احمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے بھارتی شائقین کے پتھراؤ کے دوران فیلڈرز کو ہیلمٹ پہننے پر مجبور کیا
یہ سنہ 1987 کا واقعہ ہے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم عمران خان کی قیادت میں انڈیا کا دورہ کر رہی تھی۔ دونوں ٹیمیں کسی بھی صورت ہارنا نہیں چاہتی تھیں اور پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے تین میچ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو چکے تھے۔
سیریز کا چوتھا ٹیسٹ انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں چار مارچ کو شروع ہوا۔ عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پاکستان نے انتہائی سست رفتاری سے بیٹنگ کی۔ اس میچ میں جاوید میانداد کمر میں تکلیف کی وجہ سے نہیں کھیل رہے تھے۔
پہلے دن کا کھیل ختم ہونے پر پاکستان نے چار وکٹوں کے نقصان پر 86 اوورز میں محض 130 رنز بنائے تھے اور سلیم ملک 17 رنز پر جبکہ منظور الہی 19 رنز پر کھیل رہے تھے۔
دوسرے دن بھی پاکستان کی بیٹنگ جاری رہی۔ سلیم ملک جلدی آؤٹ ہو گئے اور پھر عمران خان آئے اور وہ بھی اسی سست روی کے ساتھ کھیلتے رہے۔ منظور الہی قدرے تیز 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو ان کی جگہ اعجاز فقیہ کھیلنے آئے اور دونوں نے 154 رنز کی پارٹنر شپ کی۔
عمران خان 72 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جس میں آٹھ چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان کی ٹیم نے 379 رنز بنائے تھے اور اعجاز فقیہ سنچری بنا چکے تھے جبکہ عبدالقادر 20 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے۔
جمعہ آرام کا دن تھا اور کھیل کے تیسرے دن یعنی سنیچر کو پاکستان کی پوری ٹیم 187 اوورز اور تین گیندوں پر 395 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی تو انڈین ٹیم بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں اتری۔
یہ میچ انڈیا کے مایہ ناز بیٹسمین سنیل گواسکر کے 10 ہزار رنز مکمل ہونے کی وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے بیٹسمین تھے جو دس ہزار کا ہندسہ عبور کر رہے تھے۔
سنیل گواسکر نے بھی سست روی سے بیٹنگ شروع کی اور ایک نیا سنگ میل عبور کیا۔ یہ میچ کے تیسرے دن کی دوپہر تھی اور چائے کے وقفے کے بعد کھیل جاری تھا کہ اچانک سٹیڈیم کے ایسٹ سٹینڈ سے پانی سے بھری ایک بوتل میدان میں اس جگہ آ کر گری جہاں اعجاز فقیہ فیلڈنگ کر رہے تھے۔
اس سے پہلے کہ فیلڈرز کچھ سمجھ پاتے، مزید دو تین بوتلیں میدان پر آ گریں اور پھر کیا تھا بہت سے ناظرین کے جو کچھ ہاتھ میں آیا وہ میدان میں پھینکنے لگے۔
اس وقت سٹیڈیم کے تمام سٹینڈز آج کی طرح ڈھکے ہوئے نہیں تھے، صرف پویلین پر چھت تھی۔ 1983 میں بنائے گئے مختلف سٹینڈز میں بیٹھنے کے لیے کرسیوں کی جگہ زینے بنے ہوئے تھے جن پر ناظرین بیٹھ کر میچ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
