راجیو گاندھی کے دفتر کا وہ خفیہ جاسوس جو پاکستان اور دیگر معاملات پر معلومات برسوں تک بیچتا رہا
’یہ انڈیا کے لیے ایک شرمناک دستاویز تھی۔ انٹیلیجنس اہلکار حیران رہ گئے کہ انڈیا میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے لکھی گئی دستاویز سری لنکا کیسے پہنچی؟‘
اس اہم دستاویز کی صرف تین کاپیاں بنائی گئی تھیں۔ دو کاپیاں را کے اعلیٰ حکام کے پاس جبکہ ایک کاپی وزیراعظم کے دفتر کو بھجوائی گئی تھی۔
لیکن یہ خفیہ دستاویز کولمبو کیسے پہنچی؟
انڈین وزیراعظم کے دفتر سے معلومات افشا ہونے کا پہلا انکشاف اس وقت سامنے آیا جب انڈیا اور سری لنکا کے حکام دہلی میں ایک میٹنگ میں شریک تھے۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی سری لنکن حکام نے انڈین حکام کو را کی ایک اعلیٰ خفیہ دستاویز دکھائی جس میں بتایا گیا کہ انڈین حکومت سری لنکا کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔
ونود شرما اور جی کے سنگھ نے ’دی ویک‘ میگزین کے 17 فروری سنہ 1985 کے شمارے میں لکھا کہ ’بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ ایک فرانسیسی افسر نے وہ دستاویز حاصل کی تھیں اور انھیں ’نارائن نیٹ ورک‘ کے ذریعے سری لنکا پہنچایا تھا۔‘
نارائن نیٹ ورک کیا تھا؟ اس نیٹ ورک کا یورپی ملک فرانس اور انڈین وزیر اعظم کے دفتر سے کیا تعلق تھا؟ یہ سب جاننے کے لیے آپ کو برسوں پیچھے جانا پڑے گا؟
سٹینو گرافر سے جاسوس بننے تک کا سفر
سنہ 1985 میں جنوری کا مہینہ انڈین سیاست میں بڑا ہنگامہ خیز رہا تھا۔ اس ہلچل کے پس پشت ایک جاسوسی سکینڈل تھا جس کا سرا وزیراعظم کے دفتر سے ملتا تھا۔ انڈین میڈیا میں اسے ’مول ان دی پی ایم او سکینڈل‘ کا نام دیا گیا۔
اس سکینڈل کی وجہ سے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری پی سی الیگزینڈر نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس سکینڈل میں راجیو گاندھی کے پرنسپل سکریٹری کے پرائیوٹ سیکریٹری این ٹی کھیر، پی اے ملہوترا اور یہاں تک کہ ان کے چپراسی بھی شامل تھے۔
16 اور 17 جنوری کی رات کو انٹیلیجنس بیورو کے کاؤنٹر انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ نے سب سے پہلے این ٹی کھیر کو گرفتار کیا۔ صبح تک پی اے ملہوترا اور یہاں تک کہ پی ایم او کے ایک چپراسی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
ان پر ایک انڈین تاجر کمار نارائن کے ذریعے خفیہ سرکاری دستاویزات غیر ملکی ایجنٹس کو بھیجنے کا الزام تھا۔
سنہ 1925 میں کوئمبٹور میں پیدا ہونے والے کمار نارائن سنہ 1949 میں دہلی آئے اور وزارت خارجہ میں بطور سٹینو گرافر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور انجینیئرنگ کا سامان بنانے والی کمپنی ایس ایم ایل مانک لال میں کام کرنا شروع کردیا۔
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اے سنگولر سپائی دی انٹولڈ سٹوری آف کمار نارائن‘ میں مصنف کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’لائسنس پرمٹ راج میں حکومت کے اندر رہنے والے سٹینوگرافروں کو مختلف وزارتوں میں خفیہ معلومات تک خصوصی رسائی حاصل تھی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’مسٹر نارائن جانتے تھے کہ سٹینو گرافر صرف ٹائپسٹ نہیں ہوتے۔ ان کے پاس موجود معلومات کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس معلومات کا سودا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
