سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اسرائیل کے مقابلے میں ایران کے حق میں بیان اور خطے میں طاقت کی نئی بازی گری

غزہ اور لبنان میں جاری اسرائیلی حملوں کے درمیان، ایک طرف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مسلم اور عرب ممالک کا اجلاس جاری ہے، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان اہم ملاقاتیں اور بات چیت ہو رہی ہیں۔

سعودی فوج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بات بھی کی ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق، سعودی وفد نے ایران کے فوجی حکام کے ساتھ دونوں ممالک کے عسکری تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔

ایرانی مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حامد الرویلی نے ایرانی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد بغیری سے دفاعی تعلقات پر بھی گفتگو کی۔

ایرانی میڈیا اس دورے کو ’غیر معمولی‘ قرار دے رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان آخری بار براہ راست فوجی رابطے دسمبر 2023 میں ٹیلی فون کالز کے ذریعے ہوئے تھے۔

سعودی عرب کی وزارت دفاع نے اس دورے کی تفصیلات ایکس پر شیئر کیں اور بتایا کہ دونوں ممالک کی ملاقات کا مقصد فوجی اور دفاعی تعاون پر بات چیت کرنا ہے۔

تاہم، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں لگتا۔ گذشتہ جمعے کو یمن کے صوبہ حضر موت کے شہر صیون میں سعودی عرب کی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ ہوا تھا، جس میں ایک سعودی افسر اور ایک فوجی ہلاک، جبکہ تیسرا زخمی ہوا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ وہاں کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب کی قیادت والی اتحادی فوج نے کیمپ پر حملے کو ’بزدلانہ‘ قرار دیا تھا۔

اس کے باوجود، پیر کے روز ریاض میں مسلم اور عرب ممالک کے اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ’نسل کشی‘ قرار دیا اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے اسرائیل کو ایران پر حملوں کے خلاف خبردار کیا، جو تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سعودی حکام کی جانب سے یہ پہلا موقع ہے کہ اتنا سخت بیان سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ریاض میں عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے دوران محمد بن سلمان نے لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی بھی مذمت کی۔

ولی عہد کی ایرانی صدر سے بات چیت

ولی عہد کی ایرانی صدر سے بات چیت

سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی وفد کے ایران پہنچنے کے بعد، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فون رابطہ کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کو فون کیا اور اس مکالمے کے دوران عرب اسلامی کانفرنس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس کانفرنس کے لیے عرب اور مسلم ممالک کے رہنما پیر کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے ہیں۔ ایران کی جانب سے نائب صدر محمد رضا عارف اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض گئے ہیں۔

اس کانفرنس کی بنیادی ترجیح فلسطین اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا، عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اور خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے عالمی برادری پر دباؤ ڈالنا ہے۔

ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ایران اور سعودی عرب گزشتہ سال سے قریب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ثالثی کی تھی۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سنہ 2016 سے بہت خراب تھے جب ایرانی مظاہرین نے تہران اور مشہد میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملہ کیا تھا۔

گزشتہ اکتوبر کے آغاز میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی ریاض پہنچے تھے اور ولی عہد سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں قدرے بہتری آئی۔ گزشتہ اکتوبر میں دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی تھیں۔

سعودی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے۔

تاہم اسی دوران ایران کی خبر رساں ایجنسی اسنا (ISNA) نے اطلاع دی تھی کہ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحر ہند میں مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی ہے جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

ایران کے فوجی کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں مشترکہ فوجی مشقوں کی درخواست کی تاہم فوجی مشقوں کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی۔

سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی فوجی وفد کا دورہ ایران ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے ایک نیا دعویٰ کیا گیا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے لیے بحیرہ احمر میں امریکا کی سربراہی میں ایک اتحاد بنایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہوں گے۔

اتوار کے روز اسرائیلی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ احمر میں فوجی تعاون کا مقصد بحری نقل و حمل، تیل، گیس اور سٹریٹجک اثاثوں کو ایرانی خطرے سے بچانا ہے۔

اسرائیلی نیوز ویب سائٹ ’زمانے اسرائیل‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ ’علاقائی دفاعی اتحاد‘ عراق اور یمن میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔

کیوان حسینی کا تجزیہ: ’محمد بن سلمان امریکہ اور اسرائیل کی کٹھ پتلی کے طور پر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘

گزشتہ ایک دہائی میں سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے عروج کے ساتھ ہی ریاض اور تہران کے تعلقات تبدیل ہونے لگے۔ امریکہ کے ساتھ تاریخی تعلقات رکھنے کے باوجود سعودی ولی عہد اس خطے کی اہم ترین شخصیت بن گئے جنھوں نے ایران کے معاملے پر دل و جان سے کام کیا۔

اگرچہ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب دو سال سے بھی کم عرصے میں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے لیکن یہ مذاکرات اور ان کے نتائج کسی اتحاد کی وجہ سے نہیں کیونکہ تہران اور ریاض کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

سعودی عرب روایتی طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ اپنی خارجہ پالیسی میں وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ امریکہ کے مفادات اور مطالبات پر سوال نہ اٹھائے جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان علاقائی مقابلے کی تاریخ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ سے بھی زیادہ طویل ہے۔

اسرائیل کی لبنان میں جاری فوجی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس تنازعے میں ابھی تک جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

اس سب کے دوران امریکہ کا صدارتی الیکشن ایک ایسا شخص جیت چکا ہے جو اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ایران کے ساتھ ایک سخت معاہدے کا وعدہ کر کے بھی آیا ہے۔

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کا مطلب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔

لیکن اگر یہ پیشگوئیاں درست ثابت ہوئیں تو خطے کے بہت سے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب جیسے وہ ملک جو امریکہ کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات رکھتے ہیں، کو ایک مشکل فیصلہ کرنا ہو گا کیا انھیں ایران کا ساتھ دینا چاہیے یا اس فوجی کشیدگی میں غیر جانبدار رہنا چاہیے؟

لیکن ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف غصہ انتہا کو پہنچ چکا ہے تو اس صورتحال میں سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی ایران اور اسرائیل کے بارے میں ’غیر جانبداری‘ کی انھیں بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔

پیر کو اپنی تقریر میں محمد بن سلمان نے واضح کیا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے کٹھ پتلی بادشاہ کے طور پر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ موقف نہ صرف ان کی خطے میں حیثیت پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے بلکہ سعودی عرب کے کردار کے لیے بھی اہم ہے جو طاقت پر مبنی تعلقات میں ہے۔

سعودی عرب اب خاموش رہنے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کو نظر انداز کرنے کی بجائے کھل کر اسرائیل کے خلاف اور ایران کے حق میں سامنے آیا ہے۔

محمد بن سلمان نے محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے 'بین الاقوامی برادری' سے خطاب کیا اور عملی طور پر مغربی دنیا کو اپنی تقریر کے اصل سامعین کے طور پر منتخب کیا۔ یہ سعودی عرب کے چہرے کو از سر نو تعمیر کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اس ملک کی حیثیت کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ایک مسلسل مہم کا حصہ ہے، جو کئی سال پہلے شروع کی گئی تھی۔

اس تقریر سے واضح ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان اب ایران کے خلاف توازن قائم کرنے کے لیے اسرائیل یا امریکہ کے قریب جانے کی تلاش میں نہیں ہیں۔

برعکس، اس بار وہ اسرائیل کی طاقت میں اضافے سے پریشان ہیں، ایک ایسا عمل جو اب بھی جاری ہے اور اگر اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو اس سے خطے میں اسرائیل کا غلبہ بڑھ سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...