ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت اور مشرق وسطیٰ
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت کا جائزہ
ہمیں 20 جنوری 2025 کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کا تصوراتی جائزہ لینے سے پہلے ری پبلکن صدر کے گزشتہ دور حکومت میں معاہدہ ابراہم کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ یہ معاہدہ ابراہم ہی تھا جس کے نتیجے میں بحرین، مراکش اور یو اے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرلیا گیا اور سعودی اسرائیل ڈیڈل لاک کا خاتمہ ہوا۔ ہمیں وہ منظر نامہ بھی یاد ہونا چاہئے جب اسرائیل نے تل ابیب کی جگہ یروشلم کو اپنا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کیا اور یوں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے امکان کو تباہ کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سیٹلائٹ کی تصاویر میں سموگ سے ڈھکا لاہور: “یہ صرف ابتدا ہے، بدترین آلودگی کے دن آنے والے ہیں”
ٹرمپ کی ممکنہ پالیسی
ٹرمپ کے دوسرے دور صدار ت میں یقینی طور پر واشنگٹن مڈل ایسٹ کی چوکیداری اسرائیل کے سپرد کرنا چاہے گا اور اس کے لیے عرب ملکوں پر معاہدہ ابراہم میں شامل ہونے پر زور بھی دے گا، جو شاید غزہ میں جاری جارحیت کے تناظر میں عربوں کے لیے مشکل ہو۔ اسی لیے سعودی سلطنت مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی خاطر اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر بین الاقوامی الائنس تشکیل دینے اور ٹائم لائن طے کرنے پر سرگرمی سے کام کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: اغوا اور زیادتی کے مقدمے میں قید ملزم جیل سے فرار
حالیہ پیش رفت
گزشتہ برس ستمبر میں سعودی ولی عہد کا فوکس نیوز کو انٹرویو میں اسرائیل کے حوالے سے تاریخی پیش رفت کا عندیہ اور اس کے فوری بعد نتن یاہو کا جنرل اسمبلی میں سعودی عرب سے امن معاہدے کے قریب پہنچنے کا انکشاف مشرق وسطیٰ کے حالات میں بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا تھا، لیکن صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی جب سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ داغے۔ حماس کے راکٹوں نے نہ صرف اسرائیلی اثاثوں کو نشانہ بنایا بلکہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کے خصوصی امن منصوبے کو بھی اُڑا کر رکھ دیا۔ جس کے بعد ہر گزرتا دن مشرق وسطیٰ کو بڑی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اس دوران اسرائیل اور ایران کے درمیان ہونے والی لڑائی کو اسرائیل کے غزہ، لبنان، حوثیوں اور شام پر کیے جانے والے حملوں سے زیادہ تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی رہنما میڈیا سے بات کیے بغیر چلے گئے
سعودی عرب کی تشویش
حالیہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں سعودی ولی عہد کی اسرائیلی مذمت اور ایران کی حمایت سے بھرپور تقریر نے درحقیقت ٹونی بلینکن کی امیدوں کا خون کردیا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ ہی امریکی فارن سیکرٹری نے لاطینی امریکی ملک ہیٹی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ "امریکی صدر کے انتخاب سے قبل سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے گا"۔ لیکن عرب اسلامی سمٹ میں جو کچھ ہوا وہ اس کے برخلاف تھا۔ سعودی عرب امریکی توقعات کے برعکس ہمیں آج دوسری جانب کھڑا نظر آرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راجپال یادو صحافی کے سوال پر مشتعل، کیمرا چھین کر توڑنے کی کوشش
ایران کے ساتھ تعلقات
ایک ایسے وقت میں جب اعلیٰ سطح کا سعودی فوجی وفد ایران کے دورے پر ہو، سعودی ولی عہد کا امریکا اور اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن ایران کی خود مختاری کی حمایت کے اعلان کو بظاہر خطے کے معروضی حالات میں کئی دہائیوں کے دوران کی سب سے بڑی پیش رفت کہا جارہا ہے۔ لیکن بین السطور مڈل ایسٹ کی حالیہ کروٹ کے پیچھے 2021 سے چین کا خطے میں سرگرم کردار بھی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ایم بی ایس کا ایران کی حمایت میں تقریر کا تعلق سعودی ایران کشیدگی ختم کرانے کے لیے چین کی کامیاب کوششوں سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میلبرن میں بابر اعظم کی دوبارہ آمد کا انتظار: سمیع چوہدری کا کالم
خلاصہ
یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور چین دونوں ہی تنازعات کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر اپنے اپنے انداز میں اور اپنے اپنے مفادات کے تحت۔ امریکا مڈل ایسٹ میں اپنی سیاسی اجارہ داری قائم رکھنے اورانڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکانومک کاریڈور ( آئی ایم ای سی ) کے ذریعہ خطے کی سیاست اور تجارت پر کنٹرول کے لیے عرب اسرائیل تنازعات کا خاتمہ چاہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین ایران عرب تعلقات میں بہتری لاکر خلیج کی صورتحال کو نہ صرف اپنے حق میں کرنے کا خواہاں ہے بلکہ اپنے عالمی تجارتی ایجنڈے کا فروغ بھی اُس کا ہدف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینئر سیاستدان انتقال کر گئے
ٹرمپ کا ممکنہ کردار
ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکن عربوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے غزہ جنگ ختم کرانے کا ایک سرسری سیاسی بیانیہ ضرور اختیار کیا لیکن قرین وقیاس سے نہیں لگتا کہ وہ غزہ کی جنگ بند کرانے میں کوئی حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلکہ اُن کے دور صدارت میں اُن کی توجہ مڈل ایسٹ میں اسرائیلی چوکیداری کا نظام مستحکم کرنے پر مرکوز رہنے کا زیادہ امکان ہے۔ عرب حکمران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ٹرمپ اور نتن یاہو کی مثالی دوستی اور ٹرمپ کے صیہونی داماد جیر ڈکشنر کا اُن کے فیصلوں میں عمل دخل امریکیوں پالیسیوں کو یقینی طور پر اسرائیل کی جانب موڑ دے گی۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مضمون لکھنے کی دعوت
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