انھوں نے سیمنٹ کے ٹکڑے اور ڈھیلے اٹھا کر میدان میں پھینکنا شروع کر دیے، آئس کریم اور کینڈی بیچنے والوں سے کینڈی خرید کر پاکستانی فیلڈرز پر پھینکنے لگے۔
پہلی بار رونما ہونے والے اس قسم کے واقعے سے پاکستانی ٹیم پریشان ہو گئی۔ عمران خان نے تمام فیلڈرز کو جلدی جلدی پویلین جانے کا حکم دیا۔ ایسے حالات میں کسی بھی کپتان کا ایسا فیصلہ کرنا فطری تھا۔
پاکستانی ٹیم کے تمام کھلاڑی پویلین لوٹ گئے اور ڈریسنگ روم پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ڈریسنگ روم کا دروازہ بھی بند کر دیا۔
گواسکر اور کپل دیو کی اپیل
اب مسئلہ منتظمین کے سروں پر آ گیا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو کیسے قائل کیا جائے کہ وہ میدان پر واپس آئیں اور کھیل جاری رکھا جا سکے۔ اس وقت ان کے پاس سکیورٹی کا بھی مناسب انتظام نہیں تھا۔
پولیس کو اطلاع دینا اور سکیورٹی کے لیے کال کرنا وقت کا ضیاع تھا کیونکہ سٹیڈیم میں پولیس کی تعداد بھی ناکافی تھی۔ (میچ سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ انھیں زیادہ سکیورٹی کی ضرورت نہ ہو گی)۔
ایسے میں گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ہر دلعزیز کھلاڑی سنیل گواسکر کی مدد لی، جو انڈیا میں کرکٹ شائقین کے پسندیدہ بھی تھے۔
گواسکر نے مائیک لے کر گجراتی میں لوگوں سے پرسکون رہنے اور مہمانوں کا احترام کے ساتھ استقبال کرنے کی اپیل کی۔ اسی طرح کی اپیل کپتان کپل دیو نے بھی کی اور ان دونوں کی اپیل کا خاصا اثر ہوا۔
اب پاکستان ٹیم کے ردعمل کی باری تھی۔ ٹیم منیجر اور سابق ٹیسٹ کپتان انتخاب عالم نے کھلاڑیوں کو میدان میں اترنے کی ہدایت کی۔ کھلاڑیوں کے پویلین سے نکلتے ہی ہزاروں تماشائیوں نے تالیاں بجا کر ان کو داد تحسین دیا۔ تاہم اگلے ہی لمحے کھلاڑی پھر پویلین لوٹ گئے۔
دراصل ان کے کپتان عمران خان منیجر کی ہدایت پر باہر آنے والے کھلاڑیوں کے پیچھے آئے۔
یہ بھی پڑھیں: پیر کے روز کن علاقوں میں موسم سرد رہنے کا امکان ہے؟ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی
عمران خان کی حکمت عملی
چند منٹ بعد تمام کھلاڑی میدان میں آئے لیکن اس بار تقریبا نصف نے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس طرح انڈین حکومت یا انڈین کرکٹ بورڈ کی سبکی ہوئی بہرحال شائقین خوش تھے کہ کم از کم پاکستانی ٹیم نے میدان میں واپس آنا تو قبول کیا۔
احمد آباد ٹیسٹ کے آفیشل سکورر تشار ترویدی نے ایک کرکٹ میگزن کو بتایا کہ ’یہ میچ کے تیسرے دن چائے کے بعد کا سیشن تھا جب ہجوم نے اچانک پاکستانی کھلاڑیوں کو گالی دینا شروع کر دیا۔ ایک طبقہ تھا جس نے پاکستانی فیلڈرز پر بوتلیں پھینکیں۔‘
ترویدی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہجوم کی پریشانی کی ایک اہم وجہ کھیل کی سست رفتاری تھی۔ ان کے مطابق ناظرین خاص طور پر دو کھلاڑیوں اعجاز فقیہ اور یونس احمد سے ناخوش تھے۔ فقیہ نے سنچری بنائی تھی لیکن بہت سست بلے بازی کی تھی۔ جبکہ یونس احمد بھی سست تھے۔‘
