دوسروں کے رویئے کو ترجیح دینا تباہ کن ہے، آپ کی قدر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہے اور دوسرے لوگ آپ کا مزید استحصال کرتے ہیں
مصنف اور مترجم
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
قسط: 44
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا جنوبی لبنان میں ہوٹل پر حملہ، 3 صحافی شہید
خوشنودی اور اصل خودی
اپنے روئیے اور طرزعمل کے مقابلے میں دوسروں کے روئیے اور طرزعمل کو ترجیح دینے کا عمل بہت ہی زیادہ نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ آپ کی اہمیت اور قدر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہے اور اگر وہ آپ کو اپنی خوشنودی اور رضامندی سے سرفراز نہیں کرتے تو پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اس کے بعد، آپ کو دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی کی مزید ضرورت پیش آتی ہے اور دوسرے لوگ آپ کا مزید استحصال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ساجد خان نے انگلینڈ ٹیسٹ سیریز کی ٹرافیاں اپنے بیٹوں کے حوالے کر دیں
منفی نتائج
اس صورتحال میں آپ اپنی مرضی اور خواہش کو بروئے کار لانے اور آزاد انداز فکر اپنانے پر مبنی رویہ اپنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتیجتاً، آپ کی طرف سے یہ مثبت رویہ خودغرضی سمجھا جاتا ہے، جب کہ آپ اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق عمل کرنے کی ایک کوشش کے طور پر اپناتے ہیں۔ اس استحصال پر مبنی مکروہ و نقصان پہنچانے والی صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جو آپ کے بچپن سے شروع ہوتی ہے اور اب بھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر میری داڑھی ہے تو کیا میں صرف مُلّا ہی بن سکتا ہوں؟
بچپن میں پیغامات کی اثرات
چھوٹے بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں میں اپنے سے بڑے افراد (والدین) کی طرف سے خوشنودی و رضامندی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ خوشنودی لازمی نہیں ہونی چاہیے۔ بچے کو اپنے اوپر اعتماد کرنے کا سبق دینا چاہیے اور ان کی محبت و شفقت کو غلط فہمی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت کا ایم ڈی کیٹ امتحان 4 ہفتوں میں دوبارہ لینے کا حکم
آزاد انداز فکر کی اہمیت
اگر ہم چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں کوئی فرد دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی کی ضرورت محسوس نہ کرے تو اسے بچپن ہی سے آزاد فکر اور سوچ کا عادی بنانا ہوگا۔ اگر بچہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنی والدین سے اجازت کے بغیر کچھ سوچنے یا کرنے کی اجازت نہیں تو اس کے اندر خود پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قاضی فائز عیسیٰ نے منفرد اعزاز اپنے نام کرلیا
معاشرتی سکھانے کے اثرات
ہمارے معاشرے میں بچے کو اکثر یہ سکھایا جاتا ہے کہ اسے خود کی مرضی اور خواہش کے بجائے دوسروں (والدین، اساتذہ وغیرہ) کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، بچہ اپنے والدین سے یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے: “میں کیا کھاؤں، کب کھاؤں، کتنا کھاؤں اور کہاں کھاؤں؟” پھر وہ اجازت لیتا ہے کہ “میں کس کے ساتھ کھیلوں؟” والدین اکثر بچے کو ہدایات دیتے ہیں کہ “یہ تمہارا کمرا ہے، لیکن تمہیں اسے اس طرح رکھنا چاہیے، کپڑوں کو اس طرح لٹکا دو، وغیرہ۔”
کتاب کی اشاعت
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