برطانیہ میں چار بڑے ہاتھیوں کے وزن کے برابر تین لاکھ پاؤنڈ پنیر غائب ہو گئی

جب برطانیہ کے ایک ڈیری فارمر پیٹرک ہولڈن کو رواں سال جولائی میں انتہائی مہنگے پنیر ہاوڈ کا 22 ٹن کا آرڈر موصول ہوا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔

پیٹرک بتاتے ہیں کہ یہ آرڈر فرانس کے کسی خریدار کی جانب سے آن لائن آیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس اتنا بڑا آرڈر پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ چونکہ یہ آرڈر فرانس سے تھا، تو میں نے سوچا کہ آخر کار دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی ہمارے کام کی قدر آ رہی ہے۔‘

پیٹرک ہولڈن ’ہاوڈ چیز‘ نامی مہنگی اور منفرد پنیر تیار کر کے فروخت کرنے والے ’نیلز یارڈ ڈیری‘ ہول سیلر کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انھیں ہاوڈ پنیر بنانے میں مہارت حاصل ہے۔

ہاوڈ کی پہلی کھیپ ستمبر میں لندن میں ان کے گودام پہنچی۔ ایک مربع میٹر پر پھیلی ہاوڈ چیز بنانے میں دو سال کا وقت لگا اور ہول سیل میں اس کی قیمت 35 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔

نیل یارڈ ڈیری کے خریدار برون وین پرسیول بتاتے ہیں کہ ’یہ برطانیہ میں بنائے جانے والے پنیر کی سب سے خاص اقسام میں سے ایک ہے۔ ایک مربع میٹر پر پھیلی ہاوڈ چیز ململ کے کپڑے میں لپیٹ کر سور کی چربی کی تہہ سے سیل ہونے کے بعد تیار کرنے میں 18 مہینے کا وقت لیتی ہے اور ہول سیل میں اس کی قیمت 35 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔‘

تاہم نیلز ڈیری فارم کے پاس فرانس سے آیا 22 ٹن ہاوڈ پنیر تیار کرنے کے وسائل نہیں تھے۔ آرڈر کو مقررہ مدت میں پورا کرنے کے لیے دو اور ڈیری فارمز نے 20 ٹن پنیر فراہم کی۔

اس آرڈر کی کل قیمت تین لاکھ پاؤنڈ بن رہی تھی، یعنی برطانیہ میں اب تک کا سب سے مہنگا پنیر۔

14 اکتوبر کو نیلز یارڈ ڈیری کے گودام سے 22 ٹن کی ہاوڈ پنیر کا آرڈر ایک کوریئر کمپنی نے اٹھایا اور اپنے گودام لے گئی۔ تاہم اس پنیر کے بعد یہ کہاں گیا، کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ اصل میں ایسا کوئی خریدار نہیں تھا جس نے اتنی مقدار میں ہاوڈ چیز منگوائی ہو۔ بلکہ یہ آرڈر ایک ایسے شخص نے دیا تھا جو خود کو خریدار ظاہر کر رہا تھا۔

راتوں رات 22 ٹن پنیر غائب ہونے کی اتنی بڑی چوری کو دنیا بھر میں رپورٹ کیا گیا اور اسے ’دی گریٹ چیز رابری‘ کا نام دیا گیا۔

ہاوڈ چیز کی چوری رپورٹ ہونے کے بعد برطانیہ کے معروف شیف جیمی اولیور نے ایکس پر اپنے فالوئرز کو خبردار کیا کہ ’اگر کسی کو انتہائی مہنگی چیز سستے داموں فروخت ہونے کے بارے میں معلوم ہو تو سمجھ جائیں کہ اس چیز میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘

معاملے کی تفتیش جاری تھی کہ اکتوبر کے آخر میں لندن سے ایک 63 سالہ شخص گرفتار ہوا، جسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم اس کے بعد اس کیس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

تاحال پتہ نہیں چل سکا ہے کہ چیز کے 950 ٹکڑے جن کا وزن چار بڑے ہاتھیوں کے برابر ہے انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

