بہتے دریائے نیل سے آس پاس کی پہاڑیاں اور مندر دلکش منظر پیش کر رہے تھے، مقامی مصری اور غیر ملکی سیاح مچھلیاں پکڑنے کا شوق بھی پورا کر رہے تھے

مصنف کی تفصیل

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 56

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان کے یوم آزادی پر ترکیہ اور پاکستان کے رہنماؤں کی شرکت دوستی کی عکاس ہے: الہام علیوف

سیاحوں کی آمد

باہر سے آئے ہوئے زیادہ ترغیر ملکی سیاح اس وقت الأقصر کے اردگرد کے معبدوں، مندروں، مدفنوں اور ملحقہ پہاڑیوں میں سے فرعونوں کی تاریخ کھنگالنے دریا کے دوسری طرف نکلے ہوئے تھے۔ موسم بھی مناسب سا تھا۔ حبس تو تھا مگر گرمی قابلِ برداشت تھی اس لئے بار بار بھاگ کر کسی سائے تلے پناہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی کی وزیرِ اعلیٰ پر تنقید

تانگے میں سیر

میں بظاہر تانگے میں بیٹھا الأقصر کے بازاروں میں گھوم رہا تھا لیکن حقیقتاً میرے خیالات ابھی تک فرعونوں کی گم گشتہ تاریخ میں ہی کھوئے ہوئے تھے۔ میں اس بات کو لے کر بڑا پُرجوش تھا کہ اب میں نہ صرف ان کے رہن سہن کے بارے میں تفصیل سے کچھ سمجھ سکوں گا بلکہ ان کے محلات اور مدفنوں کے علاوہ ان کی عبادت گاہوں میں بھی گھوموں پھروں گا جن میں سے اکثر دریا کے اس پار یعنی مغرب کی طرف میرے منتظر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ خضدار، معصوم اور بے گناہ بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا: وزیر اعلیٰ مریم نواز

دریائے نیل کا منظر

ہم وہاں شہر سے کچھ دور دریائے نیل کے کنارے بنے ہوئے ایک خوبصورت پارک میں بیٹھے رہے جہاں سے کشتیاں اس پار آ جا رہی تھیں۔ دریائے نیل ہمیشہ کی طرح بڑے پُرسکون انداز میں مگر کروفر سے بہے چلا جا رہا تھا۔ چونکہ یہ پانی اسوان ڈیم سے ہوتا ہوا یہاں پہنچتا ہے اس لئے اپنی تمام مٹی اور کثافتیں وہیں کہیں جھیل کی تہہ میں ہی چھوڑ آتا ہے اور اب یہ صاف ستھرا پانی دریا کے نام کی مناسبت سے نیلگوں ہی نظر آتا تھا۔ یہاں چھوٹے بحری بیڑے، بادبانی کشتیاں اور موٹر بوٹ رواں دواں تھیں۔ اس کے علاوہ کچھ بڑے بجرے جنہیں کروزر کہتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں سیاحوں کو لئے بہت ہی شاہانہ انداز میں پُرسکون دریا کا سینہ چیرتے ہوئے اسوان اور قاہرہ کی طرف آ جا رہے تھے۔ ان کے مسافر عرشوں پر بچھائی گئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور کیمروں کے مدد سے اس علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ کی عکاسی کر رہے تھے۔ بہتے ہوئے دریائے نیل میں سے آس پاس کی پہاڑیاں اور مندر یقیناً بڑا ہی حسین اور دلکش منظر پیش کر رہے ہونگے۔ اکثر جگہ پر مقامی مصری باشندے اور غیر ملکی سیاح کانٹے لگائے مچھلیاں پکڑنے کا شوق پورا کر رہے تھے۔ غرض ہر طرف ایک رونق میلے کا سا سماں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی بھرتی کیس: پرویز الہٰی کی حاضری معافی کی درخواست منظور

چائے خانہ میں آرام

ہم نے دریا کے کنارے کچھ چہل قدمی کی۔ اس دوران احمد مختلف اطراف میں اشارے کرکے تاریخ کے اسباق دوہراتا رہا۔ بعدازاں ہم نے وہاں کے ایک چائے خانے میں بیٹھ کر بے تحاشہ میٹھا قہوہ پیا اور پھر میں احمد کے مشورے پر واپس اپنے ہوٹل آگیا۔ اس کا مشورہ تھا کہ میں ایک دو گھنٹے کے لئے تھوڑا سا سستا لوں، کیونکہ شام کا پروگرام کافی لمبا اور تھکا دینے والا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ممی راک بیبی شاک: حاملہ خاتون کے دھواں دھار رقص کی ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا

اہم مندر کی سیر

احمد مجھے کمرے میں بھیج کر رخصت ہوا اور تین بجے دوبارہ آنے کا کہہ گیا تاکہ یہاں کی مرکزی سیر گاہ کرناک مندر اور دیگر عبادت گاہوں اور شاہی محلات وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لیا جاسکے اور پھر وہیں بیٹھ کر رنگ اور روشنیوں کا لائیٹ اینڈ ساؤنڈ شو کا انتظار کیا جائے جو سات بجے شروع ہونا تھا اور جس کے ٹکٹ کمپنی والوں نے قاہرہ ہی میں میرے حوالے کر دیئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک دن آئے گا پی ٹی آئی اڑ جائے گی، ملک میں الیکشن 5 سال بعد ہونگے: وفاقی وزیر امیر مقام

کرناک کا مندر

کرناک کا یہ مندر کوئی چار ہزار سال پرانا تھا اور اسے اپنے زمانے کا دنیا کا سب سے بڑا مندر تصور کیا جاتا تھا۔ اس سارے علاقے کو قدیم زبان میں تھبیس کہا جاتا تھا۔ دراصل یہ کئی بڑے بڑے مندروں اور محلات کا ایک مجموعہ تھا اور فرعونوں کے دور میں ہر آنے والا بادشاہ اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق اس میں توسیع اور تزین کرتا رہا تھا۔ فرعون اعظم یعنی رعمیسس ثانی اور اس سے پہلے کے کچھ بادشاہوں نے اسے اپناپا یہ تخت بنایا ہوا تھا اور یہیں بیٹھ کر وہ سارے مصر پر حکومت کیا کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں سونے کی قیمت میں اضافہ

ہوٹل میں کھانا

ہوٹل والوں کا دوپہر کا کھانا لذیذ تھا۔ میں نے اپنی جانی پہچانی چیزوں پر ہی ہاتھ ڈالا تھا اور پھر وہیں بیٹھ کر سارا دن بھوکا رہنے کا کفارہ ادا کر دیا۔ تھکاوٹ تھی اور کچھ خوراک کا خمار بھی چڑھا، کمرے میں جا کر سو گیا اور پھر فون کی مسلسل گھنٹیوں سے ہی آنکھ کھلی۔ نیچے احمد میرا انتظار کر رہا تھا اور مجھے جلدی آنے کی تاکید کر رہا تھا۔ ساڑھے تین کا وقت ہوگیا تھا۔ احمد نے افراتفری مچائی ہوئی تھی کہ جلدی کریں وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ بعد میں احساس ہوا کہ وہ صحیح کہتا تھا، وہاں واقعی دیکھنے کو اتنا کچھ تھا کہ وقت واقعی ہی کم پڑ جاتا۔(جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...