پیرو میں چینی سرمایہ کاری سے تیار کردہ بندرگاہ جو امریکی دفاعی ماہرین کے لیے تشویش کا باعث بنی

دنیا یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کیسے تعلقات ہوں گے مگر اسی دوران چین نے ایک ایسا ٹھوس اقدام کیا ہے جس نے لاطینی امریکہ میں اسے مضبوط کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے امریکی صدارتی الیکشن جیتنے سے قبل چینی ساختہ اشیا کی درآمد پر 60 فیصد تک ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر جنوبی امریکہ میں چینی حمایت سے بننے والی ایک بڑی بندرگاہ ممکنہ طور پر نئے تجارتی راستے قائم کر سکتی ہے جو شمالی امریکہ کو پوری طرح بائی پاس کر دیں گے۔

صدر شی جن پنگ نے گذشتہ ہفتے خود چانکے پورٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چین اس کی تعمیر کو لے کر کس حد تک سنجیدہ ہے۔

شی جن پنگ ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) کے سالانہ اجلاس کے لیے لاطینی امریکہ کے ملک پیرو میں موجود تھے۔ مگر تمام نگاہیں چانکے پر تھیں اور اس حوالے سے دلچسپی پائی جاتی ہے کہ وہ خطہ جہاں روایتی طور پر امریکی اثر و رسوخ رہا ہے، وہاں اب چینی اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن نے کئی برسوں تک اپنے پڑوسیوں اور ان کی ضروریات کو نظر انداز کیا ہے اور وہ اب اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی سینیئر فیلو مونیکا ڈی بولے کا کہنا ہے کہ ’امریکہ طویل عرصے سے لاطینی امریکہ سے غیر حاضر رہا ہے۔ اور چین نے تیزی سے وہاں جگہ سنبھالی ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں نئی ترتیب تشکیل پائی ہے۔‘

انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’امریکہ کے پڑوسی اب چین کے ساتھ براہ راست تعاون کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‘

چانکے بندرگاہ کا منصوبہ اتنا اہم کیوں؟

چانکے بندرگاہ کا منصوبہ اتنا اہم کیوں؟

ایک وقت تک خوابیدہ رہنے والا ساحلی شہر چانکے پیرو کے دارالحکومت لیما سے 78 کلومیٹر دور واقع ہے جہاں ماہی گیر بستے تھے۔ مگر اس بندرگاہ کے افتتاح سے قبل ہی یہ سمندری نقل و حمل کا گڑھ بن گیا اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس بندرگاہ سے ملک کی معیشت سنور جائے گی۔

اس بندرگاہ کو 3.5 ارب ڈالر کی لاگت سے چین کی سرکاری شپنگ کمپنی کوسکو نے تعمیر کیا ہے۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق یہ چین اور پیرو کے بیچ تعاون اور مفاد کی فتح ہے۔

پیرو کے صدر دینا ارسیلیا بولوارتے کے مطابق یہ میگا پورٹ ’نظام اعصاب کے مرکز‘ کے طور پر کام کرے گا اور ’بڑی ایشین مارکیٹ تک رسائی فراہم کرے گا۔‘

مگر اس سے اثرات محض پیرو تک محدود نہیں ہوں گے۔ جب چانکے بندرگاہ پوری طرح فعال ہوجائے گی تو چیلی، ایکواڈور، کولمبیا اور حتی کہ برازیل کی اشیا شنگھائی اور دیگر ایشین بندرگاہوں پر پہنچنے کے لیے یہاں سے گزریں گے۔

چین اس خطے سے کئی اشیا درآمد کرتا ہے جیسے برازیلین سوئی بین اور چیلی کا تانبا۔ مگر اب یہ نئی بندرگاہ وسیع پیمانے پر اشیا اور بڑے بحری جہاز لے جانے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے۔ اس سے شپنگ کا دورانیہ 35 دن سے کم ہو کر 23 دن تک آ جائے گا۔

مگر یہ نئی بندرگاہ چینی درآمدات کے علاوہ برآمدات کے لیے بھی کارآمد ہوگی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ آن لائن خریدی گئی سستی چینی اشیا مقامی صنعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں، چیلی اور برازیل نے کم قیمت پر بیرون ملک سے خریدی گئی اشیا پر صارفین کو دی جانے والی ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نان فائلرز کیخلاف کارروائی کب سے شروع کرے گا؟ بڑا اعلان ہو گیا

چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبہ امریکہ میں تشویش کا باعث کیوں؟

چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبہ امریکہ میں تشویش کا باعث کیوں؟

امریکی دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر چانکے میں کنٹینر لے جانے والے بڑے بحری جہاز جھیلنے کی گنجائش اور صلاحیت ہے تو یہاں چین کے فوجی جہاز بھی آ سکتے ہیں۔

حال ہی میں امریکی سدرن کمانڈ سے ریٹائر ہونے والی سربراہ جنرل لارا رچرڈسن اس منصوبے کی بڑی ناقدین میں سے ہیں۔ یہ کمانڈ لاطینی امریکہ اور کیریبین کی نگرانی کرتی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ چین اس خطے میں اپنے ترقیاتی منصوبوں سے ’طویل مدتی کھیل میں ملوث ہے‘ اور یہ مقامات نہ صرف چینی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) کو مستقبل میں رسائی فراہم کریں گے بلکہ یہاں علاقائی گزرگاہیں قائم کی جاسکتی ہیں۔