پیٹرک ہولڈن اکیلے نہیں ہیں جن کی دو سال کی محنت اس طرح چوری ہوئی ہے۔ ان کے ایک ساتھی ٹام کیلور نے بھی اس آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے پنیر بنائی تھی۔

ٹام کہتے ہیں کہ ’دنیا میں مختلف اشیا چوری کی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن کوئی 22 ٹن پنیر چوری کر لے گا؟ بہت ہی حیرت کی بات ہے۔‘

شاید عام لوگوں کے لیے یہ حیرت انگیز ہو لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ پنیر کی اتنے بڑے پیمانے پر چوری ہوئی ہو۔

’پنیر‘ کی چوری میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

’پنیر‘ کی چوری میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

کھانے پینے کی اشیا سے جڑے جرائم میں سمگلنگ اور جعلی اشیا کی خرید و فروخت سمیت ان اشیا کی چوری شامل ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق ان جرائم کی وجہ سے گلوبل فوڈ انڈسٹری کو سالانہ 30 سے 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

جرائم اتنے بڑے پیمانے کے بھی ہوتے ہیں کہ اشیائے خورد و نوش سے لدے پورے پورے ٹرک گودام پہنچنے سے پہلے ہی ہائی جیک ہو جاتے ہیں اور ان میں ایسی چوریاں بھی شامل ہیں جیسے سکاٹ لینڈ میں ایک سٹور روم سے 24 زندہ لابسٹرز غائب ہوئے۔

تاہم کھانے پینے کی چیزوں سے جڑے جرائم میں پنیر بھی شامل ہے، خاص طور پر انتہائی مہنگی پنیر۔

گذشتہ برس کرسمس کے نزدیک برطانیہ کے شہر ووسٹر میں ایک ٹریلر سے لگ بھگ 50 ہزار پاؤنڈ کی پنیر چوری ہو گئی تھی۔

اسی طرح سنہ 1998 میں ڈیری فارم کے ایک گودام سے چوروں نے نو ٹن ’چیڈر چیز‘ (پنیر کی ایک قسم) چرائی تھی۔

اس قسم کی چوریاں یورپ کے باقی علاقوں میں بھی رپورٹ ہو رہی ہیں۔

سنہ 2016 میں شمالی اٹلی میں واقع ایک گودام سے چوروں نے 80 ہزار پاؤنڈ کی ’پامژان ریجیانو چیز‘ (پنیر کی ایک قسم) چرائی تھی۔

پامژان چیز کی اس قسم کے تیار ہونے میں کم از کم ایک سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اسے تیار کرنے کا طریقہ کار ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے جس میں بہت کم تبدیلیاں آئی ہیں۔

جب اٹلی میں چوری کی خبر آئی تو ’پامژان ریجیانو چیز‘ کا کاروبار کرنے والے ایک گروہ نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ پچھلے دو سال میں 70 لاکھ پاؤنڈ پنیر چوری ہوئی ہے۔

تاہم جیسے جیسے پنیر کی قیمتیں بڑھیں گی، یہ مسئلہ بھی مزید سنگین ہوتا جائے گا۔

Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے ڈیری سیکٹر کے ماہر پیٹرک مک گوئیگن نے بتایا کہ ’پنیر بنانے میں بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے کیونکہ پنیر تیار کرنے کے عمل کے لیے دودھ کو ابالنا پڑتا ہے۔ پھر جب پنیر تیار ہو جاتا ہے تو اسے ایسے فریج میں رکھنا پڑتا ہے جنھیں زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے۔‘

پنیر کے بزنس میں ایندھن کی قیمت ایک اہم عنصر ہے۔

پیٹرک مک گوئیگن نے ذکر کیا کہ ’جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پنیر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ برطانیہ میں مجموعی طور پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئی ہے، لیکن پنیر کی قیمت میں اب بھی اضافہ جاری ہے۔

ان کے مطابق ’مئی 2024 تک چیڈر چیز کی قیمت 6.5 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس لیے اب ہم سوپر مارکیٹوں میں دیکھ رہے ہیں کہ چیڈر چیز پر ’سکیورٹی ٹیگز‘ لگائے جا رہے ہیں۔ صرف اس کی قیمت کی بنا پر ہی یہ ایک ایسی کھانے کی چیز بن چکی ہے جسے چوری کیا جا سکتا ہے۔‘

