سیٹلائٹ کی تصاویر میں سموگ سے ڈھکا لاہور: “یہ صرف ابتدا ہے، بدترین آلودگی کے دن آنے والے ہیں”
سموگ کی شروعات آہستہ سے ہوتی ہے۔
پہلے پہل آپ اسے دیکھ نہیں سکتے لیکن سونگھ سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ جل رہا ہو اور اس میں تیزی تب آتی ہے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے۔
پھر دھواں اور دھند آپ کو اور آپ کے شہر کو گھیر لیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دھویں کے درمیان چل رہے ہوتے ہیں اور آپ کے سروں پر بھی سموگ کے بادل منڈلا رہے ہوتے ہیں۔
اگر آپ نے منھ پر ماسک نہیں لگایا ہوا یا ماسک کچھ دیر کے لیے منھ سے ہٹا لیا تو پھر اچانک ہی کڑوی سی ہوا آپ کے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔
آپ کے گلے میں تکلیف اور حلق میں خراشیں ہونے لگتی ہیں۔ طبعیت بگڑنے لگتی ہے، آپ کو چھینکیں آنے لگتی ہیں اور آپ کھانسنے لگتے ہیں۔
لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ سموگ زیادہ خطرناک ہے: جیسے کہ بچے، بزرگ یا وہ لوگ جنھیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران ان کے تمام وارڈز میں مریضوں کا رش بڑھنے والا ہے۔
لاہور اور اس کے ایک کروڑ 30 لاکھ رہائشی گذشتہ ایک ہفتے سے اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ اس مہینے ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر گیا، جب یہ نمبر 300 سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول چرند پرند و انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔
پاکستانی حکام اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی پھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ لاہور میں سموگ کے سبب ہر سال ہی شہریوں کو پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اس بار جو آلودگی کا عالم ہے وہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
سکول بند ہیں، ملازمین کو کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے کام کریں اور لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یہ تمام اقدامات ’گرین لاک ڈاؤن‘ کے تحت کیے جا رہے ہیں اور جن مقامات پر فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں رکشہ، بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ روزانہ رات 8 بجے شہر بھر میں بازار بند کروائے جائیں اور اتوار کو پورے دن تمام مارکیٹس بند رکھیں۔ شہر میں 17 نومبر تک تمام پارکس اور چڑیا گھر بھی بند رہیں گے۔
ناسا سے منسلک سائنسدان پون گپتا کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آلودگی ’نومبر اور دسمبر میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو شروعات ہے۔ بدترین آلودگی والے دن ابھی آگے آئیں گے۔‘
پنجاب کے دارالحکومت لاہور پر چھائی سموگ کو خلا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ناسا کی سیٹلائیٹ کی جانب سے لی گئی تصاویر میں بھارت کے دارالحکومت دہلی اور لاہور سمیت کئی مقامات پر سموگ کی موٹی تہہ اور آگ کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔
چھ ہفتے پہلے جب ان مقامات کی تصاویر لی گئی تھیں، یہاں کا آسمان صاف اور آگ کے نشانات کم تھے۔
بھارت اور پاکستان میں فصلوں کی کٹائی کے بعد گھاس پھوس کو جلانے کی عادت اس سموگ کی بڑی وجہ ہے۔ یہ آگ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلدی تیار کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔
ناسا کے گاڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر سے وابستہ سائنسدان ہیرن جیٹھوا کے مطابق، اس بار اس خطے میں '15 ہزار 500 سے 18 ہزار 500' مقامات پر آگ لگائی گئی، جو کہ پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے حکام کے مطابق تقریباً 30 فیصد سموگ لاہور میں پڑوسی ملک بھارت سے آتی ہے۔
سموگ پر قابو پانے کے لیے بھارتی حکومت نے کسانوں پر دو گُنا جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں۔
تاہم، لاہور میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پیدا کرنے والی چیزیں 50 لاکھ موٹر سائیکلیں اور لاکھوں گاڑیاں ہیں۔
شہر کے آس پاس کئی صنعتیں اور کوئلے سے چلنے والی اینٹوں کی بھٹیاں بھی ہیں جن سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سال کے اختتام پر یہ دھواں اور تبت کے پہاڑوں سے آنے والی سرد ہوا ماحول کو مزید آلودہ کر دیتی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ لاہور میں پھیلی ہوئی یہ زہریلی سموگ لوگوں کی صحت پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
امریکی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس کا 50 ہونا صحت مند ہوا کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ 300 سے اوپر آنے پر فضا زہریلی ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں ایئر کوالٹی انیشیٹو کے بانی عابد عمر کہتے ہیں کہ نومبر کے مہینے میں ہر دن ایئر کوالٹی انڈیکس بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
’لاہور کے کچھ مقامات پر تو ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ جمعرات کو ایئر کوالٹی انڈیکس پر ایک مقام پر ریڈنگ ایک ہزار 917 تھی۔‘
چند روز قبل پاکستان کے مقامی میڈیا میں خبر آئی کہ شہر بھر کے ہسپتالوں میں 900 سے زیادہ ایسے مریض موجود ہیں جنھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔
لاہور کے سب سے بڑے ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر عرفان ملک کہتے ہیں کہ ’جتنے لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں انھیں دمّے، گلے میں خراش اور کھانسی کی شکایات ہیں۔‘
لاہور کی رہائشی سعدیہ کاشف اس صورتحال کے سبب کافی پریشان ہیں۔ انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’ہر ماں کی طرح میں بھی اپنے بچوں کو بھاگتے اور کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ انھیں فضائی آلودگی کا کوئی خوف نہ ہو۔‘
حکومت کا ’گرین لاک ڈاؤن‘ ان کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’حکومت کے لیے سکول بند کر دینا آسان ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات لینا مشکل ہے۔‘
برسوں سے لاہور میں حکام شہر میں پھیلی آلودگی کا سدباب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے سبب عارضی بہتری ضرور ہوگی لیکن پبلک ٹرانسپورٹ اور دھواں اڑاتی گاڑیوں کا مسئلہ حل ہونے میں وقت لگے گا۔
پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وہ انڈین پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ ’ماحولیاتی سفارتکاری‘ کے ذریعے خطے کو درپیش ایک بڑے بحران کو ختم کرنے کے لیے کام کیا جا سکے۔
انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان نے ان سے تاحال رابطہ نہیں کیا ہے۔
عابد عمر کہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کوئی موسمی مسئلہ نہیں بلکہ سال بھر کا مسئلہ ہے۔
’لاہور دہلی کے مقابلے میں زیادہ آلودہ ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ عابد عمر کے تجزیہ کے مطابق گذشتہ برس اکتوبر کے مقابلے میں اس برس اکتوبر میں 25 فیصد زیادہ آلودگی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انڈیا اور پاکستان کو جلد ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
’میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ صاف اور نیلا آسمان گُڈ گورننس کی نشانی ہوتی ہے۔‘