کیا انڈین سپریم کورٹ کی بلڈوزر انصاف پر پابندی کے بعد صورت حال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟: حکومت مسلمان مخالف اقدامات کے لیے کوئی نئی راہ اختیار کرے گی؟
انڈیا کی سپریم کورٹ نے 13 نومبر کو بلڈوزر کے ذریعے لوگوں کی املاک کی مسماری کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ 'چاہے کوئی مجرم ہو یا ملزم، حکومت اس کے گھر کو غیر قانونی طور پر گرا نہیں سکتی۔'
عدالت نے واضح کیا کہ 'سرکاری اہلکار جج نہیں بن سکتے اور نہ ہی ملزمان کی جائیدادیں گرا سکتے ہیں۔'
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب کئی ریاستی حکومتوں نے ملزمان کی جائیدادوں پر بلڈوزر کارروائیاں کی ہیں۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھارتی سیاست میں بلڈوزر کے استعمال کو زیر بحث لایا ہے۔
اسی وجہ سے ان کے حامی انھیں 'بلڈوزر بابا' کے نام سے پکارتے ہیں اور ان کے جلسوں میں بلڈوزر چلا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا ملک میں جاری 'بلڈوزر سیاست' پر کیا اثر پڑے گا؟
خاص طور پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دور حکومت میں کیا 'بلڈوزر ایکشن' روکے جائیں گے؟
اتر پردیش میں 'بلڈوزر جسٹس'
شہری ایجنسیاں برسوں سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہیں، لیکن اس کے سیاست میں استعمال پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔
دو سال قبل اتر پردیش کے جاوید محمد کا دو منزلہ مکان بلڈوزر سے گرا دیا گیا تھا۔
جاوید پر 2022 میں بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے خلاف احتجاج منظم کرنے کا الزام تھا۔ اس کے بعد نوپور نے پیغمبر اسلام پر متنازعہ تبصرہ کیا تھا۔
ان پر احتجاج کے دوران تشدد اور پتھراؤ کا الزام تھا، جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے ان کے گھر کو بلڈوز کر دیا۔
مقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ ان کا گھر غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔ ایسا ہی ایک معاملہ فتح پور میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر حاجی رضا کا ہے۔
اگست 2024 میں ان کے چار منزلہ شاپنگ کمپلیکس کو بلڈوز کر دیا گیا۔ حاجی رضا پر لوک سبھا انتخابات میں پی ایم مودی کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام تھا۔
سال 2020 میں جب وکاس دوبے کے گھر کو مسمار کیا گیا تو بلڈوزر کی کارروائی کے لیے ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دوبے کے خلاف کئی مجرمانہ مقدمات درج تھے۔
اتر پردیش میں بلڈوزر کی کارروائی کے ایسے کئی معاملے ہیں جو وقتاً فوقتاً کئی دنوں تک خبروں میں رہتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فروری 2024 میں ایک رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں اپریل اور جون 2022 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد اور مظاہروں کے بعد آسام، دہلی، گجرات، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں 128 جائیدادوں کی مسماری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سینیئر سیاسی رہنماؤں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ہوا۔ ان کے مطابق کم از کم 617 افراد متاثر ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کا اجلاس تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد بالآخر شروع
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ ’ایک عام شہری کے لیے گھر بنانا کئی برسوں کی محنت، خوابوں اور عزائم کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ ’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ایگزیکٹو کسی شہری کے گھر کو محض اس بنیاد پر گرا دیتا ہے کہ اس پر جرم کا الزام ہے، تو ایگزیکٹو قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے خلاف کام کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ ’ایسے معاملات میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور من چاہی کارروائی کرنے والے افسران کو بھی جوابدہ ہونا چاہیے۔‘
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’اس طرح کی من مانی، یک طرفہ اور امتیازی کارروائیوں کو روکنے کے لیے کچھ رہنما اصول ضروری ہیں۔‘
عدالت کی جانب سے وضع کردہ اصول:
اگر رہنما خطوط پر عمل نہیں کیا جاتا تو، عہدیدار ذمہ دار ہوں گے اور انہیں ذاتی خرچ پر عمارتی ڈھانچے کی تعمیر نو کرنی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: مرد کو ایک سے زائد شادی کی اجازت: ڈاکٹر ذاکر نائیک کا جواب خاتون کے سوال پر
یوگی آدتیہ ناتھ اور ’بلڈوزر‘
37 سال بعد 2017 میں بی جے پی نے اتر پردیش میں مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کی اور یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بن گئے۔
سینئر صحافی وجے ترویدی کا کہنا ہے کہ ابتدائی برسوں میں یوگی آدتیہ ناتھ ’لو جہاد‘ اور گاؤ رکشا یعنی گائے کے تحفظ جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کر رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے بلڈوزر کی طرف توجہ دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بلڈوزر تعمیر کی بجائے انہدام کی علامت ہے۔ شروع میں بلڈوزر کا استعمال جرائم کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا لیکن جب کسی چیز کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
