کی برآمدگی کی صورت میں پریس میں بیان دینے سے قبل اس مادے کو سائنسی تجزیے کے لیے اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کو بھیجیں، اور جب وہاں سے اس کی تصدیق ہو جائے تو ہی کوئی بیان جاری کریں۔
یہ واضح رہے کہ انڈیا میں مشتبہ جوہری مادے کی پکڑ پر پولیس اہلکار پریس کانفرنس کرکے معلومات فراہم کرتے تھے، اور بعض حالیہ معاملات میں ایسے افراد کو بھی میڈیا کے سامنے لایا گیا تھا جن کے پاس مشتبہ تابکاری مادہ تھا، اور میڈیا کو مشتبہ مادوں کی تصاویر لینے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
تابکاری مادہ برآمد ہونے کا ایک واقعہ تین مہینے پہلے سامنے آیا تھا جب اگست 2024 میں بہار کی پولیس نے گوپال گنج ضلع میں تین افراد کے قبضے سے 50 گرام نایاب کیلیفورنیم پتھر برآمد کیا تھا۔
یہ ایک نایاب تابکاری مادہ ہے اور اس کی قیمت 850 کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔ گوپال گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ یہ سمگلر کئی مہینوں سے اس مادے کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ملزمان کے پاس اس مادے کے بارے میں لیباریٹری کی ایک ٹیسٹ رپورٹ بھی ملی تھی۔ لندن میں واقع رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کے مطابق کیلیفورنیم طاقتور نیوٹران خارج کرنے والا ایک مادہ ہے اور اس کا استعمال ایسے میٹل ڈیٹیکٹر میں کیا جاتا ہے جو زمین کے اندر سونے، چاندی کی تہیں، پانی اور تیل کی موجودگی اور ہوائی جہازوں میں گل جانے اور خراب ہونے والے آلات کا پتہ لگاتے ہیں۔
بہار میں کیلیفورنیم تابکاری مادے کی برآمدگی کے واقعے کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اگست میں انڈیا میں جوہری مادوں کی حفاظت کے نظام کی مؤثریت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو انڈیا میں جوہری اور دیگر تابکاری مادوں کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے بار بار رونما ہونے والے واقعات پر گہری تشویش ہے۔
انھوں نے بہار کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تازہ ترین واقعہ میں ایک گینگ کے قبضے سے 100 ملین ڈالر مالیت کا انتہائی تابکار اور ٹاکسک مادہ کیلیفورنیم برآمد ہوا ہے اور اس طرح کے حساس مواد وقتاً فوقتاً انڈیا میں غلط ہاتھوں میں پہنچنا بہت ہی خطرناک ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے تابکاری مواد کی برآمدگی کے دیگر واقعات کا بھی ذکر کرتے ہوئے انڈین حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کی مکمل اور مفصل وضاحت کرے کہ کس طرح کیلیفورنیم جیسے محفوظ تابکار مادے غیر متعلقہ ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
انڈیا نے اس وقت پاکستان کے بیان کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا کہ اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کے ماہرین نے مبینہ کیلیفورنیم مادہ کا تجزیہ کیا تھا اور انھیں اس میں کوئی تابکاری اثرات نہیں ملے ہیں۔
اٹامک بورڈ نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ جیسوال نے کہا تھا کہ جو بے بنیاد تبصرے کر رہے ہیں ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے پراپیگنڈہ سے باز آ جائیں۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ انڈیا میں تابکاری مادوں کے تحفظ کا ایک مؤثر قانونی نظام اور ضابطہ نافذ ہے اور انڈیا کے جوہری کنٹرول کا ریکارڈ خود اس کے مؤثر ہونے کا ثبوت ہے۔
انڈیا کی حکومت نے جس طرح ریاستوں کی پولیس کو تابکاری کے مادوں کی برآمدگی کے بارے میں متعلقہ سرکاری لیبارٹریز کی تصدیق کے بغیر کوئی بیان دینے سے منع کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بارے میں انڈیا کی تشویش بڑھ رہی ہے۔
یاد رہے کہ بہار کے واقعہ سے محض ایک مہینے قبل جولائی 2024 میں اتراکھنڈ کی پولیس نے دہرہ دون میں پانچ افراد کو جوہری مادے اور ریڈیوگرافک کیمرہ کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ اس وقت دہرہ دون کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجے سنگھ نے اُن افراد کی گرفتاری اور تابکاری مادے کی برآمدگی کی تصدیق کی تھی۔
یہ مواد مضبوط پیلیکن باکس میں رکھا گیا تھا۔ مشتبہ افراد نے پولیس کو مبینہ طور پر بتایا تھا کہ اس باکس کو کھولنا خطرناک ہو گا کیونکہ اس کے اندر جوہری کیمیکل رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں اور نیوکلیئر پاور کارپوریشن کی ریاستی ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیم کی تفتیش سے یہ تصدیق ہوئی تھی کہ اس باکس میں تابکاری مادہ رکھا ہوا تھا۔
مزید تجزیے کے لیے ملک کے جوہری تحقیق کے سب سے اہم ادارے بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر سے رجوع کیا گیا تھا۔
انڈیا میں اس سے قبل 2021 میں مہاراشٹر کی پولیس نے دو افراد کو تقریباً سات کلوگرام قدرتی یورنیم کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد جھارکھنڈ کی پولیس نے بھی سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے قبضے سے ساڑھے چھ کلوگرام یورینیم برآمد کی گئی تھی۔
جھارکھنڈ میں یورینیم کی ایک بڑی کان ہے۔ ان واقعات میں پولیس کے ابتدائی بیانات کے بعد مزید تفصیلات کا پتہ نہیں چل سکا۔
انڈیا میں سنہ 1962 کے اٹامک انرجی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت نے تابکاری مادوں کو بنانے، رکھنے، استعمال، منتقلی، برآمد، درآمد اور انھیں ضائع کرنے کے ضابطے بنا رکھے ہیں اور انھیں وہ مختلف اداروں کے ذریعے سختی سے نافذ کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشل اٹامک انرجی ایجنسی مختلف ملکوں اور بین الاقوامی سطح پر جوہری اور تابکاری مادوں کے پھیلاؤ پر نظر رکھتی ہے۔ ایجنسی نے سنہ 2023 کی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2022 میں عالمی سطح پر مختلف ملکوں میں جوہری اور دیگر تابکاری مٹیریل سے متعلق 146 واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے جن میں جوہری اور تابکاری مادوں کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔
اس کی ایک مفصل فہرست جاری کی گئی تھی لیکن یہ رپورٹ خفیہ رکھی جاتی ہے اور صرف اس میں شامل 143 ممالک اور انٹرپول جیسے متعلقہ بین الاقوامی ادارے ہی اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