پہاڑوں میں مردہ بادشاہوں اور ملکاؤں کے ابدی ٹھکانے تھے، دریائے نیل پورے کروفر سے بہہ رہا تھا، کشتی میں بزرگ سیاح نقشے کھولے بیٹھے تھے۔
مصنف کی تفصیل
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 62
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی پرانی فحش گفتگو ٹک ٹاک پر وائرل ہوگئی
وادی مرگ کی صبح
دن چڑھ آیا تھا۔ 9 بجے سے بھی زیادہ کا وقت ہوگیا تھا مگر احمد ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ میں ناشتہ کرکے ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ آج ہم نے پہلی بار دریائے نیل عبور کرکے اس پار مغرب میں واقع مرُدوں کی وادی میں جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران سخت سوالات پر آئی جی اسلام آباد برہم، تلخ جملوں کا تبادلہ
بادشاہوں اور ملکاؤں کے مقابر
اسی طرف ہی پہاڑوں میں بنے ہوئے بادشاہوں اور ملکاؤں کے مدفن بھی تھے۔ جن کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ علاقے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ جس علاقے میں بادشاہوں کے مقابر تھے ان کو بادشاہوں کی وادی یعنی Valley of the Kings کہتے تھے اور اسی طرح دوسری طرف ملکاؤں کے مدفنوں والے علاقے کو Valley of the Queen کا نام دیا گیا۔ لیکن ہمیں آج ادھر نہیں جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک روز بڑی کمی کے بعد سونا آج پھر مہنگا ہوگیا
یادگاری مندروں کی تلاش
آج ہمیں فرعون بادشاہوں اور ملکاؤں کے مدفنوں سے تھوڑا ہٹ کر ان مندروں کا رخ کرنا تھا جہاں ان کو مرنے کے بعد آخری رسومات کے لئے لے جایا جاتا اور پھر وہیں ان کی یاد میں ایک مستقل مندر کی تعمیر کر دی جاتی۔ اس یادگاری مندر پر ان کی موت کے بعد بھی مدتوں تک عبادتیں ہوتی رہتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ
آخری مندر کی حالت
ویسے تو وہاں اس طرح کے بے شمار مندر تھے جن میں سے اکثر تو اب وقت کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکے ہیں اور بہت کم سیاح اس طرف کا رخ کرتے ہیں، تاہم دو مندر ایسے ہیں جو ابھی تک بہت اچھی حالت میں موجود ہیں اور اپنے اصلی رعب اور دبدبے کے ساتھ قائم ہیں۔ آج ہم ان کو دیکھنے اور پرکھنے جا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم امن وامان برباد نہیں ہونے دیں گے: وزیرداخلہ محسن نقوی
کشتی کا سفر
کچھ دیر بعد احمد آگیا تو ہم دریائے نیل کے کنارے ٹہلتے ہوئے کشتی گھاٹ کی طرف پہنچ گئے اور وہاں سے ایک بڑی موٹر بوٹ پر سوار ہو کر دریائے نیل کے دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: ثانیہ مرزا نے مداحوں کو خوشخبری سنا دی
دریائے نیل کی خوبصورتی
اس وقت دریا پر دوسری طرف جانے کے لئے ایک پل تو موجود تھا لیکن وہ تھوڑے فاصلے پر تھا۔ اس طرف سے اگر ہم گاڑی یا بس کے ذریعے ان مندروں کی طرف جاتے تو باآسانی آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ سکتے تھے لیکن دریائے نیل کے نیلگوں پانیوں میں کشتی رانی کا ایک اپنا ہی لطف تھا، جو بڑا ہی خوبصورت اور خوابناک سا منظر پیش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وکلاء اور حکومت ایک ہی ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں: وزیر قانون پنجاب صہیب احمد بھرتھ
سیاحوں کا ہجوم
کشتی میں اور بھی بہت سارے سیاح اپنے اپنے گائیڈوں کے ساتھ ہمارے ہم سفر تھے۔ دریائے نیل کی خوبصورتی اس وقت انتہا پر تھی۔ یہاں دریا اتنا چوڑا تھا کہ دوسرا کنارہ بھی بمشکل ہی نظر آتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سابق انگلش کپتان کا بیان: پاکستان کی ٹیم اس وقت اپنی کم ترین سطح پر ہے
سیاحوں کی سرگرمیاں
ہماری کشتی میں بھی کچھ منچلے بزرگ سیاح نقشے اور سیاحتی کتابچے کھولے بیٹھے تھے اور غور سے اس کا مطالعہ کرکے آپس میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے تاکہ وہ وہاں پہنچنے سے پہلے اس علاقے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