پراسرار خالق، دھوکہ اور پیزا کی خریداری: بٹ کوائن سے متعلق سات دلچسپ کہانیاں
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد سے بِٹ کوائن ایک بار پھر اپنی قدر کی بلند ترین سطح کو چُھو رہا ہے۔
اگرچہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2021 میں ایک بار بِٹ کوائن کو ایک ’دھوکہ‘ قرار دیا تھا لیکن بعد ازاں ان کے خیالات بدل گئے اور انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ امریکہ کو بِٹ کوائن کا عالمی دارالحکومت بنائیں گے۔
بٹ کوائن استعمال کرنے والے اب جشن منا رہے ہیں کیونکہ ٹرمپ کی صدارت کی خبر کے بعد ان کے ڈیجیٹل سکّوں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
بٹ کوائن کی مالیت اور قدر میں اونچ نیچ اور تبدیلی کی کہانی بہت حیران کن رہی ہے کیونکہ اس نے کئی افراد کی راتوں رات قسمت چمکائی اور کئی کنگال بھی ہوئے۔ لیکن ان کہانیوں کی وجہ صرف بٹ کوائن کی قیمتیں نہیں ہیں۔
Uses in Urdu نے ایسے سات واقعات کی فہرست بنائی ہے جب کرپٹو کرنسی سے متعلق دلچسپ کہانیاں سامنے آئیں۔
بٹ کوائن کا ’پراسرار خالق‘
کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ بٹ کوائن کس نے ایجاد کیا۔ اس کا خیال 2008 میں انٹرنیٹ فورمز پر ایک شخص نے پوسٹ کیا تھا جو خود کو ’ستوشی ناکاموتو‘ کہتا ہے۔
ایک وائٹ پیپر میں بتایا گیا کہ کس طرح ڈیجیٹل کیش سسٹم لوگوں کو انٹرنیٹ پر ورچوئل کوائن بھیجنے کے قابل بنانے کے لیے کام کرسکتا ہے بالکل اتنی ہی آسانی سے جیسے کہ ای میل بھیجی جاتی ہے۔
ساتوشی نے ایک پیچیدہ کمپیوٹر نظام بنایا جس کے ذریعے ایک بڑے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے لین دین کے عمل کا آغاز کیا گیا اور نئے سکے بنائے گئے۔
بہت سے رپورٹروں، کرپٹو شائقین اور تفتیش کاروں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ساتوشی کون ہیں لیکن سب اب تک ناکام رہے ہیں۔
سنہ 2014 میں صحافیوں نے ایک جاپانی شہری ڈوریان ناکاموتو کا تعاقب کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شاید وہ بٹ کوائن کے خالق ہیں لیکن بعد میں پتا چلا کہ ایسا غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔ اس حوالے سے کئی دیگر لوگوں کے نام بھی سامنے آئے لیکن صرف ایک شخص تھا جس نے خود ستوشی ہونے کا دعویٰ کیا۔
سنہ 2016 میں آسٹریلوی کمپیوٹر سائنسدان کریگ رائٹ نے کہا تھا کہ ستوشی وہ ہیں۔
Uses in Urdu کو دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا ’میں ستوشی ناکاموتو ہوں۔ میں اس (بٹ کوائن کی تخلیق) کا اہم حصہ تھا۔ دوسرے لوگوں نے میری مدد کی۔ کچھ لوگ یقین کریں گے جبکہ کچھ آپ کو سچ نہیں بتائیں گے۔ مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں ہے۔‘
لیکن رائٹ اسے کبھی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور کئی سالوں کی قانونی لڑائی کے بعد 2014 میں لندن میں ہائی کورٹ کے جج نے نتیجہ اخذ کیا کہ کریگ رائٹ ستوشی نہیں تھے۔
حال ہی میں ایچ بی او کی ایک دستاویزی فلم میں کینیڈین بٹ کوائن کے ماہر پیٹر ٹوڈ کے حوالے سے کہا گیا کہ شاید وہ ستوشی ہیں لیکن انھوں نے سختی سے اس کی تردید کی۔
یہ بھی پڑھیں: الأقصر شہر دریائے نیل کے مشرقی کنارے آباد ہے، بازار وں میں قاہرہ کی طرح یہاں بھی جعلی اشیاء کا کاروبار عروج پر تھا، ٹریفک بھی زیادہ نہیں تھی.