تاہم پنیر کی نقل و حرکت بھی ایک مشکل عمل ہے، خاص طور پر وہ پنیر جو فارم ہاؤس میں تیار ہوتا ہے اور جسے ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

پنیر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بھی ایک مہنگا اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے جو زیادہ تر مجرموں کے بس کی بات نہیں ہوتی، لیکن اگر مجرم منظم ہوں تو وہ یہ کام آسانی سے کر لیتے ہیں۔

لیکن سوال یہی ہے کہ یہ منظم مجرم کون ہیں اور جو پنیر یہ چراتے ہیں، وہ جاتا کہاں ہے؟

یہ بھی پڑھیں: فیس بک پر لوگوں کو بیوقوف بنانے والے عام جھانسے

منظم جرائم کی دنیا سے فوڈ انڈسٹری کا کیا تعلق ہے؟

منظم جرائم کی دنیا سے فوڈ انڈسٹری کا کیا تعلق ہے؟

برطانیہ کے نیشنل فوڈ کرائم یونٹ سے منسلک اینڈی کوئین نے بتایا کہ اشیا خوردونوش اور منظم جرائم کے درمیان ایک پرانا تعلق ہے۔

مثال کے طور پر فوڈ انڈسٹری کی قانونی ’سپلائی چین‘ کے ذریعے ایک بڑی مقدار میں غیر قانونی منشیات سمگل کی جاتی ہیں۔

اینڈی کوئین نے Uses in Urdu کو بتایا کہ گذشتہ ستمبر فرانس کی ایک سوپر مارکیٹ کے چار سٹورز میں درجنوں کلو گرام کوکین برآمد ہوئی تھی۔ یہ کوکین کیلوں کی پیٹیوں کی ڈیلیوری کے ذریعے یہاں پہنچی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ منشیات اس طرح ’سپلائی چین‘ کے آخری مرحلے (یعنی کسٹمر) تک پہنچ جائے لیکن اس طرح سرحد پار غیر قانونی اشیا کی نقل و حرکت بہت عام ہے۔

کوئین نے بتایا کہ ایک بار جب ڈرگ کارٹیلز اور منظم جرائم سے منسلک دیگر لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسی جگہ کی فوڈ انڈسٹری کیسے چلتی ہے تو انھیں کافی مواقع نظر آ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ منظم جرائم انجام دینے والے گروہ ’ایک جائز کاروبار میں دراندازی کرتے ہیں۔ اس کے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسے چوری شدہ خوراک سمیت دیگر غیر قانونی اشیا کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

تاہم کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مجرموں کو فوڈ انڈسٹری میں دلچسپی ہے۔

کوئین کے مطابق مجرم جانتے ہیں اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ وغیرہ میں سزا قدرے کم سخت ہوتی ہے بنسبت منشیات درآمد کرنے کے۔

تاہم انھیں مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ چیز چرا کر کہاں رکھی جائے۔

جیسا کہ برطانیہ میں ایسی بہت کم جگہیں ہیں جہاں چرایا ہوا پنیر رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ چرایا ہوا پنیر ممالک منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں اس کی بلیک مارکیٹ بہتر ہو۔

روس ایک ایسا ملک ہے جہاں بلیک مارکیٹ میں دستیاب پنیر کی بہت مانگ ہے۔

جب روس نے 2014 میں غیر قانونی طور پر کرائمیا کو اپنے ملک میں ضم کیا تو یورپی یونین نے اس کے خلاف کئی اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے صدر پوتن نے یورپی یونین سے درآمد کردہ تازہ خوراک پر پابندی لگا دی۔

سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ صادرات کے طریقے سے آنے والی خوراک پر بلڈوزر چلائے گئے، انہیں دفن کیا گیا یا تلف کر دیا گیا۔ اس کھانے پینے کی اشیاء میں پنیر کی بڑی مقدار شامل تھی۔

تاہم جب سے یوکرین میں جنگ شروع ہوئی ہے، مشرقی ممالک میں کئی اشیاء کی کمی واقع ہو گئی ہے جیسے نورے کی سامن مچھلی اور سکوٹش وسکی، جبکہ روس میں یورپی یونین سے آنے والی مہنگی خوراک کی طلب بڑھ گئی ہے۔

