مندر بادشاہوں کی موت کے بعد ان کی آخری رسومات کیلئے بنائے جاتے تھے، بادشاہ کی موت کے فوراً بعد قبیلے کے لوگ ان کا قبضہ سنبھال لیتے۔
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 63
دریا کا سفر
آخری کشتی آہستہ آہستہ سفر کرتی ہوئی دریا کے دوسرے کنارے پر جا پہنچی اور سارے مسافر ایک ایک کرکے اتر گئے۔ مقامی مصری تو اترتے ہی اپنی راہ لگے۔ سیاح اتر کر ایک طرف کھڑے ہوگئے، جہاں پہلے سے کافی تعداد میں بسیں موجود تھیں۔ جیسے ہی ایک بس بھر جاتی، مصری ڈرائیور اسے لے کر روانہ ہو جاتا۔ ہمارا دو بسوں پر مشتمل قافلہ ایک ساتھ ہی نکلا تھا۔
رعمیسس ثالث کا یادگاری مندر
انہوں نے مناسب سی رقم کے عوض سب سے پہلے ہمیں رعمیسس ثالث کے یادگاری مندر کی طرف پہنچا دیا۔ غالباً فرعونی دور کا یہ واحد مندر تھا جو بڑی حد تک ابھی اپنی اصلی ہیئت میں موجود تھا اور اس میں بنی ہوئی کم و بیش ساری ہی عمارتیں قابل شناخت حالت میں تھیں، جن کو دیکھ کر تاریخ دان بڑی کامیابی سے اس دور کی منظر کشی کر سکتے تھے۔
مندر کی تاریخ اور اہمیت
جیساکہ پہلے لکھا، یہ مندر بادشاہوں کی موت کے بعد ان کی آخری رسومات کے لئے بنائے جاتے تھے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی موت کی یادگار کے طور پر ان کی تعمیر کی جاتی تھی۔ کچھ مندر ان کی موت سے پہلے جبکہ کچھ ان کی موت کے بعد بنتے تھے۔ عموماً بادشاہ اپنی حکمرانی کے دوران ہی اپنے لئے یہ مندر تعمیر کروانا شروع کر دیتے تھے۔
مقبرے کے قریب مندر
یہ قسم کے زیادہ تر مندر بادشاہوں کے اصل مدفن سے ملحق ہوتے تھے، اگر کسی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نہ ہوتا تو کوشش کی جاتی کہ اس کے قریب ہی اس مقصد کے لئے کوئی جگہ مل جائے۔ بادشاہ کی موت کے فوراً بعد اس کے قبیلے کے لوگ ان مندروں کا قبضہ سنبھال لیتے۔ ان کے پروہت اور پجاری وہاں آکر بیٹھ جاتے تھے اور دن رات وہاں عبادتوں کا سلسلہ چلتا رہتا۔
مندر کا داخلی راستہ
رعمیسس ثالث کے مندر کا داخلی راستہ ایک پتھریلے قلعے کی طرح تھا جو زمین سے کافی بلند بنایا گیا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ہر طرف دیوہیکل اور بلند ستون، بڑے بڑے ہال کمرے اور بادشاہ کے مجسمے نظر آتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری تمام مقبروں کی طرح اس کی دیواروں پر بھی جانوروں، پرندوں اور دوسری اشیاء کے نقش و نگار کھدے ہوئے تھے۔
سیاحوں کا مشاہدہ
ہم نے جی بھر کے یہ کھنڈرات دیکھے اور باہر نکل آئے۔ اگرچہ اس علاقے میں اور بھی اسی قسم کے مندروں کے کھنڈرات موجود تھے، تاہم رعمیسس ثالث کا یہ مندر سب سے زیادہ اچھی حالت میں تھا۔ اس لئے عام طور پر سیاح اسے دیکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ البتہ جو تاریخ و تحقیق میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے وہ ہر طرح کے کھنڈرات ڈھونڈ کر وہاں تاریخ کے اوراق کھول کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں آپس میں تبادلہ خیال کرتے رہتے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