جسٹس گل حسن کی قیمتی چیزوں میں بہت دلچسپی ہے، دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں،چیف جسٹس عامر فاروق کے مسکراتے ہوئے توشہ خانہ ون کیس میں ریمارکس
اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ون کیس کی سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے توشہ خانہ ون کیس واپس احتساب عدالت کو بھیجنے کی مخالفت کردی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ون کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں میرٹ پر سننے کا فیصلہ کیا۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر 27نومبر سے کیس کے میرٹ پر دلائل کا آغاز کریں گے۔ دوران سماعت چیف جسٹس ہائیکورٹ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی ان چیزوں میں بہت دلچسپی ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اب تک ہم ایلینز کیوں نہیں ڈھونڈ سکے؟ سائنسدانوں نے ممکنہ جواب تلاش کرلیا
سزا کی کالعدم قرار دینے کی اپیلیں
نجی ٹی وی چینل کے مطابق بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ون کیس میں سزا کالعدم قرار دینے کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کبھی کبھار شرافت اور نفاست بھی اچھی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے اس پر کہا کہ ہاں یہ بات تو ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ میں دو بار جیل گیا لیکن مجھے اندر نہیں جانے دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی ، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد سے متعلق بل منظور
عدالتی حیات اور پروسیکیوشن کے استدلالات
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہدایات نہیں لے سکے؟ بیرسٹر علی ظفر نے وضاحت کی کہ نہیں، میں بالواسطہ ہدایات مل گئی ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا پتہ کس منہ سے کیا اور کیسے بات کی گئی ہو گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں، میرے پاس تحریری طور پر ہدایات آ چکی ہیں۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس کیس کا سائفر کیس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، سائفر کیس میں 342 کا بیان ہوا تھا اس میں وہ بھی نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ایم ون موٹروے پر مسافر بس کا گیس سلنڈر پھٹ گیا، ہلاکتیں
پراسیکیوشن کی دلائل اور عدالت کے سوالات
پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرے پاس کیس ٹرائل کورٹ کو واپس بھیجنے کے بہت سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہاں سزا دلوائی اور ہائیکورٹ میں کہہ رہے ہیں کہ غلطی ہو گئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے وضاحت کی کہ غلطی پراسیکیوشن کی نہیں ہے، یہ عدالت اب کیس کی کارروائی میرٹ پر چلا سکتی ہے، کیا اس عدالت پر اتنا وقت لگانا اور شہادت میں جانا ضروری ہے؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کی کہانی: خاموشی کا دور ختم ہوگا
چیف جسٹس کی ہدایات اور ریمارکس
چیف جسٹس عامر فاروق نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی کہ آپ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کریں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ اب دوبارہ کیس ٹرائل کورٹ کو جائے اور یہ خامیاں ختم کر لیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ ٹرائل کورٹ میں اب خامیاں دور نہیں کر سکتے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کوٹیکنا کیس ریمانڈ بیک ہوا اور وہاں سے بریت ہو گئی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیونکہ اُس وقت حکومت بدل گئی تھی۔
کیس کے اہم نکات
میں ٹرائل کے طریقہ کار سے متعلق کچھ چیزیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، یہ ایک جیولری سیٹ کے تخمینے سے متعلق ہے۔ ایک انٹرمیڈیٹ پاس شخص سے جیولری سیٹ کی قیمت لگوائی گئی، جبکہ عمران مسیح خود کہتا ہے کہ وہ بی کام میں فیل ہو گیا تھا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی ان چیزوں میں بہت دلچسپی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ون کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں میرٹ پر سننے کا فیصلہ کیا۔