گلوبل انسٹیٹیوٹ آف فوڈ سکیورٹی کے بانی اور اقوام متحدہ کے سائنس کے سینئر مشیر پروفیسر کرِس ایلیئٹ نے Uses in Urdu کو بتایا کہ 'اس وقت روس میں غیر قانونی طور پر درآمد ہونے والی دو بڑی اشیاء پنیر اور وائن ہیں۔ انہیں یہاں تک پہنچانے کے لیے یورپ میں پیچیدہ راستے قائم کیے گئے ہیں جو بیلاروس اور جارجیا سے گزرتے ہیں۔'

بہت سے روسی شہریوں کا خیال ہے کہ ملک میں دستیاب پنیر کا معیار غیر ملکی ممنوعہ پنیر سے کم ہے۔ اسی لیے اس پنیر کی بہت زیادہ طلب ہے۔

2014 میں ایک شخص پولینڈ سے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر 460 کلوگرام ممنوعہ غیر ملکی پنیر روس لے جانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اسے پکڑ لیا گیا۔

پروفیسر کرِس ایلیئٹ نے بتایا کہ جب سے روس میں یہ پابندیاں نافذ کی گئی ہیں، وہاں کے سپر مارکیٹس میں مہنگا پنیر فروخت ہونے لگا ہے۔ کچھ کمپنیاں ایسے پنیر کو درآمد کر کے ان کا لیبل تبدیل کر دیتی ہیں، اور وہ قانونی طریقے سے روس میں بیچا جاتا ہے۔

تاہم رپورٹس کے مطابق پنیر کے بلیک مارکیٹ ڈیلرز چھوٹے خردہ اسٹورز چلا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نااہلی کی وجہ سے بھی ممنوعہ خوراک کی نقل و حرکت ممکن ہو جاتی ہے۔

'اس کاروبار سے اتنی رقم کمائی جا سکتی ہے کہ حکام اور سرحد پر تعینات گارڈز کو رشوت دی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، اور اس آن لائن آرڈرز کا ثبوت دکانوں میں ملتا ہے۔'

ممنوعہ پنیر دکانوں میں عوامی طور پر دستیاب ہے۔

یہ صورت حال صرف روس میں ہی نہیں ہو رہی، بلکہ مشرق وسطی کے مختلف مقامات پر بھی اگر کسی ملک کی جانب سے اشیائے خوردونوش پر رعایت ہے تو دوسرے ملک میں جہاں حکومت کی سبسڈی نہیں ہے یا قیمتیں زیادہ ہیں، وہاں یہ اشیاء سمگل کی جا سکتی ہیں۔

پروفیسر ایلیئٹ نے بتایا کہ اس خطے میں مہنگے پنیر کی نقل تیار کر کے اسے اصل کی طرح فروخت کرنا بھی بہت عام ہے۔ یہ عمل امریکہ میں بھی عام ہے جہاں مہنگے پامژان کی نقل تیار کرنے کے لیے اس میں لکڑی کا برادہ شامل کر دیا جاتا ہے۔

پنیر کی حفاظت کے لیے مائیکرو چِپ کا استعمال

پنیر کی حفاظت کے لیے مائیکرو چِپ کا استعمال

برطانیہ کے نیشنل فوڈ کرائم یونٹ سے منسلک اینڈی کوئین نے بتایا کہ غیر قانونی اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ ’صحیح معنوں میں عالمی‘ مسئلہ ہے۔

تاہم اٹلی میں اس کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے جس میں پامژان ریجیانو چیز بنانے والے گروپ نے اپنی تیار کردہ پنیر کی سب سے اوپر والی سخت تہہ میں مائیکرو چپ نصب کر دی ہے۔

یہ مائیکرو چِپ چاول کے دانے کے برابر ہے اور اس میں پنیر کا اپنا ڈیجیٹل آئی ڈی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے ناصرف پنیر کی چوریوں میں کمی آئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اصلی اور نقلی پنیر کی بھی نشاندہی آسان ہو گئی ہے۔