پیزا کی خریداری
22 مئی 2010 کو اس وقت تاریخ رقم ہوئی جب بٹ کوائن کے ذریعے پہلی بار باضابطہ طور پر لین دین کیا گیا تھا۔
بھوک کے ستائے لازلو ہینیکس نے دو عدد پیزا کے بدلے ایک کرپٹو فورم پر41 ڈالر مالیت کے بٹ کوائن کی پیشکش کی اور ایک 19 سالہ طالب علم کی اس ادائیگی کو قبول کیا گیا۔ تاریخ میں یہ دن ’بٹ کوائن پیزا ڈے‘ کے طور پر لکھا گیا۔
تب سے ’پیزا کی خریداری‘ ایک سالانہ جشن اور میم ہے جس پر سب ہنستے ہیں لیکن اس سے بٹ کوائن کی طاقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک ایسی سائبر رقم جو واقعی آن لائن اشیا خرید سکتی ہے۔
اس سب پر یقیناً جرائم پیشہ افراد کی نظر بھی تھی کیونکہ اس لین دین کے ایک سال کے اندر بٹ کوائن کے بدلے منشیات اور دیگر غیر قانونی سامان فروخت کرنے والی پہلی ڈارک نیٹ مارکیٹ شروع کی گئی تھی۔
آج اگر دیکھیں تو اس وقت پیزا کے بدلے دو بٹ کوائن دینے کا وہ سودا لازلو کے لیے کچھ اچھا نہیں رہا۔ اگر اس نے ان کوائنز کو اپنے پاس رکھا ہوتا تو اب ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی نااہلی، جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل نے خاموشی توڑ دی
قانونی حیثیت
ستمبر2021 میں وسطی امریکہ کے ملک ایل سلواڈور کے صدر نائب بوکیلے نے بٹ کوائن کو قانونی حیثیت دی۔
ہیئر ڈریسرز، سپر مارکیٹوں اور دیگر دکانوں کو قانون کے مطابق بٹ کوائن کو مرکزی کرنسی اور امریکی ڈالر کے ساتھ قبول کرنا پڑا۔
اس اقدام کے بعد بہت سے بٹ کوائن کے شوقین اور رپورٹروں نے اس علاقے کا دورہ کیا جس سے ملک میں سیاحت کی صورت حال میں کافی بہتری آئی۔
اگرچہ صدر نے امید ظاہر کی تھی کہ اس اقدام سے ان کے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور شہریوں کے تبادلے کے اخراجات میں کمی آئے گی لیکن یہ اتنا مقبول نہیں ہوا جتنا انھوں نے توقع کی تھی۔ وہ اب بھی پرامید ہیں، لیکن فی الحال امریکی ڈالر کی معیشت پر غالب ہے۔
لوگوں کو بٹ کوائن کے استعمال کی ترغیب دینے کی کوشش میں، صدر بوکیلے نے بڑی مقدار میں سرکاری رقم خرچ کی اور متنازع طور پر گزشتہ چند سالوں میں 6,000 سے زیادہ بٹ کوائن خریدے۔ صدر نے کم از کم 12 کروڑ بٹ کوائنز خریدنے کے لیے اس امید پر خرچ کیا کہ وہ اپنے ملک کے لیے منافع کما سکیں گے۔
تاہم دسمبر 2023 میں یہ ان کے لیے خوش آئند ثابت ہوا جب پہلی بار ان کے خریدے گئے کوائنز کی قیمت آسمان کو چھو رہی تھی۔ ملک کے بٹ کوائن ہولڈنگز پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ کا اندازہ ہے کہ بٹ کوائنز کی قیمت میں مجموعی طور پر 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ویرات کوہلی اور انوشکا شرما کونسا پانی پیتے ہیں؟ قیمت جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے.
قزاقستان میں کرپٹو کا عروج و زوال
سنہ 2021 میں قزاقستان بٹ کوائن کے کاروبار کا مرکز بن گیا، جس نے چین اور امریکہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کیا۔
اس کی ایک وجہ بٹ کوائن کے کاروبار کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹروں کے لیے بجلی کی زیادہ مانگ تھی، جو نیٹ ورک کو محفوظ بنانے کے لیے پیچیدہ نظام اور حساب کتاب کے تحت کام کرتے ہیں۔
آج کل اس کے لیے دن رات چلنے والے جدید ترین کمپیوٹروں سے بھرے گودام درکار ہیں، جس کے بدلے اس کام میں حصہ لینے والی کمپنیوں کو بٹ کوائن ملتے ہیں۔
بہت سے کاروباری ادارے قزاقستان گئے، جہاں کوئلے کے وسیع ذخائر کی بدولت بجلی وافر مقدار میں دستیاب تھی۔ پہلے تو حکومت نے ان کا دل سے خیرمقدم کیا، لیکن تاجروں کی بڑی تعداد اور بجلی کے نظام پر دباؤ کی وجہ سے ملک کو بلیک آؤٹ کا خطرہ لاحق ہو گیا۔
ایک سال کے اندر قزاقستان کی بٹ کوائن صنعت تیزی سے ختم ہوگئی کیونکہ حکومت نے اس کی ترقی روکنے کے لیے پابندیاں عائد کیں اور ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں بٹ کوائن نیٹ ورک اتنی ہی بجلی استعمال کرتا ہے جتنی کہ کوئی ایک چھوٹا سا ملک۔
یہ بھی پڑھیں: قاضی فائز عیسیٰ پر لندن میں حملے کا معاملہ ،پاکستانی وزارت خارجہ نے کارروائی کے سخت احکامات جاری کردیئے
10 کروڑ ڈالر کے بٹ کوائن کوڑے کے ڈھیر میں