تفتیشی افسران نے بتایا تھا کہ گرفتاری تک نارائن فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ انھیں انڈیا میں فرانسیسی کارپوریٹ اور دفاعی مفادات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’اس وقت انڈیا میں دفاعی بازار کھل رہا تھا اور فرانس کسی طرح اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’نارائن سات سال سے فرانسیسی جاسوس ایجنسی ڈی جی ایس ای کے لیے کام کر رہے تھے۔‘
یہ بھی پڑھیں: دکی میں مسلح افراد نے 3 ٹرکوں کو فائرنگ کے بعد آگ لگادی
کمار نارائن جن کی ہر اہم وزارت میں دوستی تھی
سنہ 1959 میں سرکاری نوکری چھوڑنے کے بعد کمار نے حکومت میں چھوٹے عہدوں پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک خفیہ نیٹ ورک بنا لیا تھا۔
یہی نہیں، انھوں نے چھ یورپی ممالک فرانس، مشرقی جرمنی، مغربی جرمنی، چیکوسلواکیہ، سوویت یونین اور پولینڈ کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ قائم کر رکھا تھا اور انھیں خفیہ اور حساس دستاویزات کی فراہمی شروع کر دی تھی۔
یہاں تک کہ 28 جنوری سنہ 1985 کے اخبار دی ٹائمز آف انڈیا میں یہ بھی بتایا گیا کہ کمار نارائن کو ’بیرون ملک خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔‘
1985 میں تقریباً دو ہزار لوگ انڈیا میں مختلف کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے رابطہ افسر کے طور پر کام کر رہے تھے، جن میں کمار نارائن بھی شامل تھے۔
کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’کمار کے وزیر اعظم اور صدر کے دفتر سمیت ہر اہم وزارت میں دوست تھے، انھوں نے اپنی گرفتاری سے پہلے کئی جائیدادیں خریدی تھیں اور وہ ایک امیر آدمی بن چکے تھے، ان کے اپنے ذرائع سے بہت قریبی رابطے تھے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کو مہنگے تحائف دیا کرتے تھے۔‘
معاملے کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات پی گوپالن انھیں اپنے والد کی طرح مانتے تھے۔ پاسپورٹ آفس میں درج دستاویز میں انھوں نے لکھا تھا کہ اگر ان کی موت ہو جائے تو کمار نارائن کو اس کی اطلاع دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: قاسم رونجھو نے اپنی پریس کانفرنس پر یوٹرن لے لیا
خفیہ دستاویز کی فوٹو کاپی
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں ہائی الرٹ تھا اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہر شخص شک و شبے کی زد میں تھا۔ ایک وقت ایسا آیا جب وزیر اعظم اور صدر کے دفتر کے اعلیٰ حکام کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جانے لگی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کے دفتر سے کمار نارائن کا رابطہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کمار نارائن کو پولیس نے محض اتفاق سے پکڑا تھا۔
سی بی آئی میں کام کرنے والے وید پرکاش شرما اکثر اپنے دوست سبھاش شرما کی فوٹو کاپی کی دکان پر جاتے تھے۔
دکان میں کافی روشنی تھی۔ اچانک ان کی نظر فوٹو کاپی کیے ہوئے ایک صفحے پر پڑی جس پر ’سینٹرل انٹیلیجنس بیورو‘ لکھا تھا۔
وید پرکاش کو اپنے تجربے سے پتا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو اپنے کاغذات کو باہر لانے کی اجازت نہیں دیتا۔
کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’وید پرکاش کمرے کے کونے میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ جس شخص نے فوٹو کاپی کروائی اور جس شخص نے فوٹو کاپی کی، سبھاش شرما کی پیٹھ اس کی طرف تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ انٹیلیجنس بیورو کے کاغذات پر وزیر اعظم کے دفتر اور ایوان صدر کے لیے نشان لگا دیا گیا تھا۔ یہ کاغذات آسام، کشمیر، ہیوی انڈسٹریز اور پاکستان سے متعلق تھے۔
اس کے بعد وید پرکاش ہر روز اپنے دوست کی دکان پر اس امید کے ساتھ جانے لگے کہ وہ ایک بار پھر اس فوٹو کاپی کروانے والے شخص سے مل سکیں گے۔
یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا۔ ان کاغذات میں انڈیا کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز پر انٹیلیجنس بیورو کی بریفنگز شامل تھیں۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ خفیہ دستاویزات دہلی کے قلب میں واقع کناٹ پلیس میں فوٹو کاپی کیے جا رہے تھے۔
بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ ’جب وید پرکاش کو مکمل اعتماد ہو گیا تو انھوں نے اپنے سابق باس اور انٹیلیجنس بیورو کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جے این رائے سے رابطہ کیا اور انھیں سب کچھ بتایا۔‘
رائے نے کچھ افسران کو فوٹو کاپی شاپ پر تحقیقات کے لیے بھیجا لیکن کچھ بھی ٹھوس ہاتھ نہیں لگا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف سیکرٹری کے پی وفاقی پر حملہ آور ملازمین کی ترقی روکیں،طلال چودھری
نارائن کے دفتر پر چھاپہ
وید پرکاش اس کے شواہد جمع کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے چپراسی کے لائے ہوئے کاغذ کو چرا کر اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
جب انہوں نے وہ کاغذ پڑھا تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ انٹیلیجنس بیورو کا پیپر تھا۔ اب انہیں پورا یقین ہو گیا کہ ان کا شک درست تھا۔
وہاں سے وہ سیدھے اپنے سابق باس جے این رائے کے پاس گئے۔ یہ دیکھ کر رائے اچھل پڑے اور پورے معاملے کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔
وید پرکاش نے ان سے کہا کہ دکان کا مالک اس کام میں ملوث نہیں، لہذا اسے پریشان نہیں کیا جانا چاہیے۔ انٹیلیجنس بیورو کے لوگ سادہ کپڑوں میں فوٹو کاپی شاپ کی نگرانی کرنے لگے۔
بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ 'اگلے دن جب چپراسی کاغذات کی نقل حاصل کرنے کے بعد دکان سے نکلا تو وید پرکاش نے آئی بی والے کو اس کے پیچھے لگا دیا۔ کئی دن کی نگرانی کے بعد، اس ریکیٹ میں ملوث تمام لوگوں کی شناخت کر لی گئی۔'
اس سب سے بے خبر کمار نارائن اپنے دفتر میں پی ایم او میں کام کرنے والے پی گوپالن کا انتظار کر رہے تھے۔ رات کے تقریباً 11 بجے گوپالن ایک بریف کیس لے کر نارائن کے پاس پہنچے۔
کمار نے ان کے لیے وہسکی کی بوتل کھولی اور باتیں کرنے لگے۔ اسی دوران انہیں دروازے پر دستک سنائی دی۔
کلول بھٹاچارجی لکھتے ہیں کہ 'جیسے ہی دروازہ کھلا، انٹیلیجنس بیورو کی ٹیم کمرے میں داخل ہو گئی اور انہیں کمار کی میز پر صرف ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہونے والی کابینہ میٹنگ کے نوٹس ملے۔ ٹیم نے کمار اور گوپالن کو بیٹھے رہنے کو کہا اور پورے دفتر کی تلاشی لی۔ یہ تلاش اگلے دن صبح تک جاری رہی۔'
ٹیم کو وہاں سے بہترین سکاچ وہسکی کی 14 بوتلیں ملیں۔ نارائن اور گوپالن کو پوچھ گچھ کے لیے لال قلعہ لے جایا گیا۔