خریدار اب پنیر کے ہر ’پہیے‘ کو سکین کر کے اس کی صداقت کو جانچ سکتے ہیں یا یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا یہ چوری ہوا ہے۔

تاہم کنسورشیم نے ابھی تک کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آیا ٹیکنالوجی جرائم کو کم کر رہی ہے یا نہیں۔

برطانیہ کے نیلز یارڈ ڈیری کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دھوکہ دہی اور فراڈ سے بچنے کے لیے وہ ای میلز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کے بجائے پنیر کے بڑے آرڈر دینے والے خریداروں سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے انھیں پنیر فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اور جہاں تک اکتوبر میں چوری کیے گئے پنیر کا تعلق ہے تو اس معمے کو حل کرنا آسان نہیں کیونکہ اس پنیر کو دو سال تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں فروخت کی جا سکتی ہے۔

آن لائن پونگ پنیر بیچنے والے بین لیمبورن کا کہنا ہے کہ 'ایسا ممکن ہے کہ کوئی مجرم ٹنوں کے حساب سے پنیر چھپا لے اور پھر آہستہ آہستہ اسے کم مقدار میں سپلائی چین میں شامل کر کے مارکیٹ میں لائے۔'

پنیر بنانے والے محض اس لیے پریشان نہیں کہ پنیر چوری ہو گیا مگر پنیر کی جو قسم لاپتہ ہے یعنی ہاؤڈ ویسٹ کام اور پچ فورک۔۔۔ یہ وہ اقسام ہیں جو پنیر بنانے کے ان طریقوں پر عمل پیرا ہو کر بنائی گئیں جنھیں بننے اور تبدیلی کے عمل سے گزرنے میں ہزاروں سال لگے ہیں جس کے بعد ہی یہ برطانوی ثقافت کا حصہ بنیں۔ یہ اقسام دراصل اس دور کی نشاندہی کرتی ہیں جو چند نسلوں بعد ہی ختم ہو گیا۔

لنکاشائر میں پنیر بنانے والے اینڈی سوئنسکو کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے آغاز میں ان کی دکان کے آس پاس کے علاقے میں پنیر بنانے والے دو ہزار فارم ہاؤس تھے۔ آج ان کی تعدا محض پانچ ہے۔

سمرسیٹ میں چیڈر پنیر، جبکہ ایسٹ مڈلینڈز میں سٹیلٹن اور شمال مغرب میں چیشائر پنیر بنانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

سوئنسکو کا کہنا ہے کہ 'یہاں کے چھوٹے فارموں کے مالک خاندانوں کے لیے صرف مائع حالت میں دودھ بیچ کر گزر بسر کرنا ناممکن ہو گا اور وہ اپنے دودھ سے پنیر بنا کر زیادہ رقم کما سکتے ہیں۔'

پیٹرک ہولڈن تسلیم کرتے ہیں کہ اس چوری سے ہونے والے مالی نقصان کا ان کے فارم پر بہت زیادہ اثر پڑ سکتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اس پیمانے پر کی جانے والی دھوکہ دہی آسانی سے فارمنگ اور پنیر سازی کی صنعت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔'

تاہم نیلز یارڈ نے اپنے سپلائرز کو مکمل ادائیگی کر دی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس فراڈ سے ان کے کاروبار کو مالیاتی طور پر بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔

اس طرح کے جرائم کی روک تھام نہ کی گئی تو اس سے باقی فارم اور کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب لگژری اور قیمتی پنیر کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔

این ایف سی یو کے اینڈی کوئین کا کہنا ہے کہ 'دنیا بھر میں جاری تنازعات، مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلی۔۔۔ یہ ساری صورتحال مجرموں کو فوڈ فراڈ (کھانے پینے کی اشیا کی چوری) کی ترغیب دے سکتی ہے۔'

صورتحال بہتر ہونے تک، پنیر بنانے والوں کو اپنی سکیورٹی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ اور اگر کوئی آرڈر اتنا بڑا ہو کہ آپ کو اپنی قسمت پر یقین نہ آئے تو اس صورت میں ذرا غور سے اس کے بارے میں دوبارہ سوچ لیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...