جیمز ہوویلز اپنے کرپٹو والٹ دوبارہ حاصل کرنے کے مشن پر ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس میں کم از کم 10 کروڑ ڈالر کی دولت ہے۔
جنوبی برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا کہنا ہے کہ انھوں نے غلطی سے ایک ہارڈ ڈرائیو پھینک دی جس میں ان کے بٹ کوائن والٹ کے اُس ریکارڈ کی تفصیلات موجود تھیں جس میں آٹھ ہزار بٹ کوائن تھے۔
کرپٹو کی نوعیت ایسی ہے جس میں ان کوائنز کی بازیابی اس قدر آسان نہیں ہے جتنا پاس ورڈ بدل لینا ہے۔ اس میں کوئی بینک شامل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کسٹمر سپورٹ ہیلپ لائن ہے۔
اس پر بدقسمتی کہ نیو پورٹ میں مقامی کونسل نے انھیں اپنی ڈسک کی تلاش میں اس جگہ جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جہاں کوڑا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے پیشکش کی کہ اگر وہ انھیں اجازت دیں تو وہ اپنے بٹ کوائن کا 25 فیصد حصہ مقامی خیراتی اداروں کو عطیہ کر دیں گے۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’یہ ایسا لمحہ تھا کہ ہاتھوں سے پیسہ نکل گیا، یہ ڈوبنے جیسا احساس تھا میں نے سوچا کہ ’یہ تم نے کیا کردیا۔ تم جانتے ہو کہ تم نے ماضی میں کبھی کسی ہارڈ ڈسک کو باہر نہیں پھینکا۔ اس بار کیوں؟‘
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے 77 برس مکمل، قومی اسمبلی میں یوم سیاہ کی قرارداد منظور
دھوکے باز ’کرپٹو کنگ‘
کسی نے بھی اتنے بٹ کوائن نہیں کھوئے جتنے سابق ارب پتی کرپٹو موگل سیم بینکمین فریڈ نے کھوئے ہیں۔
کرپٹو فرم ایف ٹی ایکس کے بانی کو ’کرپٹو کنگ‘ کا لقب دیا گیا تھا اور انھیں کرپٹو کمیونٹی میں پیار سے بھی اسی نام سے پکارا جاتا۔
ایف ٹی ایکس ایک کرپٹو کرنسی ایکسچینج تھی جہاں سے لوگ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسیوں کے لیے عام رقم کی تجارت کر سکتے تھے۔ ان کے کاروبار کی مالیت ایک اندازے کے مطابق 32 ارب ڈالر تھی۔ پہلے تو انھوں نے خوب ترقی کی لیکن اچانک سب کچھ تباہ ہو گیا۔
صحافیوں کو پتا چلا تھا کہ بینکمین فریڈ کی کمپنی مالی طور پر کمزور تھی اور اپنی دوسری کمپنی المیڈا ریسرچ کو سہارا دینے کے لیے غیر قانونی طور پر ایف ٹی ایکس کے کسٹمر فنڈز منتقل کر رہی تھی۔
دسمبر 2022 میں باہاماس میں اپنے لگژری اپارٹمنٹ کمپلیکس میں گرفتاری سے قبل انھوں نے صحافیوں سے بات کی تھی۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا ’مجھے نہیں لگتا کہ میں نے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسا کچھ ہو۔ میں یقینی طور پر اتنا قابل نہیں تھا جتنا میں نے سوچا تھا۔‘
امریکہ کے حوالے کیے جانے کے بعد انھیں دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کا قصوروار پایا گیا اور انھیں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
کرپٹو سرمایہ کاری میں اضافہ
تمام تر افراتفری کے باوجود بٹ کوائن سرمایہ کاروں اور بڑی کمپنیوں کی توجہ حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
درحقیقت جنوری 2024 میں دنیا کی کچھ بڑی مالیاتی کمپنیوں نے بٹ کوائن کو سپاٹ بٹ کوائن ای ٹی ایف کے طور پر اپنے سرکاری اثاثوں کی فہرست میں شامل کیا۔
یہ سٹاک اور حصص کی طرح ہیں جو بٹ کوائن کی قیمت سے منسلک ہیں لیکن آپ کا ذاتی طور پر کسی بٹ کوائن کا مالک ہونا ضروری نہیں ہے۔
صارفین ان بالکل نئی مصنوعات میں اربوں ڈالر لگا رہے ہیں۔ بلیک راک، فیڈلٹی اور گرے سکیل سمیت کئی کمپنیاں بھی ہزاروں کی تعداد میں بٹ کوائن خرید رہی ہیں جس سے اس کی قیمت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔
یہ کرپٹو کے لیے ایک بہت بڑا سنگ میل ہے جس میں کچھ مداحوں کا خیال ہے کہ بٹ کوائن کو آخر کار اتنی ہی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جتنا پراسرار ستوشی نے تصور کیا تھا۔
لیکن کچھ لوگ اس بارے میں زیادہ محتاط ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا راستہ مختلف ہے، وہاں بٹ کوائن کو روز مرہ کی زندگی کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے سونے کی طرح سرمایہ کاری کے طور پر رکھا جائے گا۔