اعجاز فقیہ کو توصیف احمد کی جگہ سیریز کے بیچ میں ہی بلایا گیا تھا اور انھوں نے نہ صرف آتے ہی سنچری بنائی بلکہ اپنی پہلی گیند پر وکٹ بھی لی جسے عمران خان کا ’ماسٹر سٹروک‘ کہا گیا۔
خیال رہے کہ احمد آباد کی فرقہ وارانہ انتشار کی تاریخ رہی ہے۔ تاہم، سابق سکورر اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ یہاں جو حرکت ہوئی تھی اس کا پاکستانی ٹیم سے کوئی تعلق تھا۔
ترویدی کے مطابق ’ہجوم نے شاید اس لیے ردعمل ظاہر کیا کیونکہ وہ معیاری کرکٹ سے محروم تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ انھوں نے یہ کام صرف پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی بھی ٹیم کے ساتھ کیا ہوتا۔‘
ان کے مطابق رضوان الزماں نے پانچ رنز کے لیے 75 منٹ بیٹنگ کی جبکہ سلیم ملک نے 20 رنز کے لیے سوا تین گھنٹے بیٹنگ کی۔
عمران نے بعد میں پریس کو آؤٹ فیلڈ میں کھلاڑیوں پر پھینکے گئے پتھروں میں سے ایک دکھایا۔ یہ کرکٹ کی گیند کے سائز کا تھا۔
ان کے مطابق رضوان الزماں اور عبدالقادر ان کی زد میں آئے تھے۔ ایسا واقعہ بین الاقوامی ٹیسٹ کرکٹ یا محدود اوورز کی کرکٹ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ جب ایک ہی وقت میں اتنے سارے فیلڈروں نے ہیلمٹ پہن رکھے ہوں۔
بہر حال جب 50 منٹ کی تاخیر کے بعد پاکستانی ٹیم میدان میں آئی تو کھیل شروع ہوا لیکن پھر ایک بار کھیل روکنا پڑا۔
گواسکر کے 10 ہزار رنز اور دوسرے ریکارڈ
جب انڈین بلے باز گواسکر نے اعجاز فقیہ کی گیند کو کٹ کیا اور بیٹ اٹھا کر رن لینے کے لیے دوڑے تو انھوں نے اپنے دس ہزار رنز مکمل کیے۔ اس موقع پر تماشائیوں نے پولیس کے حفاظتی انتظامات کی کوئی پروا نہیں کی اور گواسکر کے ریکارڈ کا جشن منانے کے لیے میدان میں گھس آئے۔ ان کی وجہ سے بھی تقریباً 15 منٹ تک کھیل رکا رہا۔
تیسرے دن کے کھیل کے اختتام پر عمران نے پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے واک آؤٹ نہ کرنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم ٹیسٹ جیتنا چاہتے ہیں، اور دوسرا یہ کہ جب سیریز اتنے دوستانہ ماحول میں کھیلی گئی ہے تو ہم معاملات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔‘
بہر حال یہ ٹیسٹ صرف ہیلمٹ، تماشائیوں کے خراب سلوک اور گواسکر کے ریکارڈ کے لیے یاد گار نہیں بلکہ اس میں شو لال یادو نے اقبال قاسم کو آؤٹ کر کے اپنی 100 وکٹیں بھی مکمل کی تھیں۔ اس طرح وہ انڈیا کی جانب سے 100 یا اس سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے 11 ویں کھلاڑی بنے۔
اسی طرح جب عبدالقادر نے انڈین وکٹ کیپر کرن مورے کو 23 رنز پر آوٹ کیا تو یہ ان کی 150ویں وکٹ تھی۔ اس میچ میں انڈیا کی جانب سے دلیپ وینگسارکر نے سنچری بنائی اور اسے بھی کرکٹ کی تاریخ کی انتہائی سست سنچریوں میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔
بہر حال یہ ٹیسٹ میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد والے ٹیسٹ میں پاکستان نے تاریخ رقم کی اور پہلی بار انڈیا میں میچ کے ساتھ ٹیسٹ سیریز بھی جیتی۔ یہ ٹیسٹ سیریز گواسکر کی آخری ٹیسٹ سیریز تھی۔