یوگی آدتیہ ناتھ جب دوسری بار وزیر اعلیٰ بنے تو ان کے استقبال کے لیے بلڈوزر ریلیاں نکالی گئیں۔ ریاست میں قانون کی حکمرانی کا کریڈٹ وہ خود بلڈوزر کو دے رہے تھے۔
وجہ ترویدی کہتے ہیں کہ ’کسی جرم کا الزام لگانے والے شخص سے شروع ہو کر یہ بلڈوزر مسلم سماج پر چلنے لگا اور ہندو سماج اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ لوگوں میں یہ کہا جانے لگا کہ یہ بلڈوزر مسلمانوں کے خلاف ہے، جس سے یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندوتوا شبیہ کو مزید تقویت ملی ہے۔‘
سینئر صحافی شرد گپتا کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کے خلاف نئی علامتیں گڑھی گئی ہیں جنہیں ہندوؤں کا ایک طبقہ پسند کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان علامتوں میں یوگی آدتیہ ناتھ نے بلڈوزر کو ایک علامت کے طور پر قائم کیا، جو طاقتور حکمرانی کے نظام کا مترادف بن گیا۔ یہ دکھایا گیا کہ اب ہمارے پاس طاقت ہے اور اس طاقت کے سامنے قانون کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘
شرد گپتا کا کہنا ہے کہ ’ملک میں اجمل قصاب کا بھی منصفانہ ٹرائل ہوا تھا، جب کہ بلڈوزر کیس میں ملزم کے اہل خانہ کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، چند منٹوں میں کئی مقامات پر مکانات گرائے گئے، جن کی قانون میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
تاہم اتر پردیش کے سینئر صحافی ہیمنت تیواری کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ سے پہلے بھی ریاست میں بلڈوزر چلتے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مایاوتی 2007 سے 2012 تک وزیر اعلیٰ تھیں۔ ان کے دور حکومت میں کئی مافیاز کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ان میں عتیق احمد کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے پیچھے بھی سیاست تھی۔
ہیمنت تیواری کہتے ہیں کہ ’2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کی آمد کے بعد بڑے پیمانے پر بلڈوزر کی کارروائیاں کی گئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بی جے پی نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ اکھلیش حکومت میں غنڈہ مافیا اور غنڈہ گردی کرنے والوں کی کمر توڑ دی جائے گی۔‘
وہ کہتے ہیں، ’بی جے پی اکھلیش پر مسلمانوں کی سیاست کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ یہ ثابت کرنا کہ مجرموں کی اس حکومت میں کوئی جگہ نہیں۔ اس لیے بڑے پیمانے پر بلڈوزنگ کی کارروائی کی گئی۔‘
ہیمنت تیواری کہتے ہیں، ’بلڈوزر نے یوگی آدتیہ ناتھ کی ایسی تصویر بنائی جس سے پارٹی کو نہ صرف یوپی بلکہ کئی ریاستوں میں فائدہ ہوا۔‘
کیا عدالتی فیصلے کے بعد کچھ بدلے گا؟
اتر پردیش سے شروع ہونے والی بلڈوزر کارروائی جلد ہی مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، دہلی اور ہریانہ سمیت کئی ریاستوں تک پہنچ گئی۔
سینیئر صحافی وجے ترویدی کہتے ہیں کہ جب دوسری ریاستوں نے بلڈوزر چلانے کے فائدے دیکھے تو انھوں نے اپنی ریاستوں میں بھی ایسا کرنا شروع کردیا۔
وہ کہتے ہیں، ’بی جے پی نے بلڈوزر ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کیا۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان بھی بلڈوزر انکل بن گئے حالانکہ وہ ان کاموں میں بہت نرم سمجھے جاتے تھے۔‘
دوسری جانب شرد گپتا کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کو متحد کرنے اور انھیں خوش کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا جس میں بی جے پی اور یوگی آدتیہ ناتھ کو کامیابی ملی۔
شرد گپتا کہتے ہیں، ’بلڈوزر کے پیچھے سوچ اکثریت پرستی ہے۔ اس وقت اکثریت ذاتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ بلڈوزر ان کو اکٹھا کرنے کا ایک حل ہے۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا کام بلڈوزر کے ذریعے کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس خوف کا سیاست میں فائدہ اٹھایا گیا، کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بلڈوزر کی زیادہ تر کارروائیاں صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں۔‘
’بار بار یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اب پچھلی حکومتوں کے خلاف بلڈوزر استعمال کیے جائیں گے جنھوں نے اقلیتوں کو اقتدار میں لایا تھا۔‘
شرد گپتا کا کہنا ہے کہ بلڈوزر کی کارروائی کے بارے میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی حالیہ ہدایات سے اتر پردیش سمیت پورے ملک میں بلڈوزر کی کارروائیوں میں کمی آئے گی، لیکن اس پر سیاست جاری رہے گی۔
وجے ترویدی بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں ’سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے بلڈوزر کے ذریعے اپنی ایک تصویر بنائی ہے۔ اگر اب کارروائیاں کم ہوں تو بھی حکومت کوئی اور راستہ نکال لے گی اور وہ اس سے مستفید ہوتی رہے گی۔‘