اگر یہ مقاصد کبھی پورے نہ بھی ہوں تو اس کے باوجود یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے باعث امریکہ لاطینی امریکہ میں اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔

پیرو کے اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شریک ہوئے تھے۔ اپنے چار سالہ دور میں یہ ان کا جنوبی امریکہ میں پہلا اور آخری دورہ تھا۔ بعض مبصرین نے یہاں تک کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے مقابلے ایک کمزور رہنما کے طور پر نظر آئے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے گلوبل ساؤتھ یونٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ایلوارو مینڈیز کہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں امریکہ لاطینی امریکہ کو نظر انداز کر رہا تھا تو وہیں شی جن پنگ خطے میں بار بار دورے کر رہے تھے اور اچھے تعلقات استوار کر رہے تھے۔

ان کی رائے میں امریکہ کے لاطینی امریکہ سے تعلقات اس حد تک تنزلی کا شکار تھے کہ ’چین کو دروازے سے داخل ہونے کے لیے بس تھوڑی سی کوششیں کرنی پڑیں۔‘

لاطینی امریکہ وہ واحد خطہ نہیں جہاں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ جاری ہے۔ سال 2023 سے چین نے دنیا بھر میں قریب 150 ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔

اس سے ہمیشہ اچھے نتائج نہیں ملے۔ کئی منصوبے اب بھی زیرِ تعمیر ہیں اور ان پر کام رُکا ہوا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک چینی قرضے حاصل کرنے کے بعد اس کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔

ٹرمپ کی واپسی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہونے کا خطرہ

ٹرمپ کی واپسی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہونے کا خطرہ

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کی ماہر ڈی بولے کے مطابق اس سب کے باوجود چاہے کسی ملک کی حکومت دائیں جانب جھکاؤ رکھتی ہو یا بائیں جانب، انھوں نے چین سے متعلق اپنے شکوک و شبہات کو ایک طرف رکھ دیا کیونکہ ان کے اور بیجنگ کے مفادات ایک تھے۔ ’انھوں نے اپنی ضروریات کی وجہ سے یہ خطرہ مول لیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کو اس پیشرفت پر تشویش ہے کیونکہ بیجنگ نے ایک ایسے وقت میں خطے میں خود کو مضبوط کیا ہے کہ جب نومنتخب صدر ٹرمپ چین کے خلاف جوابی اقدامات چاہتے ہیں۔

انھیں لگتا ہے کہ ’چین کی وجہ سے امریکہ اب لاطینی امریکہ پر دباؤ ڈالے گا‘ جبکہ اکثر ممالک چاہیں گے کہ وہ دونوں طاقتوں سے اچھے تعلقات رکھیں۔

’خطے میں کوئی اس وقت تک کسی ایک طاقت کا انتخاب نہیں کرے گا جب تک انھیں مجبور نہ کیا جائے کیونکہ یہ احمقانہ ہوگا۔‘

جنوبی امریکہ کے ممالک جیسے پیرو، چیلی اور کولمبیا دباؤ سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ ان کے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ فری ٹریڈ معاہدے ہیں۔ ٹرمپ ان معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں یا انھیں سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان تجارتی معاہدے کا کیا مستقبل ہوگا جس پر جولائی 2026 میں نظر ثانی ہونی ہے اور 2025 کے دوران اس پر مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔

جو بھی ہو، پروفیسر میڈیز کا خیال ہے کہ اس خطے کو مزید تعاون درکار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 33 ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی پر بمشکل اتفاق کر پائیں گے لیکن ’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تمام جھکاؤ بیجنگ یا واشنگٹن کی طرف ہو۔ لاطینی امریکہ کو علاقائی تعاون کی بنیاد پر قائم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘

واشنگٹن میں قائم کونسل آف امریکاز کے نائب صدر ایرک فرانزورتھ کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی لاطینی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن بطور پڑوسی وہ اس کی ’وسیع تر ضروریات‘ کو پورا نہیں کر پا رہا۔

وہ Uses in Urdu کو بتاتے ہیں کہ ’خطے میں امریکہ کو اپنی حکمت عملی میں بہتری لانی ہوگی۔ کیونکہ لوگ اسی کا انتخاب کریں گے اگر یہ چین سے بہتر متبادل پیش کرتا ہے۔‘

مگر باقیوں کے برعکس وہ ٹرمپ کی واپسی کو لے کر پُرامید ہیں، خاص کر ان کے نامزد کردہ وزیر خارجہ مارکو روبیو کی وجہ سے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کرہ ارض کے مغربی حصے کے ساتھ معاشی سطح پر کیسے تعاون کرنا ہے، روبیو اس سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ کام ہم نے کئی برسوں سے نہیں کیا ہے۔‘

مگر کئی امریکہ رہنماؤں نے لاطینی امریکہ کے بارے میں غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کے تناظر میں ہی غور کیا ہے۔ ٹرمپ نے پناہ گزین کی ریکارڈ تعداد کو ڈی پورٹ کرنے کا وعدہ کیا ہے لہٰذا خیال ہے کہ امریکہ شاید ہی اپنی حکمت عملی تبدیل کر پائے۔

باقی دنیا کی طرح لاطینی امریکہ بھی آئندہ کے پیچیدہ چار برسوں کی تیاری کر رہا ہے۔ اگر امریکہ اور چین کے درمیان مکمل تجارتی جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ خطے کراس فائر کی زد میں آ سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...