17 جنوری کی رات کو تلک مارگ پولیس سٹیشن میں آٹھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جنہوں نے قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات تک رسائی حاصل کی اور انہیں غیر ملکیوں کے ساتھ شیئر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیوروکریسی میں تقرر و تبادلے
کمار نارائن تہاڑ جیل میں
گرفتار کیے جانے والوں میں ایک کشمیری شخص ٹی این کھیر تھے جو پی ایم کے پرنسپل سیکرٹری پی سی الیگزینڈر کے پی ایس تھے۔ الیگزینڈر کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کی رسائی پورے وزیراعظم دفتر میں تھی۔
ایک اور شخص کے کے ملہوترا کو بھی گرفتار کیا گیا جو وزارت داخلہ سے وزیر اعظم کے دفتر میں ڈیپوٹیشن پر آئے تھے۔
گرفتار ہونے والے اور شخص ایس شنکرن تھے جو صدارتی پریس ایڈوائزر ترلوچن سنگھ کے سینیئر پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ جنوبی ہند کے شہر مدورئی کے رہنے والے شنکرن بیس سال سے زیادہ عرصے سے صدر کے عملے میں تھے اور صدارتی سٹیٹ میں رہ رہے تھے۔
کچھ دن کی پوچھ گچھ کے بعد کمار کو تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ جیل کے ماحول کا کمار کی صحت پر برا اثر پڑا اور وہ بیمار رہنے لگے۔ انھیں یہ ڈر ستانے لگا کہ انھیں جیل میں قتل کر دیا جائے گا، اس لیے وہ راتوں کو جاگ کر چیخنے چلانے لگتے۔
تہاڑ جیل کے سابق پریس آفیسر سنیل گپتا کا کہنا ہے کہ ’کمار ہر وقت روتے رہتے تھے۔ گرفتاری کے پہلے دو ماہ میں ان کا وزن 20 کلو کم ہو گیا۔ ہم ان سے مذاقا کہتے تھے کہ وزن کم کرنا اچھی چیز ہے۔ اس سے وہ زیادہ دیر زندہ رہیں گے۔‘
ان گرفتاریوں کو بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھا گیا تھا لیکن ’دی ہندو‘ اخبار کے جی کے ریڈی کو اس کا علم ہوا اور انھوں نے سب سے پہلے یہ خبر شائع کی۔
کمار نارائن نے اپنے 15 صفحات پر مشتمل اقبالیہ بیان میں اعتراف کیا کہ جاسوسی کے اس کیس میں کم از کم تین ممالک شامل تھے اور وہ انھیں گزشتہ 25 سال سے نقدی کے عوض خفیہ دستاویزات فراہم کر رہے تھے۔
پی سی الیگزینڈر کا استعفی اور کمار نارائن کی موت
وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری پی سی الیگزینڈر نے اس سارے معاملے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
انھوں نے اپنی سوانح عمری ’تھرو دی کوریڈورز آف پاور‘ میں لکھا کہ ’18 جنوری 1985 پرنسپل سیکرٹری کے طور پر میری سروس کا سیاہ ترین دن ثابت ہوا۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’اس صبح مجھے چونکا دینے والی خبر سنائی گئی کہ میرے سکریٹری اور دیگر تین افراد کو میرے دفتر کی خفیہ معلومات کچھ کاروباری اداروں کو لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’میرا فوری ردعمل اس معاملے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونا تھا۔‘
تمام 13 ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت اگلے 17 سال تک جاری رہی۔
ان تمام کو خفیہ معلومات غیر ملکی ایجنٹس تک پہنچانے کا قصوروار پایا گیا۔ یہ سب سرکاری ملازم تھے۔ ان میں سے چار وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت دفاع میں کام کر رہے تھے۔
ان سب کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر کمار نارائن کی موت فیصلے سے دو سال قبل 20 مارچ سنہ 2000 کو ہو گئی۔